اس ہفتہ ویسے تو کئی کراچی میں ضمنی الیکشن سمیت کئی دیگر موضوعات سوشل میڈیا پر زیر بحث رہے جن میں حکومت کے مختلف اعلانات کو ہدف تنقید بنایا جاتا رہا۔ ایک موضوع تو تین دن تک زیر بحث رہا وہ تھا جامعہ پنجاب کا ۔اس پر بات کرنے سے قبل میں ایک اور اہمیت کے حامل موضوع پر با ت پہنچانا چاہوں گا ۔جمعرات کے روز یورپین یونین کورٹ برائے انسانی حقوق میں سات ججز کے پینل نے ایک اہم فیصلہ سنایا۔ 2009میں آسٹریا کی رہائشی ایک ملعونہ خاتون نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی شان اقدس میں گستاخی پر مبنی دوسیمینار کیے ۔ اس کے اس اقدام کے خلاف عدالت سے رجوع کیا گیا۔ عدالت نے فیصلے میں واضح طور پر کہاکہ مذکورہ خاتون کے نبی کریم ﷺ کے بارے میں بیانات کو اظہار آزادی کا لبادہ نہیں پہنایا جا سکتا۔نبی کریم ﷺ کی ذات مبارکہ کی شان میں گستاخی کے الفاظ کسی بھی موضوع پر گفتگو کے آداب سے باہر ہیں ، ان کو کسی طرح آزادی اظہار رائے نہیں کہا جا سکتا۔یہ خاتون آسٹریا کی مقامی عدالت سے دو مرتبہ اسی طرح کا فیصلہ پہلے لے چکی تھی اور مسلمانوں کے جذبات بھڑکانے اور مذہبی امن کو سبوتاژ کرنے کے جرم میں اُس پر جرمانہ بھی عائد کیا گیاتھا ۔تاہم اُس نے یورپین کورٹ برائے انسانی حقوق میں مزید اپنے حق میں فیصلے کی خاطر رجوع کیا تھا،مگر نتیجہ الٹ ہی نکلا۔
اس فیصلہ کے بعد اگلے دن تک ٹوئٹر پر ProphetMuhammadٹرینڈ لسٹ میں آگیا تھا لیکن معاملہ یہ ہوا کہ یورپ و دنیا بھر سے اس پر ٹوئیٹس جاری تھیں ، جن میں زیادہ تر تو لبرلز ہی اپنی غلیظ رائے کا اظہار کرتے نظر آئے ۔اب یہ بات بھی مزید دلیل کے طور پر ہے جو لوگ یور پ کو مہذب اور قانون پر عمل کرنے والا کہتے ہیں کہ جب سات رکنی عدالتی بینچ نے فیصلہ سنا دیا تو مان لو بھی ، جبکہ وہی فیصلہ آسٹریا کی دو مقامی کورٹ پہلے بھی دے چکی تھیں۔اب معاملہ یہ ہے کہ آپ ٹوئٹر کھول کر پوسٹوں کی صورتحال چیک کریں گے تو کانوں کو ہاتھ لگا لیں گے ۔ یہ تو ہمارا حال ہے ، ویسے میرے محتاط اندازے کے مطابق ابھی لوگوں کی سمجھ نہیں آیا اس لیے کچھ نہیں کر پا رہے ورنہ ان لبرلز کی ایسی بینڈ بجا چکے ہوتے کہ مت پوچھیں ۔بہر حال اپنی ٹوئیٹ کر کے میں تو اپنا حصہ ڈال رہا ہوں ، جب تک یہ مضمون شائع ہو کر آپ تک پہنچے گا اُمید ہے کہ دنیا بھر کے مسلمان ضرور جاگ جائیں گے۔
اب آتے ہیں لوکل جامعہ پنجاب والے موضوع پر جس پر بہت کچھ لکھا جا چکا ہے۔ ویسے تو کچھ دن قبل جہاں پنجاب یونیورسٹی کے سابق وائس چانسلر مجاہد کامران و دیگر اساتذہ کو مبینہ کرپشن کے الزام میں نیب نے گرفتار کیا ، ہتھکڑیوں کے ساتھ ملزمان کو دیکھ کر سماجی میڈیا پرخاصا رد عمل سامنے آیا ۔تب بھی جامعہ پنجاب موضوع بنی رہی ، پھر اس ہفتہ جامعہ پنجاب میں ایک اور واقعہ رونما ہو گیا ، گو کہ اس طرزکے واقعات پہلے بھی ہوتے رہے ہیں ، مگر اس بار سماجی میڈیا پر اسلامی جمعیت طلبہ کے مخالفین اپنی تمام حشر سامانیوں کے ساتھ بغیر حقائق و واقعات جانے میدان عمل میں کود پڑے ۔ وہی ہوا ہمیشہ کی طرح ماضی کھنگالا گیا ۔کسی کو جامعہ پنجاب میں جمعیت کی بے شمار تعلیمی ، طلبہ بہبود اور دیگر مثبت سرگرمیاں ماضی سے نہیں ملیں البتہ عمران خان پر حملے سے لے کر ،طلبہ تنظیموں کے جھگڑوں پر مشتمل تمام واقعات یاد آگئے۔ ٹوئٹر پر PU occupied by goons( پنجاب یونیورسٹی غنڈوں کے قبضہ میں) کے نام سے ہیش ٹیگ اتنا مقبول ہوا کہ ٹرینڈ لسٹ میں آگیا۔ساتھ ہی پنجاب یونیورسٹی بھی خاصا زیر بحث موضوع بن گیا۔اب معاملہ مجموعی طور پر دیکھیں تو ایسا ہی لگے گا کہ سچائی کیا ہے اور کس طرح سے پیش کی جا رہی ہے اور کس طرح تبصرہ نگار اپنے اپنے تجزیہ پیش کر رہے ہیں۔ ایسے میں جامعہ پنجاب کے ترجمان کا مقامی چینل پر تفصیلی بیان بہت کچھ سمجھا رہا تھا ،تاہم وہ لوگ جن کا کوئی ایجنڈا ہو وہ یہ سب نہیں دیکھتے ، اُنہیں یہ سب بناوٹی لگتا ہے ۔بہر حال ایک بار پھر دیسی لبرلز کی جانب سے سوشل میڈیا پر مذہبی انتہا پسندی کو زبردستی کا موضوع بنا ہی ڈالاگیا۔اہم بات یہ ہوئی کہ جمعیت نے بھی عقل مندی دکھاتے ہوئے اُسی ہیش ٹیگ کو اپنے دفاع اور حقیقت بتانے کے لیے استعمال کیا جس کے نتیجے میں معاملہ قدرے بیلنس ہوا۔اگلے دن ڈان اخبار نے یہ سرخی لگا دی کہ 5اسلامی جمعیت طلبہ کے طالب علموں کو کیمپس میں ایک شخص پر تشدد کرنے کے خلاف پنجاب یونیورسٹی نے معطل کر دیا۔ جبکہ خبر کے مکمل متن میں یہ جملہ درج تھا کہ
”A meeting of university administration officials took place today, after which it is expected that a formal notification will be issued announcing the suspension of the five students and the security guard.”
جو یہ بات واضح طور پر بتا رہا تھا کہ ابھی تک ایسا کوئی تحریری فیصلہ نہیں آیا ، تاہم اخباری سرخی نے جو کام دکھانا تھا وہ دکھا دیا ۔اسی طرح ایکسپریس ٹریبیون نے بھی اپنی روایت کو زندہ رکھتے ہوئے اس سرخی کے ساتھ خبر رپورٹ کی
“Moral policing: IJT activists thrash student’s husband on PU campus”
یہ خبر بھی بہت سارے تجزیوں تبصروں کے ساتھ سوشل میڈیا پر گردش کرتی رہی ،خصوصاً جب کہ یہ بات سامنے آئی کہ خاتون کا بیان جھوٹا تھا اور پکڑا جانے والا شخص اس کا شوہر نہیں تھا ۔ اس پر یوں تبصرے کیے گئے ، جامعہ پنجاب میں جو لڑکے لڑکیاں پکڑے جاتے ہیں وہ پہلے بہن بھائی ، پھر کزن اور پھر میاں بیوی بن کر غائب ہو جاتے ہیں ۔‘‘اہم بات یہ ہے کہ اس موضوع پر سوشل میڈیا پر تحریک انصاف کے یوتھیے نہ جانے کیوں کود پڑے اور پرائی لڑائی کو اپنا جان کر جامعہ پنجاب کو ’آزاد‘کرانے نکل پڑے ۔جمعیت کو بے دخل کرنے، لگام دینے ، جمعیت کی غنڈہ گردی ختم کرنے، ماضی میں عمران خان والے واقعہ کے مثال بنا کر،ماضی کی دیگر خبروں کی پوسٹیں نکال کر خوب شور مچایا گیا۔
جمعیت کی جانب سے نے دفاعی جواب دینے کے بجائے جامعہ کے آفیشل ورژن کو ہی پروموٹ کیا ۔البتہ دیگر خیر خواہ جواب دیتے رہے ۔ شہزاد اسلم حیرت اور غصہ کا اظہار کرتے ہوئے لکھتے ہیں ۔’’پنجاب یونیورسٹی میں مبینہ بہنوئی کو مار پڑنے پر میڈیا پرسنز، سیکولرز اور قوم یوتھ کا درد سمجھ میں آتا ہے مگر کم بختو !اتنا رونے پیٹنے کی بجائے اپنے بہنوئی کو سمجھا ہی لیتے کہ ایسی حرکتوں کے لیے یونیورسٹی سے باہر بہت سی محفوظ جگہیں میسر ہیں تو تعلیمی ادارے کا ماحول کیوں خراب کر رہے ہو،ایسے کھلم کھلا بے ہودگی مناسب حرکت نہیں، عدم احتیاط کی صورت میں غیرت مند گارڈز اور طلباء کی ہٹ گئی تو پھینٹی کھانے کے امکانات بھی بڑھ جاتے ہیں۔امید ہے آئندہ سیکولرز اور قوم یوتھ اپنے روحانی بہنوئیوں کو سمجھا دیں گے۔‘‘
ایسے میں اسلام آباد سے طارق حبیب کی ایک اور جارحانہ پوسٹ سماجی میڈیا پر خود اُن کے اپنے بڑے سماجی دائرے میں اتنی مقبول ہوئی کہ کئی لوگ شیر کرنے کے علاوہ کاپی پیسٹ سے بھی کام چلاتے رہے ۔
’اوئے یہ بتا جامعہ پنجاب والے واقعہ پہ تو کیا کہتا ہے؟مجھ سے سننا چاہتا ہے تو سن:اگر میں کہوں گا کہ واقعہ ایسا نہیں جیسا میڈیا بتا رہا ہے تم نے ماننا نہیں بلکہ سارے دلائل و ثبوت رد کردینے ہیں۔
اور ہاں اگر تو یہ سمجھتا ہے کہ ایسی حرکت پر میں جمعیت کی صفائیاں دونگا تو یہ بھی تیری بھول ہے۔میرا پاس اتنا فارغ وقت نہیں کہ میں۔ایسوں کو جواب دیتا پھروں۔میرا سیدھا سا موقف ہے۔اگر جمعیت نے کیا ہے۔تو بالکل ٹھیک کیا ہے۔بس افسوس یہ ہے کہ کم کیا ہے۔‘‘
اس بات کو بھی سوشل میڈیا پر خوب ہدف بنایا گیا کہ ڈان کی خبر کے مطابق ان طلبہ کو معطل کرنے کے وجہ صاف ظاہر کرتی ہے کہ جامعہ پنجاب پر ان طلبہ کاقبضہ ہے ، لیکن وہ یہ بات بتانے سے قاصر تھے کہ یہ کیسے غنڈے ہیں جنہیں انتظامیہ معطل بھی کر دیتی ہے ؟کاہے کی غنڈہ گردی ہے جو انتظامیہ کو بھی قابو نہ کر پائے؟اس لیے کہاجاتا ہے کہ سوشل میڈیا پر جو کچھ ہوتا ہے وہ سب سچ نہیں ہوتا۔لڑکے پر تشدد کی ویڈیو دیکھ کر بہت سارے خیالات پیدا ہوتے ہیں لیکن کیا سارے خیالات اس تشدد کی وجوہات کو بیان کر سکتے ہیں ؟جی نہیں ۔ کیا الیکٹرانک میڈیا پر مجموعی طورپردرست اور غیر جانب دارانہ رپورٹنگ کی گئی ؟تمام رپورٹنگ میں بتایا گیا کہ طالبہ کا شوہر تھا ، جو ڈپارٹمنٹ کے ایک کونے میں اپنی اہلیہ کے ساتھ ’راز و نیاز ‘میں مصروف تھا۔اب یہ معاملہ تو صحافت کا شروع سے ہے کہ ، کتا انسان کو کاٹے گا تو خبر نہیں بنے گی ، انسان کتے کو کاٹے گا تو یہ خبر کہلائے گی ۔ چنانچہ تصدیق کرنے نہ کرنے کی دوڑ کے بجائے ریٹنگ اور بریکنگ کی دوڑ میںمیاں بیوی کو باہم اظہار محبت کرنے پر تشدد کرنا خبر بن گیا ۔ایک چینل نے سماجی میڈیا پر اپنے آفیشل پیج سے یوں رپورٹ کیا کہ ’’، جامعہ پنجاب میں طلبہ تنظیم کی بدمعاشی، یونیورسٹی میں طالب علم میاں بیوی کو باہم گفتگو کرتے دیکھا تو نوجوان کو برے طریقے سے پیٹ دیا۔‘‘اب بھلا کوئی انہیں بتائے کہ کیا ایسا ممکن ہو سکتا ہے کہ دو لوگ صرف بات کر رہے ہوں اور کوئی انہیں مارنا پیٹنا شروع کر دے؟
محبوب الزماں بٹ اس حوالے سے تفصیلی پوسٹ میں لکھتے ہیں، ’’۔۔۔جامعات کی حرمت اور جامعہ پنجاب کا واقعہ۔۔۔پنجاب یونیورسٹی کا اپنا وقار ہے۔اس کو فحاشی کا اڈہ نہ بنایا جائے۔یونیورسٹی انتظامیہ اور حکومت پنجاب بھی اپنی ذمہ داری ادا کرے۔حالت یہاں تک پہنچی ہے کہ فضولیات کے لیے لوگ یونیورسٹی کا رخ کرتے ہیں۔تعلیمی اداروں کا ماحول جس تیزی سے خراب کیا جارہا ہے۔ اور آوارہ گردی کو کھلی چھوٹ دی جارہی ہے۔اس سے والدین تشویش میں مبتلا ہیں۔ تعلیمی ادارے تعلیم کے ساتھ ساتھ اخلاقی تربیت کے بھی مراکز ہونے چاہیں۔اسلامی جمعیت طلبہ ان حالات میں نعمت خداوندی سے کم نہیں ہے۔ جو فحاشی کے طوفان کے سامنے دیوار بنی ہوئی ہے۔رہی بات موجودہ واقعہ کی تو یونیورسٹی رجسٹرار کے بیان سے واضح ہو گیاہے کہ لڑکا لڑکی کو پولیٹیکل سائنس ڈیپارٹمنٹ کے گارڈ نے ’کسی ‘ وجہ سے منع کیا۔ لڑکا صحافی ہونے کی وجہ سے غصے میں آ گیا جس پر گارڈ اور لڑکے میں ہاتھا پائی ھو گئی تو ڈیپارٹمنٹ کے لڑکے گارڈ کی حمایت میں آگے بڑھے اور دو ، چارہاتھ رسید کر دئیے۔ جس پر لڑکی نے شور مچایا کہ یہ میرا شوہرہے (حالانکہ بعد میں ثابت ہوگیا کہ وہ میاں بیوی نہیں ہیں) اسی دوران جمعیت کا ناظم اسے لڑکوں کے نرغے سے نکال کر ایک طرف لے گیا۔وڈیو میں بہت واضح ہے کہ لڑکی ناظم کی بجائے لڑکوں کی طرف منہ کر کے غصے سے بول رہی ہے۔
مزید دلچسپ بات یہ ھے کہ لڑکے کا یونیورسٹی سے کوئی تعلق نہیں جبکہ لڑکی کا ڈیپارٹمنٹ جینڈر سٹڈیز ہے اور وہ پولیٹیکل سائنس سے تین کلومیٹر کے فاصلے پر ہے۔پر کیا کریں بنا تحقیق مخصوص ٹی وی چینلز جمعیت
سے بغض کی بنیاد پر اپنی دوکانداری سے باز نہیں آئے۔‘‘