نون ۔الف
کرچی کرچی کراچی اور دل شکستہ کراچی والے اس حال کو پہنچا دیے گئے ہیں کہ اگر رونا بھی چاہیں تو رو نہیں سکتے‘ اس کی وجہ یہ ہے کہ یہاں کے باسی قاتلوں اور لٹیروں کو اپنے ہی ہاتھوں اپنے اوپر مسلط کرنے کا جرم بارہا کرچکے ہیں۔ اس ستم رسیدہ شہر نے گزشتہ تیس سال جس کرب اور اذیت میں گزارے ہیں اس کا اندازہ ان سے بہتر کوئی نہیں لگا سکتا۔
دکانوں کا بھتہ ، کاروبار کے تحفظ کے نام پر پرچی کاٹنا اور پھر مفتوح علاقوں میںکسی کی چودھراہٹ کو دوام دینے چوکیوں سے ہوکر گزرنا … یہ سب کراچی نے سہا ہے ۔
اللہ اللہ کرکے اس عذاب سے نجات ملنے کو تھی کہ یہاں کے لوگوں ایک اور عذاب کو اپنے اوپر تبدیلی کے نام پر مسلط کیا۔ نہ ووٹ لینے والے کی ولدیت پوچھی نہ حسب نسب معلوم کیا‘ بس ایک بھیڑ چال تھی کہ وزیراعظم کراچی کا اور پھر چار سال الیکٹرانک میڈیا کے طبلے کی تھاپ اور ’’مقتدرہ‘‘ کے جلو میں جو تبدیلی رونما ہوئی کہ وہ پہلے والے حالات سے بھی زیادہ بھیانک ثابت ہورہی ہے۔ اب غریب رکشے والا چالان کے خوف سے رکشے کو آگ لگائے یا خود کو سپرد آتش کردے ، کسی کو کیا پروا !
دو سال قبل تیونس میں غریب ریڑھی والے نے پولیس کی زیادتی کے خلاف خود کو زندہ جلا لیا تھا مگر اس قربانی کا نتیجہ یہ نکلا کہ تیونس سمیت دنیا کے ایک بڑے حصے میں ظلم و زیادتی کے سمبل حکمرانوں کے خلاف عوام سڑکوں پر نکل آئے اور وقت کے ان فرعونوں کو اپنے اقتدار سے ہاتھ دھونا پڑا۔
مگر یہ پاکستان ہے‘ یہا ں بے حسی کا ڈیرہ ہے، ناچ رنگ ٹھمکے اور بے ہودہ ثقافت کی یلغار ہے جس کی رو میں بہنے والوں کو یہ بھی نہیں معلوم کہ وہ اپنے ہی ہاتھوں سے اپنی قبر کھود چکے ہیں۔
ان ہوشیاروں کو یہ بھی نہیں معلوم کہ ان کا حقیقی غم گسار اور مسیحا کون ہے؟ جس کو ’’مسیحا‘‘ سمجھ کر ’’تبدیلی‘‘ کے نام پر دھوم دھڑکے اور شہنائیوں ڈھول تاشوں کے ساتھ لے کر آئے، وہی ان کے سروں سے ان کی چھت ، ان کا کاروبار اور ان کی زندگی بھر کی کمائی چھیننے کے درپے ہو گئے۔
گزشتہ دنوں کراچی کے علاقے گارڈن سے متصل قیام پاکستان سے قائم بستی ’’پاکستان کوارٹرز‘‘ کے مکینوں پر جو قیامت ٹوٹی وہ کسی اور کے ہاتھوں نہیں بلکہ ان کے اپنے منتخب عوامی نمائندوں کے ہاتھوں نازل ہوئی۔
وہ نمائندے جو انتخابات سے قبل اپنے ہر انتخابی جلسے میں ان سرکاری کوارٹرز کے مکینوں کے وکیل اور محافظ بنے ہوئے تھے‘ انتخاب جیتنے کے بعد ایسے غائب ہوئے کہ اب ان کا نام و نشان تک نہیں مل رہا۔
میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا کہ مسلح پولیس اہل کار نشتر روڈ پر ممکنہ بے دخلی کے خلاف احتجاج کرنے والے پاکستان کوارٹرز کے رہائشیوں پرٹوٹ پڑے، آنسو گیس، لاٹھی چارج ، واٹر کینن کے ساتھ پاکستان کوارٹرز کے مکینوں کو بے دخل کرنے کے لیے سپریم کورٹ کے فیصلے پر عمل درآمد کے لیے نہتے مرد‘ خواتین اور بچوں پر ٹوٹ پڑے۔
بوڑھی خواتین چشم زدن میں واٹر کینن کی زد میں آکر اوندھے منہ گر پڑیں۔ آپ نے وہ تصویریں دیکھی ہوں گی جن میں پولیس کے تشدد کا شکار کئی بزرگ خون میں لت پت ہیں۔
شہر نا پرساں کو ان کوارٹرز کے مکینوں پر گزری قیامتِ صغریٰ اور عذاب کی خبر تک نہیں۔ سیاست دان اپنی ڈفلی اپنا راگ بجارہے ہیں۔
تحریک انصاف کے منتخب نمائندے سپریم کورٹ کی دلالی میں منہ کالا کر رہے ہیں۔ لے دے کر ایک جماعت اسلامی اور چند دیگر سیاسی قائدین نے اس مسئلے کو اپنا مسئلہ سمجھتے ہوئے آواز بلند کی۔ مگر نقار خانے میں یہ آواز دب کر رہ گئی۔
جب میڈیا نے اس ظلم و تشدد کی کوریج دینی شروع کی تب کہیں جاکر گورنر صاحب اور وزیر اعلیٰ کو ہوش آیا اور انہوں نے اس زیادتی کے خلاف اپنا گول مول مؤقف پیش کیا اور اس بات کا کریڈٹ لینے کی کوشش کی کہ یہ آپریشن ہم نے تین ماہ کے لیے مؤخر کروادیا ہے۔
سندھ حکومت اس بات سے انکاری ہے کہ بے دخلی کا یہ ایکشن ہماری مرضی سے ہوا۔ کمشنر کراچی بھی اس سے لاعلم ہیں کہ یہ کارروائی کس کے حکم سے ہوئی؟ اور چھ گھنٹے یہی جاننے میں گزر گئے کہ اس کارروائی کے پیچھے کس کا ہاتھ ہے؟
تفصیلات کے مطابق پاکستان کوارٹرز سے ممکنہ بے دخلی کے خلاف مظاہرہ کرنے والوں پر پولیس نے دھاوا بول دیا اور متعدد مظاہرین کو حراست میں بھی لے لیا جب کہ پولیس اور مظاہرین کے درمیان جھڑپوں میں 6 اہلکاروں سمیت درجنوں افراد زخمی ہوگئے۔ عدالت کے احکامات کے پیش نظر پاکستان کوارٹرز میں گھروں کو خالی کرانے کے متوقع آپریشن کی اطلاع پر پاکستان کوارٹر کے مکینوں نے احتجاج کیا اور حکومت کے خلاف نعرے بازی بھی کی۔ احتجاج میں خواتین مرد اور بچے بھی شامل تھے۔ مظاہرین کا کہنا تھا کہ 1947 میں قائم ہونے والے کوارٹر خالی نہ کروائے جائیں، ہمارے پاس سرٹیفکیٹ موجود ہیں، ہر مہینے کرایہ ادا کرتے ہیں پھر بھی ہمارے ساتھ ناانصافی کی جا رہی ہے۔ ہم کوارٹرز خالی نہیں کریں گے۔ علاقہ مکینوں نے پاکستان کوارٹرز کے داخلی راستے رکاوٹیں لگا کر بند کردیے۔
اس دوران پولیس کے ایک اہلکار نے ہوائی فائرنگ کی جسے ضابطۂ اخلاق کی خلاف ورزی پر حراست میں لے کر اسلحہ بھی ضبط کرلیا گیا۔ اس مسئلے کو عام کچی بستیوں اور قابضین سے ہٹ کر دیکھا جانا چاہیے جس کی وجہ یہ ہے کہ اس میں رہنے والے سرکاری زمین یا کسی اور کی زمین پر نہیں بیٹھے ہیں۔ یہ جگہ متروکہ املاک ہے جس پر بانی ٔ پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح نے اس وقت کے سرکاری ملازمین کو‘ جو ہجرت کرکے پاکستان آئے تھے، سرکاری خدمت کے اعتراف میں یہ جگہ رہائش کے لیے دی تھی لہٰذا یہ قبضہ نہیں اور متروکہ املاک پر حکومت پاکستان یا سندھ حکومت کا بھی دعویٰ نہیں لہٰذا اصول تو یہ کہتا ہے کہ ان رہائشیوں کو معقول رقم کے عوض مستقل طور پر لیز کرکے اس معاملے کو مستقل بنیادوں پر حل کیا جائے۔ یہی مؤقف وہاں کے رہنے والوں کا اور جماعت اسلامی و دیگر سیاسی جماعتوں کا بھی ہے ۔
اب آتے ہیں تصویر کے دوسرے رخ پر۔
دوسرا رُخ نہایت بھیانک ہے۔ متحدہ قومی موومنٹ‘ جس کے ماضی میں دو وزرا ہاؤسنگ اینڈ پلاننگ کے تھے‘ اسی طرح پاکستان پیپلز پارٹی کے بھی دو مرتبہ اسی وزارت کے وزیر تھے، مگر دونوں جماعتوں نے اس اہم ترین انسانی حقوق کے معاملے کو ہمیشہ اپنی انتخابی و لسانی سیاست کے لیے استعمال کیا اور مالکانہ حقوق دلوانے کے نام پر سیاست چمکا تے رہے حالانکہ وہ اگر چاہتے تو صرف ایک آرڈر کے ذریعے پچھلے فیصلوں کی روشنی میں ان کوارٹرز کو لیز دے سکتے تھے۔ مگر افسوس ناک صورت حال یہ رہی کہ اس معاملے کو لٹکادیا گیا اس لیے کہ اس زمین سے کھربوں روپے کی خوشبو آرہی تھی۔
اس دفعہ کراچی کے لوگوں نے ملک بھر میں چلی تبدیلی کی ہوا اور غریب کی نمائندگی کے دھوکے میں اپنے طور پر درست انتخاب کیا اور تحریک انصاف کی ’’تبدیلی‘‘ کو ووٹ دیا مگر اس تبدیلی نے پہلے ہی ہفتے میں اپنے دانت دکھانے شروع کردیے اور کراچی کے سرکاری کوارٹرز سمیت دیگر تجاوزات کے خلاف آپریشن کلین اور گرین شروع کردیا۔
بنی گالہ میں قائم وزیراعظم کا محل بھی ناجائز جگہ پر بغیر کاغذات کے قائم ہے، مگر عدلیہ نے وزیر اعظم کو معمولی جرمانے کا پابند کرکے محل کو قانونی جواز فراہم کرد یا۔
اب آتے ہیں اس مسئلے کی حقیقت کی جانب جس پر نہ ہی سپریم کورٹ دھیان دے رہی ہے اور نہ ہی عوام کو اس کی حقیقت سے آگاہی مل رہی ہے۔
اصل معاملہ کچھ اس طرح کا ہے کہ یہ زمین قیامِ پاکستان سے بہت پہلے متمول ہندوئوں کی ملکیت تھی جسے 1915 میں 80 سال کی لیز پر مالکانہ حقوق کے ساتھ انہیں دیا گیا تھا۔ 1947 میں ہجرت کے بعد ہندو یہاں سے چلے گئے اور اس طرح 1948 میں قائد اعظم اور لیاقت علی خان کی مرضی سے 10 سال کی عارضی شیلٹر بستی اس جگہ بنائی گئی اور تعریف و توصیف اور سرکاری ملازمین کی خدمات کے اعتراف میں یہ جگہ رہائش کے لیے ان کے حوالے کی گئی اور سرکاری کوارٹرز آباد کیے گئے۔ ایف سی ایریا کا 45 ایکڑ رقبہ ، پاکستان کوارٹرز ، جہانگیر کوارٹرز کلیٹن کوارٹرز کا 36 ایکڑ رقبہ اور پٹیل پا ڑہ میں موجود 12 ایکڑ ارا ضی وغیرہ ملا کر کل 200 ایکڑ زمین سرکاری کوارٹرز قرار دیے گئے۔
یہ زمینیں چونکہ متروکہ املاک تھیں اس لیے کسی بھی ڈپارٹمنٹ یا حکومت کا اس پر کلیم نہیں تھا۔ قانونی ماہرین کے مطابق ایسی زمین جس پر کوئی بھی حق ملکیت نہ ہو وہ اسی کی ملکیت قرار پاتی ہے جو اس پر رہتا ہو۔ چنانچہ اس پر ملکیت کا حق ان میں آباد لوگوں کا ہی بنتا ہے۔1995 میں لیز کی مدت ختم ہوگئی اور اس کی تجدید کے نوٹس جاری ہوئے مگر کوئی بھی ہندو تجدید کروانے نہیں آیا۔ یہاں کے رہنے والوں نے عدالت میں درخواست داخل کی کہ ہم کو اس کی ملکیت دی جائے۔ اس سے پہلے ذوالفقار علی بھٹو نے اپنی دور وزارت میں گزٹ نوٹی فکیشن کے ذریعے آرڈر جاری کیا تھا کہ یہ زمین یہاں کے رہنے والوں کو مالکانہ حقوق کے ساتھ دی جائے گی اور اس طرح اس بارے میں فیصلہ ہوا کہ اس کو کچی آبادی کی وزارت کے حوالے کرکے دس روپے فی گز کے حساب سے وہاں کے رہائشیوں کو الاٹ کر دی جائے ۔
مگر اس وقت سے لے کر آج تک حقیقت کو چھپایا جارہا ہے تاکہ اس زمین کو اربوں روپے حاصل کرکے انٹرنیشنل بلڈر مافیا کے ہاتھوں کمرشل اسکیم ، حکومتی منصوبوں اور اسی طرح کے دوسرے خوش نما پراجیکٹس کے نام پر حاصل کیا جا سکے۔
ہماری اطلا عات کے مطابق انیل مسرت نامی انٹرنیشنل بلڈر اور آغا خان گروپ ان قیمتی زمینوں کی خریداری میں اپنی دل چسپی ظاہر کرچکا ہے اور کروڑوں روپے عمران خان کی انتخابی مہم اور میڈیا کمپیئن کی مد میں ایڈوانس میں خرچ کرچکا ہے ۔
خاکم بدہن آگے آگے دیکھیے ہوتا ہے کیا ؟ ہمیں پتا چلا ہے کہ لیاری کی قدیم بستی اور لائنز ایریا کے مکانات کی سینکڑوں ایکڑ ارا ضی بھی انٹرنیشنل مافیا اور تبدیلی کے دعوے داروں کی نظروں میں ہے ۔