حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم مکہ چھوڑنے پر کیوں مجبور ہوئے؟۔

1492

سید مہرالدین افضل
سُورۃ الْاَنْفَال کے مَضامین کا خُلاصہ
اَز تفہیم القرآن
چوتھا حصہ
تاریخی پس منظر:
حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے سیرت اور کردار کو دیکھیں، جس میں حُسن ہی حُسن ہے اور اِس کا اعتراف سب کرتے ہیں۔ لیکن یہ حقیقت ہے کہ قوم نے چالیس سال کی عمر تک انہیں کسی اِجتماعی ذمے داری کے لیے منتخب نہیں کیا ! کیوں؟ اِس لیے کہ اُنہیں یہ اُمید نہیں تھی کہ آپؐ کسی ظالمانہ معاملے میں ان کی طرف داری کریں گے اور یہ کہ سچائی اور راست بازی ذاتی حد تک تو ٹھیک ہے لیکن قبائلی اجتماعی معاملات اس طرح نہیں چلتے۔ اگر یہ ہمارے سردار بن گئے، تو یہ سب سے اُسی سیرت و کردار کا مطالبہ کریں گے۔ اور تو اور یہ جو کمزوروں اور غریبوں کے ساتھی ہیں، تو یہ اُنہیں بھی ہمارے برابر لے آئیں گے اور اِس طرح سارا نظام ہی درہم برہم ہو جائے گا۔ کسی نے آپؐ کی تنہائی (غارِ حرا جانے) کا بھی نوٹس نہیں لیا۔ اور جب آپؐ راہِ ہدایت کے ساتھ آئے اور دعوت دینی شروع کی‘ وہ دعوت جو تمام کی تمام معروف پر مشتمل تھی‘ عقل ِ عام کو اپیل کرتی تھی، دلوں میں جگہ بنا تی تھی، اُسے قبول کرنے کے بجائے اُن کے دشمن ہو گئے، گالیاں دیتے، پتھر مارتے، قتل کرنے کی کوشش کرتے۔ ایک دو دن نہیں‘ اُنہوں نے پورے 13 برس تک آپؐ پر سخت سے سخت مظالم توڑے اور آپؐ نے اِن سب تکلیفوں کو سہا مگر اپنی بات سے نہیں ٹلے۔ قوم کی دشمنی اس وجہ سے نہیں تھی کہ آپؐ اُن سے دنیا کی کوئی چیز بھی مانگ رہے تھے بلکہ ساری دُشمنی صرف اِس بات پر تھی کہ وہ ایک خدا کی بندگی اور پرہیزگاری اور نیک عملی کی تعلیم کیوں دیتے ہیں۔ بُت پرستی اور شِرک اور بد عملی کے خلاف تبلیغ کیوں کرتے ہیں‘ سرداروں کی سرداری کا جادو کیوں توڑتے ہیں‘ اِنسان اور اِنسان کے درمیان سے اونچ نیچ کا فرق کیوں مٹانا چاہتے ہیں‘ قبائلی اور نسلی تعصبات کو جاہلیت کیوں قرار دیتے ہیں‘ ایک زمانے سے سوسائٹی کا جو نظام بندھا چلا آرہا ہے اُسے کیوں توڑنا چاہتے ہیں۔ قوم کہتی یہ سب باتیں خاندانی روایات اور قومی طریقے کے خلاف ہیں‘ تم ان کو چھوڑ دو ورنہ ہم تمہارا جینا مشکل کردیں گے۔ ذرا سوچیے آپؐ نے یہ تکلیفیں کیوں اٹھائیں؟ قوم ان کو بادشاہی دینے پر آمادہ تھی، دولت کے ڈھیر ان کے قدموں میں ڈالنے کو تیار تھی، بشرطیکہ وہ اس تعلیم سے باز آجائیں مگر انہوں نے ان سب کو ٹھکرا دیا اور اپنی تعلیم کی خاطر پتھر کھانا اور ظلم سہنا قبول کیا۔
شعب ابی طالب اور غم کا سال:
مکی زندگی کا دسواں سال اس لحاظ سے بہت اہم ہے کہ اِس میں آپؐ سے دو عزیز ہستیاں جد اہوگیئں۔ اسے غم کا سال کہا جاتا ہے۔ عام طور پر اسے انسانی جذباتی صدمے کے طور پر دیکھا جاتا ہے جو کہ فطری تھا، لیکن اسے اتنی اہمیت دینے کی بڑی وجہ دعوت کی راہ میں پیدا ہونے والی رکا وٹ تھی جس کی وضاحت’’ قبیلہ ایک ریاست‘‘ کے ذیل میں ہو جائے گی۔ جب سردارانِ قریش آپؐ کو کسی طر ح اس مشن سے نہ روک سکے‘ جو اللہ نے انہیں سونپا تھا‘ تو انہیں ان کے قبیلے کی سرپرستی سے محروم کرنے کا اقدام کیا گیا اور بنی ہاشم کا معاشی، معاشرتی، سیاسی بائیکاٹ کر دیا۔ یہ پورے قبیلے کو ایک ساتھ قتل کر دینے کی کوشش تھی، انہیں ایک گھاٹی میں محصور کر دیا گیا تاکہ یہ وہاں سب سے کٹ کر بھوکے مر جائیں اور یہ ظالم اُس گڑھے کو اجتماعی قبر میں تبدیل کر دیں۔ یہ کتنے جبر کا دور تھا کہ اس کا اندازہ اس سے ہوتا ہے کہ اس زمانے میں ہونے والی کسی سفارت اور کسی کمیونی کیشن کا سراغ نہیں ملتا۔ ایسا نہیں ہے کہ آپؐ نے کوئی رابطہ کی کوشش نہ کی ہو، لیکن ایسا جبر تھا کی اُسے خفیہ ہی رکھا گیا اور بعد میں بھی اس کا ذکر نہ ہوا۔ یہ آپؐ اور بنی ہاشم کے سابقہ حسن سلوک اور خفیہ سفارت کا نتیجہ تھا کہ لو گ چھپ چھپ کر ان کی مدد کرتے رہے، اور بالآخر اِس معاہدے کے خلاف کھڑے ہو گئے۔ اگر اللہ کو صرف اَپنے حکم سے اِس معاہدے کو ختم کرنا ہوتا تو دیمک کو چاٹنے میں تین سال نہ لگتے بلکہ وہ ایک اِشارے سے ہی سب کے دل پھیر دیتا۔ لیکن اُسے تو وقت اور حالات کے مطابق انسانی کوشش، صبر، تحمل اور برداشت کو دیکھنا تھا اور اس میں آپؐ اور بنی ہاشم کامیاب ہوئے۔
قبیلہ ایک ریاست:
عرب قبائلی معاشرے میں قبیلے کی حیثیت ریاست کی طرح تھی۔ جس طرح آج اگر کسی فرد کے پاس کسی ریاست کی شہریت نہ ہو تو وہ زمین پر کہیں بھی ایک پائوں رکھنے کا حق دار نہ ہو گا۔ جب کوئی ریاست کسی فرد کو اپنا شناختی کارڈ، اپنا پاسپورٹ دیتی ہے تو اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ وہ یہ ذمے داری لیتی ہے کہ یہ ایک ذمے دار فرد ہے اور کوئی غلط کا م نہیں کرے گا۔ اور اگر کوئی غلط کام کرے تو اس کی ذمے داری ریاست کی ہوگی۔ ریاست اِس کا ہر جانہ اد کرے گی اور اَپنے فرد کی اِصلاح کرے گی۔ ضرورت ہوگی تو اُسے سزا دے گی۔ اِسی طرح اگر اُس فرد کو کوئی نقصان پہنچایا گیا تو ریاست اُس کا بدلہ لے گی۔ اپنے شہری کا تحفظ کرے گی۔ عرب معاشرے میں کسی فرد کو پناہ دینے کا مطلب یہ تھا کہ قبیلہ اس فرد کے اچھے اور برے‘ ہر عمل کی ذمے دار ہے اور اس کا تحفظ ہر حال میں کرے گا چاہے وہ ظالم ہو کہ مظلوم۔ اگر کسی فرد سے کوئی قتل ہو جائے تو قبیلہ اس کی سرپرستی اس طرح کرتا تھا کہ متاثرہ قبیلے سے مذاکرت کرکے جان کے بدلے جان یا پھر جان کے بدلے خوں بہا ادا کرتا۔ اگر فرد کے پاس خوں بہا ادا کرنے کے لیے رقم نہیں ہے تو پورا قبیلہ اُس کی مدد کرتا۔ اِسی طرح آج کی جدید ریاست بھی اپنے شہری کی ذمے داری قبول کرتی ہے۔ اس تفصیل کی ضرورت اس لیے پڑی کہ آپ حضرت خدیجہؓ کے وصال اور حضرت ابو طالب کے انتقال کے بعد حضورؐ کی پوزیشن کو سمجھ سکیں۔ حضرت ابو طالب کے انتقال کے بعد ابو لہب قبیلہ بنی ہاشم کا سردار بن گیا، جو آپ کا دشمن تھا، جس نے پورے بنی ہاشم کو شعب ابی طالب میں مر جانے اور دفن ہو جانے کے لیے چھوڑ دیا تھا۔ اب اُس سے آپؐ کو کوئی قبائلی تحفظ کی امید نہ تھی اِس لیے آپؐ نے طائف کا رُخ کیا، طائف جانے کا حکم آپؐ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہوا تھا‘ اِس کا ہمیں کوئی ثبوت قرآن مجید یا احادیث سے نہیں ملتا، یہ آپؐ کا اپنا فیصلہ اور اقدام (initiative) تھا۔ طائف کے لوگ خوش حال تھے۔ اُن کے یہاں اپنا بھی ایک بت خانہ تھا لیکن مذہبی طور پر وہ مکہ میں خانۂ خدا ہونے کی وجہ سے اُن سے مرعوب تھے اور اس سلسلے میں قریش کے برتر ہونے اور اپنے کم تر ہونے کا احساس ان میں موجود تھا۔ قریش آپؐ کی دعوت اس لیے قبول نہیں کر رہے تھے کہ اگر ہم نے ان بتوں کو بیت اللہ سے نکال دیا تو عرب میں ہماری مرکزیت ختم ہو جائے گی تو اہل طائف بھی یہ سوچ سکتے تھے کہ اگر ہم نے ایک اللہ کو ماننے کی دعوت قبول کرلی اور اس دعوت کو کامیابی حاصل ہو گئی، تو مرکزیت ہمیں حاصل ہو جائے گی ۔ یہ امکان تھا! جس کو رو بۂ عمل لانے کے لیے آپؐ نے طائف کا انتخاب کیا۔
آپؐ مکہ کیوں چھوڑنا چاہتے تھے:
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت ابتدائی دس سال میں یہ ثابت کر چکی تھی کہ اس کی پشت پر ایک بلند سیرت، عالی ظرف اور دانش مند علمبردار موجود ہے جو اپنی شخصیت کا پورا سرمایہ اس کام میں لگا چکا ہے اوراس کے طرزِ عمل سے یہ حقیقت پوری طرح نمایاں ہو چکی تھی کہ وہ اس دعوت کو انتہائی کامیابی کی منزل تک پہنچانے کے لیے اٹل ارادہ رکھتا ہے اور اس مقصد کی راہ میں ہر خطرے کا مقابلہ کرنے اور ہر مشکل کو برداشت کرنے کے لیے تیار ہے۔ دوسری طرف اس دعوت میں خود ایسی کشش تھی کہ وہ دلوں اور دماغوں میں داخل ہوتی جارہی تھی اور جہالت اور تعصبات کے اندھیرے مٹتے چلے جا رہے تھے اسی وجہ سے عرب کے پرانے جاہلی نظام کے حامی جو شروع میں اس دعوت کو ہلکا سمجھ رہے تھے‘ اب ا سے ایک سنجیدہ خطرہ سمجھنے لگے تھے،اور اپنا پورا زور اِسے کچلنے میں لگا دینا چاہتے تھے۔(ماخوذ اَز رسالت محمدیؐ کا عقلی ثبوت)
اللہ سُبٰحانہٗ و تعٰالیٰ ہم سب کو اپنے دین کا صحیح فہم بخشے اور اس فہم کے مطابق دین کے سارے تقاضے اور مطالبے پورے کرنے کی توفیق عطا فرمائے‘آمین ۔ وآخر دعوانا ان لحمد للہ رب العالمین۔

حصہ