شہناز باجی

996

ہادیہ امین
شہناز باجی کے خاندان میں یکے بعد دیگرے کئی شادیاں آنے والی تھیں۔کنیز کی اماں بہت خوش تھیں کہ اب باجی بہت سے سوٹ سلوانے کا آڑڈر دینگی۔۔شہناز باجی کے سوٹ سی کر کنیز کی اماں کو ایک الگ ہی خوشی ہوتی تھی۔نہ جانے اس کی وجہ شہناز باجی کی اپنائیت تھی یا ان کی خیال رکھنے کی عادت۔۔
“لو کنیز کی ماں!یہ کچھ جوڑے سلوانے ہیں۔پانچ چھ دن میں سی کر دے دینا”
شہناز باجی نے کہا۔ ۔
“ارے باجی!آپ جانتی ہیں آپ کے کپڑے میں سارے کپڑے چھور کر سیتی ہوں” کنیز کی ماں نے عاجزی سے کہا۔۔
“اللہ تمہیں خوش رکھے،پھر بھی جلدی نہیں ہے،پہلے ضروری آڈر نمٹالینا”
“جی باجی،ٹھیک ہے”
کنیز کی ماں کپڑوں سے بھرا تھیلا گھر لے آئیں۔تھیلا کھولا تو اس میں میں دو جوڑے سلائی کے تھے اور ساتھ ایک ناپ کا جوڑا جس کے حساب سے کپڑے سلائی کرنا تھے۔ تھیلا کھولتے ہی کنیز آگئی۔”اماں!یہ تو منال کے کپڑے ہیں سلائی کے؟” کنیز نے ماں سے پوچھا۔۔
“ہاں بیٹا!شہناز باجی نے دیے ہیں،شہناز باجی کو جلدی نہیں ہے۔ابھی تم اسکول کا کام ختم کرو،میں بھی تھکی ہوئی ہوں۔کل کٹنگ کرونگی تو سلائی میں مدد کردینا”
مگر کنیز ماں کی بات سن ہی کب رہی تھی۔۔ کپڑے دیکھ کر اس کی آنکھیں چندھیا گئیں تھیں۔منال کنیز کی ہم عمر ہی تھی۔دونوں میں دوستی بھی تھی جسکی وجہ شہناز باجی کی تربیت تھی جنہوں نے کبھی منال کو کنیز سے بات کرنے یا کھیلنے پہ کوئی اعتراض نہیں کیا۔وہ کہتی تھیں سب انسان برابر ہیں اور ہمیں اچھے لوگوں سے ہمیشہ دوستی کرنی چاہیے۔ منال کئی دفعہ پڑھائی میں بھی کنیز کی مدد کرتی۔
مگر نجانے کنیز کو کیا ہوا، اسکول میں بھی منال کے کپڑے کنیز کی آنکھوں میں گھوم رہے تھے ۔پتہ نہیں کس بات پہ آج کنیز کو غصہ بھی آ رہا تھا۔ ۔گھر پہنچ کر کنیز نے ماں سے کہا”ماں منال کے کپڑے کاٹ دیے آپ نے؟”
ماں نے جواب دیا،”ہاں بہت خوب صورت انداز میں کاٹے ہیں،شہناز باجی سختی نہیں کرتیں،پیسے بھی میری مرضی کے دیتی ہیں،شاید اس ہی لئے ان کے ہاں کے کپڑے اچھے بن جاتے ہیں۔۔تم فارغ ہو جائو اس کے بعد ذرا یہ فیتہ ٹانک دینا”
کنیز دل ہی دل میں کہنے لگی اوہ! اسی موقع کا تو انتظار کر رہی تھی ،ماں سے کہا”اماں میں فارغ ہی ہوں۔۔ابھی ٹانک دیتی ہوں” اور پھر دو ہی منٹ بعد ان کے گھر میں آواز گونج رہی تھی،”اماں جلدی آئیں! دیکھیں یہ کیا ہوا،غلطی سے منال کے کپڑوں پر اتنی بڑی قینچی چل گئی،فیتہ بھی سارا خراب ہو گیا اماں،لیکن خیر ہے منال کے پاس کوئی کپڑے کم تھوری ہیں،نئے لے لے گی یا کچھ بھی پہن لے گی” کچھ دبی دبی سی ہنسی تھی جو منال کے لہجے میں جھلک رہی تھی۔
“ارے کنیز یہ کیا کیا تم نے،یہ کیسے خراب کردیئے، ان کے ہاں کے شادی کے کپڑے تھے،اب یہ کس طرح سلیں گے۔۔کنیز یہ اتنی بڑی قینچی خود بخود نہیں چل سکتی۔۔اف اللہ میں شہناز باجی کو کس طرح دونگی یہ کپڑے ”
نجانے کس طرح بیچ بیچ میں سلائیاں کرکے کنیز کی ماں وہ جوڑے لے کر شہناز باجی کے ہاں پہنچیں۔
“اسلام وعلیکم شہناز باجی ”
کنیز کی ماں نے ڈرتے ڈرتے سلام کیا۔۔
“وعلیکم اسلام! آئو بیٹھو،کنیز منال تمہیں یاد کر رہی تھی۔کہہ رہی تھی کئی دن ہوگئے ملاقات نہیں ہوئی”
کنیز کی ماں نے ڈرتے ہوئے کہا،”باجی وہ دراصل آپ کے کپڑے۔ ……”
“کیا ہوا نہیں سلے؟؟” پھر ہنس کر کہنے لگیں “ارے وہ کپڑے تو منال نے کنیز کے لئے لئیے تھے،کیا ہوا جو نہیں سلے۔اس کو بھی سہیلیوں کو سرپرائز دینے کا شوق ہے۔۔کنیز نے شاید اگلے مہینے کسی کی شادی میں جانا تھا۔ہمارے ہاں بھی شادیاں چل رہی ہیں،کہہ رہی تھی میرے کپڑے ڈسپوزبل تو نہیں ہیں۔ایک دفعہ پہنے ہوئے دوبارہ پہن لونگی۔بس مجھے کنیز کے لیے کوئی پیارا سا سوٹ دلا دیں۔۔یہ سوٹ تمہارے ہیں کنیز۔۔جب شادی میں جائو پہن لینا”
کنیز یوں شہناز باجی کو دیکھ رہی تھی جیسے شرمندگی کے سمندر میں غرق ہو۔ ۔
“اچھا باقی باتیں بعد میں کرینگے۔ابھی میرے ساتھ درس میں چلو۔منال بھی وہیں ہے۔۔
کنیز میں تو شہناز باجی اور منال سے بات کرنے کی بھی طاقت نہیں تھی مگر وہ ان کے ساتھ درس میں چلی گئی۔درس کافی پہلے کا شروع ہوا ہوا تھا۔۔درس والی باجی بتا رہی تھیں۔
“اللہ کی تقسیم پہ راضی رہنا اور شکر کرتے رہنا اللہ کو بہت پسند ہے۔جب انسان اللہ کی تقسیم پہ راضی نہیں ہوتا تو وہ حسد کرتا ہے اور حسد نیکیوں کو اس طرح کھاتا ہے جیسے آگ لکڑی کو۔۔اور پھر حاسد سب سے زیادہ نقصان صرف اپنا کرتا ہے۔ شیطان کا حسد ہی تو تھا جس نے اسے جنت سے نکلوایا۔۔آدم علیہ السلام کے بیٹے قابیل نے ہابیل کو حسد کی وجہ سے ہی تو قتل کیا تھا اور اس طرح قابیل کو قیامت تک کے لئے ہر ناحق قتل کا ایک حصہ ملتا رہے گا۔یہودی قوم نے اسی لئے مسلمانوں سے حسد ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم بنی اسرائیل سے نہیں بلکہ بنی اسماعیل سے ہیں اور اسی وجہ سے وہ ایمان نہ لائے۔ اللہ کو شکر گزاری بہت پسند ہے۔۔جو شکر کرتا ہے اللہ اس کی نعمتوں کو بڑھاتا ہے…
کنیز سوچ رہی تھی، واقعی وہ حسد ہی کا تو شکار ہو گئی تھی۔اس نے منال کے کپڑوں پر قینچی چلاتے منال کے اور شہناز باجی کے سب احسان بھلا دئے۔وہ جانتی تھی اس کے اسکول کی فیس کون دیتا ہے۔وہ یہ بھی جانتی تھی کہ اگر بجلی کا بل زیادہ آجائے تو اسے کون بھرتا ہے۔۔وہ یہ بھی جانتی تھی کہ اماں شہناز باجی کو ہر نماز کے بعد بہت دعائیں دیتی ہیں۔۔اور پتہ نہیں کیا کیا تھا جو وہ نہیں بھی جانتی تھی مگر وہ کیا ہے کہ حسد نے آنکھوں پر پٹی باندھ دی تھی۔کنیز میں منال سے ملنے کی ہمت نہ تھی۔۔اماں کا ہاتھ پکڑ کر وہ جلدی سے گھر چلی گئی۔۔اسے گھر جا کر اللہ تعالیٰ کے سامنے بہت رو رو کر توبہ بھی تو کرنی تھی۔۔۔
nn

حصہ