آرٹس کونسل کراچی کا مسالمہ

759

سیمان کی ڈائری
دنیابھر میں ہر سال محرم الحرام میں سیدالشہداامام حسین ؑ اور ان کے انصار واہل بیت کی بقائے اسلام کے لیے عظیم قربانیوں کو یادکرنے کے لیے مجالس برپا ہوتی ہیں۔ انھی مجالس میں مسالمے کی بھی ایک مجلس ہوتی ہے جس میں شعرائے کرام امام عالی مقام کے حضورسلام کی صورت خراج عقیدت پیش کرتے ہیں ۔واقعہ کربلاکے پیغام کو عام کرنے میں شعراء نے اور خاص طور پر برصغیر کے شعراء نے بہت اہم خدمات سرانجام دیں۔ اردو شاعری کے آغاز ہی سے حمد، نعت، منقبت، سلام اور مرثیہ کی روایت قائم ہے اور ہر اہم شاعر نے اس واقعے کو اپنے انداز میں نظم کیا۔ شعراء آج بھی علامت و استعارہ کے طور پر کربلا کے پیغا م کو پھیلا رہے ہیں۔یہ بات قابل ذکر ہے کہ واقعاتِ کربلا کی ترجمانی ہماری زبانوں میں ہوئی اور وہ اپنی جگہ ایک مثالی حیثیت رکھتی ہے۔نواسۂ رسولﷺ سیدنا حضرت امام حسین ؑ اور ان کے رفقا نے ایثار و قربانی کی جو مثال قائم کی وہ رہتی دنیا تک یاد رکھی جائے گی۔ دیگر ادبی حلقوں اور ادبیات جیسے اداروں کی طرح آرٹس کونسل کراچی کے زیر اہتمام بھی ہر سال مسالمہ کا انعقاد کیا جاتا ہے۔ اس برس رواں ماہ میں بھی آرٹس کونسل کی ادبی کمیٹی کے زیر انتظام مسالمے کی مجلس رکھی گئی۔ جس میں ملک کے ناموراور نوجوان شعرا شریک ہوئے۔ مسالمہ کی نظامت کے فرائض سید سراج الدین اجمل یعنی اجمل سراج نے کی جبکہ اِس مجلس کے آخری شاعر جناب پروفیسر سحر انصاری صاحب تھے۔دیگر شعرا میں جناب سید فراست رضوی، محترمہ ڈاکٹر فاطمہ حسن ،محترمہ نسیم نازش ، میراحمد نوید،عقیل عباس جعفری،راشدنور،محترمہ پروین حیدر،اخترسعیدی،ڈاکٹر فہیم شناس کاظمی ، اے ایچ خانزادہ، ڈاکٹرنثار احمد،سانی سیداوراسامہ امیرشیخ شامل تھے۔

زخموں سے چور چور گلِ تر اٹھائیے
جتنے بھی داغِ ظلم ہیں دل پر اٹھائیے
بکھرے ہیں خاک پہ مہ و اختر اٹھائیے
لاشے ہیں کربلا میں بہتّر اٹھائیے

پروفیسر سحر انصاری

آ دیکھ جو معجزہ بیاباں میں ہے
اک رنگِ بقا خونِ شہیداں میں ہے
جو صبح ہے اسلام کے چہرے کی چمک
وہ صبح اسی شامِ غریباں میں ہے

سید فراست رضوی

شبِ عاشور عبادت کے لیے جاگے تھے
رات بھر صبح شہادت کے لیے جاگے تھے

ڈاکٹر فاطمہ حسن

ہزار کوششیں باطل کی ہوں مٹانے میں
رہے گا ذکر شہہ کربلا زمانے میں

نسیم نازش

کہوں کیسے بہ نامِ عجز رمزِ لاالہ کیا ہے
نہیں کھلتا الہ کے کے ساتھ یہ الحاقِ لا کیا ہے

میراحمد نوید

کشتِ غمِ شبیر ہے شاداب ابھی تک
قرآں کا بھرم دیں کی تب و تاب ابھی تک
صحرا سے گزر ہو تو لرزتی ہیں ہوائیں
اک تشنگی روتی ہے سرِ آب ابھی تک

پروین حیدر

دریا کنار تشنہ دہانی رقم ہوئی
کرب و بلا میں کیسی کہانی رقم ہوئی
بے شیر تیرے خون کی تقدیس الاماں
اکبر ترے لہو سے جوانی رقم ہوئی

ڈاکٹر فہیم شناس کاظمی

جہاں میں جس طرح جدِ حسین ؑ سب کے ہیں
جہاں میں اس طرح آقا حسین سب کے ہیں
وہ خانوادہ جسے منتخب کیا ربّ نے
کسی کے کم نہ زیادہ حسین ؑ سب کے ہیں

اے ایچ خانزادہ

حصہ