افشاں نوید
یہ جو دکھیاری ماں غم سے نڈھال بیٹھی ہے یہ ڈاکٹر عافیہ کی والدہ عصمت صدیقی ہیں۔
دوروز قبل جب ہم یوم دعاکے سلسلے میں ان کے گھر موجود تھے تو سب کی توجہ کا مرکز عصمت صدیقی تھیں یا معصوم پیاری سی مریم۔ ان دونوں کو نہیں معلوم کہ ایک کی بیٹی اور ایک کی ماں کو کیوں اغوا کیا گیا۔ ایسا کون سا جرم ثابت ہواکہ چھیاسی برس سے کم کی سزا ہی نہ بنتی تھی۔۔ اس کا چھ ماہ کا بیٹا کہاں گیا۔۔ مریم پر کیا بیتی۔۔
کلیجہ کانپ گیا جب مفتی صاحب نے اس دن دوران تقریر کہا کہ آج ہم سب اجتماعی استغفار کے لیے یہاں اکھٹے ہوئے ہیں اگر عافیہ نے روز حشر ہمارا دامن پکڑ لیا ہم پر استغاثہ دائر کردیا تو ہماری گردن چھڑانا مشکل ہو جائے گی۔
مفتی زبیر نے کہا۔۔ مدینہ منورہ میں ایک صحابیہ کا دوپٹہ ایک شریر یہودی کی سازش سے سر سے اتر گیا مارے تکلیف اور غیرت کے اس کے منہ سے یا محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) نکلا۔۔ اس نے امت کو پکارا تھا کہ کہاں ہیں ماؤں، بہنوں کی ناموس کی حفاظت کرنے والے۔ اور اس بات پر وہ گھمسان کارن پڑا کی چھ بدری صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے جام شہادت نوش فرمائی۔۔
ہاں وہ مدینہ کی بستی تھی وہاں مسلمان عورت کے آنچل کی یہی کم ازکم توقیر تھی۔
مفتی صاحب رو پڑے کہ ہم تو جانتے ہیں کہ عافیہ کے ساتھ کیاکیا نہیں ہو رہا اس کا واحد جرم مسلمان ہونا ہی تو ہے۔ وہ حافظہ قرآن، عالمہ، مجاہدہ، جو کچھ اس کے ساتھ ہو رہا ہے کیا وہ قرآن کی بے حرمتی کے زمرے میں نہیں آئے گا؟
عصمت آپا نے کمزور آواز میں جاندار پیغام دیا جو بس اک ہی پیغام کافی ہے کہ ہم قرآن کی طرف پلٹ آئیں تو سب غم و الم دور ھو جائیں گے۔۔ وہ بولیں اس وقت کا تصور کریں جب نبی رحمت صہ امت پرفرد جرم عائد کریں گے کہ یہ میری امت تھی جس نے قرآن کو چھوڑ دیا تھا۔۔ ہجرا مہجورا۔۔۔ کتنے سخت الفاظ ہیں یہ۔۔ قرآن سے بے وفا کی بہت سزا بھگت چکے ہم۔۔ گم شدہ افراد کی تعدادِ میں اضافہ ہی ہوتا جا رہا ہے۔۔ اپنے ناخنوں سے خود ہم نے اپنی تصویر بگاڑ لی ہے۔۔
بولیں قرآن مجھے مایوس نہیں ہونے دیتا اس نے مجھے تھاما ہوا ہے۔ امید دلاتا ہے کہ عافیہ ضرور آئے گی۔ بس مجھے خوف یہ ہے کہ میری معصوم عافیہ نے بہت سوں کا حساب سخت نہ کر دیا ہو۔۔ اس کی آہیں اللہ نہ کرے کسی کو لگیں۔۔ ورنہ اس کی دنیا و آخرت دونوں برباد ہوجائیں گی۔۔
معصوم مریم اور ان کا بیٹا احمد دونوں مہمانوں کی تواضع پانی پلانے، نماز کا اہتمام، کھانا تقسیم کرنے میں لگے رہے۔۔ ان بچوں کا صبر اس قوم پر نہ پڑے۔ ان دونوں کو دیکھ کر یہی دعا دل سے نکلتی رہی۔
مریم جو اپنی ماں کی ہوبہو تصویر ہے قریب کھڑی تھی جی چاہا اس کے شانے پر ہاتھ رکھ کر اک جملہ کہ دوں کہ۔۔ بیٹا معاف کردینا۔۔۔ مگر جرم چھوٹا تو نہیں ہے۔ اپنے مجرم ہونے کا احساس زبان اور لفظوں کے بیچ حائل ہوگیا۔۔
عافیہ کے گھر کے ڈرائنگ روم، لان، کوریڈور، کمرے سب میں عافیہ بسی ہے، اس کا لمس ہے جو محسوس کیا جاسکتا ہے۔
ڈرائنگ روم میں دیوار پر بڑی سی پرانی پیٹنگ لگی ہے۔۔ اللہ نور السموات والارض۔۔ شائد یہ عافیہ نے ہی لگائی ہو۔۔
ہاں عافیہ اللہ بے شک زمین وآسمان کا نور ہے۔۔ امتحان تو ہم آنکھوں کے اندھوں کا بڑا سخت ہے۔ تم تو ان شاء اللہ سرخ رو ہوگی۔ مگر تمہارے امتحان نے ہمیں ضمیر کا مجرم بنا دیا ہے۔۔ اللہ ہمیں اس آزمائش سے نکال لے جس نے اعصاب شامل کردئے ہیں۔۔
تاریخ ہمیں کس نام سے یاد کرے گی۔ ایک ایسی قوم جس نے ڈالروں کے عوض اپنی بیٹیاں فروخت کر دیں۔۔۔ اور حادثے سے بڑا سانحہ یہ کہ اس شرمناک فعل کو فخریہ تحریر کرکے تاریخ کا ایک باب رقم کیا اور ہمارے دشمنوں کو کہنے کا موقع ملا کہ یہ وہ قوم ہے جو پیسے کے لیے اپنی ماؤں کو بھی بیچ دیتے ہیں۔
عافیہ تمہاری ماں کو یقین ہے کہ تم ضرور آؤگی۔۔ ان کا ایمان ہے کہ وہ مایوس نہیں ہوں گی۔ کیونکہ قرآن ان کو روشنی کی طرف بلاتا ہے۔
عافیہ تم واپس آجاؤ بوڑھی ماں کی آنکھیں اس خواب کی تعبیر کے لیے جی رہی ہیں۔ احمد اور مریم نے بھی دروازہ کھلا رکھا ہے۔۔۔
٭٭٭
موضوع دیکھیے۔۔ پانچ سو صفحات کی یہ دقیق کتاب جامعۃ المحصنات کی فارغ التحصیل طالبہ حسین بانو نے پورے دس سال کی محنت شاقہ کے بعد لکھی ہے۔
ان دس برسوں میں وہ یا تو لائبریریوں میں پائی جاتی تھیں یا کمپوزنگ میں مصروف۔ یہ ان کے فارغ وقت کا استعمال تھا کیونکہ دن کا اولین حصہ تو وہ بحیثیت معلمہ اپنے فرائض انجام دے رہی ہوتی ہیں۔ آج کل ایک یونیورسٹی میں استاد ہیں۔
جامعہ سے وابستگی کے سبب ہمیں تو خوشی پچھلے برس ان کی ڈاکٹریٹ کی سند پر بھی بہت ہوئی اور ہم اپنا اعزاز سمجھ کر جی جان سے خوش ہوتے رہے۔ پی ایچ ڈی کے مقالے کے لیے انہوں نے جس موضوع کا انتخاب کیا اس موضوع پر آج تک اتنا کام نہیں ہوا جتنا اس اہم موضوع کاحق تھا۔۔
رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کا ہرگوشہ قیامت تک رہنمائے ہدایت ہے۔ آپ نے صرف انسانوں کی نجی زندگی کی گاڑی ہی کو درست ٹریک پر نہیں ڈالا بلکہ ریاستی معاملات بھی اس طرح چلائے کہ اپنی مثال آپ اور رہتی دنیا تک لائق تقلید ٹہرے۔۔ یونہی تو نہیں ایک صدی سے کم عرصے میں اسلام دنیا کی سپر پاور بن گیا۔۔
آپ کی خارجہ پالیسی پر بات ہونی چاہیے آج اس ہدایت اور روشنی کی جتنی ضرورت ہے اتنی پہلے کبھی نہیں تھی۔۔
اس دور میں کتاب لکھنا خاصہ کاردارد ہے۔۔ اور وہ بھی تحقیق پر مبنی۔۔ ہم تو یہی کہیں گے۔۔ جس کو ہو جان ودل عزیز اس کی گلی میں جائے کیوں۔۔
حسین بانو نہ صرف اس گلی میں گئیں بلکہ دروبام پر اپنا نام کندہ کر آئیں۔
جس نے تحقیق کی ہو لائبریری میں زندگی کا بہترین وقت گزاراہو۔ دس برس کی مسلسل تک ودو کے بعد کئی درجن کتابوں کی عرق ریزی کے بعد چھان چھان کر معلومات اکھٹی کی ہوں۔۔ ان کو ایک لڑی میں پروکر علم کی مالا بنایا ہو وہی اس کام کی قدر دانی جان سکتا ہے۔
بحریہ ٹاؤن کی تعمیرسے زیادہ جتن اٹھانا پڑتے ہیں ہمارے دیس کے مصنف کو صاحب کتاب ہونے کے لیے۔۔
حسین بانو جن کو ہمیشہ مس حسین ہی کہا کیونکہ وہ استاد تھیں، المحصنات میں ہمارے اسٹاف کا قابل قدرحصہ۔۔ وہاں کے سب اساتذہ بہت محنتی اور پرعزم تھے کیونکہ وہ ایک مشنری ادارہ ہے۔ طالبات کی تخلیقی صلاحیتوں کو پروان چڑھاتا ہے۔
مس حسین آپ نے بہت سے قرض چکا دیے۔ اپنے مسلمان ہونے کی ذمہ داری کو گہرائی سے محسوس کیا۔ المحصنات نے جو مشن آپ کوسونپا تھا آپ نے اس کا پاس ولحاظ کیا۔۔ معاشرے کو دلیل کی قوت فراہم کی۔۔
تن تنہا اس کام کے لیے مطلوب وسائل فراہم کیے۔۔ اگر آپ سے ذاتی رابطہ نہ ہوتا تو شائد اس کتاب کے سلسلے میں کی جانے والی کاوشوں کے بارے میں اتنا نہ جانتی۔۔
آپ کی یہ کاوش مستحق ہے کہ اہل علم کی پذیرائی پائے۔ اس کو لائبریریوں کا حصہ بنایا جائے۔۔ ہم اور آنے والی نسلیں جانیں کہ آپ علیہ الصلاۃ والسلام نے کتنی کامیاب خارجہ پالیسی بنائی اور کامیاب سفارت کاری کی۔۔
ایک سچی امتی کی طرف سے بہترین نذرانہ عقیدت ہے۔۔ اللہ کریم آپ کے لیے توشہ آخرت بنائے۔۔
آپ جامعۃ المحصنات کی تاریخ کا قابل ذکر باب ہیں۔۔ لیے دعاگو ہیں۔۔