دودھ میں ملاوٹ

1803

ربیعہ شبیر
زندہ رہنے اور روزمرہ کے امور سرانجام دینے کے لیے خوراک ایک اہم جزو ہے۔ خوراک یا تو پودوں سے حاصل کی جاتی ہے یا پھر جانوروں سے۔ خوراک کو ہم خام مال کی صورت میں جانوروں، پودوں یا مچھلیوں سے حاصل کرتے ہیں جسے چند تبدیلیاں کرنے کے بعد انسانوں یا جانوروں کی خوراک کے طور پر استعمال کرلیا جاتا ہے۔ غذائی اعتبار سے بہت زیادہ اہمیت کے حامل ہونے کے باعث دودھ اور اس سے تیار شدہ اشیاء ہم انسانوں کی خوراک کا ایک اہم جزو ہیں۔ دودھ میں پروٹین، فیٹ، کاربوہائیڈریٹ، وٹامنز اور منرلز وافر مقدار میں پائے جاتے ہیں۔ دودھ کو چھوٹے بچوں اور زیادہ عمر کے افراد کے لیے خاص طور پر بہت مفید غذا تصور کیا جاتا ہے کیونکہ یہ آسانی سے ہضم ہوجاتا ہے۔ دودھ میں نوعمر افراد کی بڑھوتری کے لیے ضروری امائنو ایسڈز بھی خاصی مقدار میں موجود ہوتے ہیں۔ غرضیکہ دودھ تمام عمر اور جنس کے افراد کے لیے بہترین غذا ہے۔ خاص طور پر دودھ میں پایا جانے والا منرل کیلشیم ہڈیوں کی بڑھوتری اور مضبوطی میں بہت اہم کردار ادا کرتا ہے۔
پاکستان اس وقت دنیا میں دودھ کی پیداوار کے لحاظ سے چوتھا بڑا ملک ہے۔ دودھ کی پیداوار سے ملکی جی ڈی پی میں 11فیصد حصہ شامل کیا جارہا ہے، جبکہ پاکستان کی دودھ میں پیداواری صلاحیت تقریباً 54 بلین لیٹر سالانہ ہے۔ پاکستان میں صرف دودھ ہی نہیں بلکہ اس سے تیار شدہ اشیاء کا استعمال بھی بہت حد تک کیا جاتا ہے جیسے کہ کریم، کھویا، دہی، لسی، پنیر، گھی، ربڑی، مکھن اور دیگر اشیا۔ لیکن ذرا ٹھیریے! لازمی نہیں کہ جو دودھ آپ اور میں استعمال کررہے ہیں وہ خالص بھی ہو۔ جی ہاں! دودھ میں ملاوٹ دورِ حاضر کا بہت بڑا ناسور بن چکا ہے جسے دودھ استعمال کرتے ہوئے قطعاً نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔ اگر بات دودھ میں صرف پانی کی ملاوٹ کی حد تک ہوتی تو بھی قابلِِ قبول تھی، لیکن دورِ جدید میں دودھ کی مقدار کو بڑھانے کے لیے ملاوٹ مافیا نے ایسے ایسے طریقے اختیار کررکھے ہیں کہ عقل دنگ رہ جاتی ہے اور خالص اور ملاوٹ شدہ دودھ میں فرق کرنا مشکل ہوجاتا ہے۔ اس کالم کا مقصد ملاوٹ کے طریقوں، ملاوٹ کے لیے استعمال کی جانے والی اشیاء، ملاوٹ زدہ دودھ کی پہچان اور اس کے نقصانات سے آگہی دینا ہے۔ دودھ میں ملاوٹ منافع میں اضافے یا دودھ کو محفوظ کرنے کے ناقص انتظامات کے باعث ہوتی ہے۔ ترقی پذیر ممالک میں… جن میں انڈیا، پاکستان، برازیل اور دیگر ممالک سرِفہرست ہیں… دودھ میں ملاوٹ کی شرح بہت زیادہ ہے۔ عام طور پر جو دودھ ہم گائے یا بھینس سے حاصل کرتے ہیں اس میں پائے جانے والے اجزاء کی مقدار درج ذیل ہے:
اجزا
گائے کا دودھ%
بھینس کا دودھ%
پانی
86.6
84.2
فیٹ
4.6
6.2
پروٹین
3.4
3.7
لنکیوڈز
4.9
5.1
منرلز
0.5
0,7
لیکن جب دودھ میں ملاوٹ کردی جاتی ہے تو ان اجزاء کی شرح بالکل بدل کر رہ جاتی ہے۔ ملاوٹ کے نئے طور طریقے خوب رنگ پکڑ چکے ہیں، جیسا کہ دودھ میں یوریا، میلامائن، فارمالین، صابن، ایسڈ، سوڈیم ہائیڈرو آکسائیڈ، اسٹارچ، سبزیوں سے کشید کردہ تیل (vegetable oil)، تالابوں اور جوہڑوں کا پانی اور پاؤڈر کی شکل میں تیار شدہ مصنوعی دودھ کی ملاوٹ۔ ایسے دودھ کا استعمال ہرگز فائدہ مند ثابت نہیں ہوسکتا بلکہ مختلف اقسام کے خطرناک امراض میں مبتلا کرسکتا ہے۔ خاص طور پر بچوں، بوڑھوںاور حاملہ خواتین کے لیے ایسے دودھ کا استعمال زہرِ قاتل ثابت ہوسکتا ہے۔ ایسے دودھ کے استعمال سے بہت سی بیماریاں ہوسکتی ہیں مثلاً سر درد، متلی، قے، ڈائریا،آنکھوں کی بینائی متاثر ہونا، معدہ، گردے اور دل کے مسائل، کینسر، حتیٰ کہ موت بھی واقع ہوسکتی ہے۔ جو دودھ آپ اپنی غذائی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے استعمال کررہے ہیں وہ آپ کے لیے جان لیوا ثابت ہوسکتا ہے۔ یوں تو دودھ میں ملاوٹ کو جانچنے کے لیے بہت سے ٹیسٹ موجود ہیں، لیکن بدقسمتی سے تمام ٹیسٹ صرف لیبارٹریز میں خاص کیمیکلز کی موجودگی میں ہی سرانجام دیے جا سکتے ہیں۔ عام آدمی کے لیے گھر پہ یہ ٹیسٹ کرنا مشکل ہی نہیں بلکہ تقریباً ناممکن ہے، لیکن متبادل کے طور پر چند ایسے آسان اور سستے طریقے موجود ہیں جن سے آپ گھر بیٹھے دودھ میں ملاوٹ کی شناخت کرسکتے ہیں، اور ملاوٹ زدہ دودھ سے خود کو اور اپنے پیاروں کو بچا سکتے ہیں۔ گھر میں دودھ کی تمام اقسام کی ملاوٹوں کو جانچنا قدرے مشکل ہے لیکن چند اہم اور ملاوٹ میں زیادہ تر استعمال کی جانے والی اشیاء جیسا کہ پانی، یوریا، اسٹارچ، ڈٹرجنٹ اور مصنوعی دودھ کی پہچان گھر پرکی جا سکتی ہے۔
اگر دودھ میں پانی کی ملاوٹ کی پڑتال کرنا مقصود ہو تو ایک پلیٹ ترچھی کرکے اس پر دودھ کی کچھ مقدار بہائیں، اگر دودھ خالص ہوگا تو وہ اپنے پیچھے دودھ کی ایک سفید لکیر چھوڑتا آئے گا، لیکن اگر دودھ میں پانی ملا ہوگا تو وہ ایسی کوئی لکیر نہیں چھوڑے گا۔ یوریا کی ملاوٹ کو جانچنے کے لیے دودھ کے دو چمچ کسی پیالی میں ڈالیں اور اس میں ارڑر کی دال کا پاؤڈر آدھا چمچ ملا کر ہلائیں، بعد ازاں دودھ میں لٹمس پیپر کو ڈبوئیں۔ اگر سرخ لٹمس پیپر نیلا ہوجائے تو یہ واضح نشانی ہے کہ دودھ میں یوریا ملایا گیا ہے۔ ایسے دودھ کا استعمال کسی طور نہ کریں۔ لٹمس پیپر کسی بھی اسٹیشنری شاپ پر بآسانی دستیاب ہوگا۔
اسٹارچ کی پہچان کے لیے دودھ میں آیوڈین سلوشن کے دو قطرے ڈالیں، اگر دودھ کا رنگ نیلا ہوجائے تو اس کا مطلب ہے کہ دودھ اسٹارچ سے ملاوٹ کردہ ہے۔ ڈٹرجنٹ کی ملاوٹ کو پہچاننے کے لیے 5-10 ملی لیٹر دودھ میں تقریباً اتنا ہی پانی ملا کر اچھی طرح ہلائیں، اگر جھاگ بن جائے تو اس کا مطلب صاف ہے کہ دودھ میں ڈٹرجنٹ ملا ہوا ہے۔
مصنوعی دودھ کی جانچ پڑتال کے لیے آسان طریقہ یہ کہ دودھ میں اپنی انگلیاں ڈبوکر انگلیوں کو اچھی طرح سے رگڑیں، رگڑنے پر اگر چپ چپا محسوس ہو تو یہ اس بات کی نشانی ہے کہ یہ ہرگز دودھ نہیں بلکہ دودھ کے نام پر دھوکا ہے۔ دودھ خریدتے وقت ہمیشہ کوشش کریں کہ کسی قابل اعتبار دکاندار سے خریدا جائے۔ اس کے علاوہ اوپر دئیے گئے ٹیسٹ اپنے گھر پر وقتاً فوقتاً کرتے رہا کریں تاکہ باخبر رہیں کہ آپ دودھ کے نام پر دودھ ہی استعمال کررہے ہیں نا کہ مضر صحت سلوشن۔ مزید یہ کہ فوڈ اتھارٹیز کو باقاعدگی سے بازاروں میں بکنے والے کھلے دودھ کے نمونے لے کر لیبارٹریز میں ٹیسٹ کرنے چاہئیں تاکہ عوام الناس کومضر صحت دودھ کے اثرات سے محفوظ رکھا جاسکے، کیونکہ ’’جان ہے تو جہان ہے‘‘۔

حصہ