شاعری سے معاشرے میں انقلاب ممکن نہیں،سحرتاب رومانی

650

ڈاکٹر نثار احمد نثار
جسارت میگزین: اپنے خاندانی پس منظر کے بارے میں قارئین کو کچھ بتایئے۔
سحر تاب رومانی: ہم لوگ کھکھر پٹھان ہیں۔ میرے خاندان یا برادری کی اکثریت انڈیا میں فتح پور کے ایک قصبے کوٹ میں آباد تھی اور اسی نسبت سے ان میں بہت سے لوگ اپنے نام کے ساتھ ’’کوٹی‘‘ بھی لکھتے ہیں۔ میرے والد بھی کوٹ میں تھے اور وہیں سے ہجرت کرکے پہلے پنجاب اور پھر سندھ میں سکونت اختیار کی۔ میں 1965ء میں سندھ کے شہر خیرپور میں پیدا ہوا‘ پانچ سال کی عمر میں والدین کے ہمراہ سکھر منتقل ہوا اور یہیں اپنی تعلیم مکمل کی۔ شاعری کا آغاز بھی سکھر ہی سے کیا۔ والد معمولی ملازمت کرتے تھے‘ ایک کچا گھر تھا جسے پکا کرنے میں والد اور والدہ نے اپنی ساری عمر لگا دی۔
جسارت میگزین: تو کیا حضرت بہار کوٹی‘ شفیق کوٹی وغیرہ کا تعلق آپ کی برادری سے ہے؟
سحر تاب رومانی: جی ہاں! ان دونوں عظیم ہستیوں کا تعلق ہماری برادری ہی سے ہے لیکن میری کبھی ان سے ملاقات نہیں ہوئی البتہ نصیر کوٹی صاحب سے کچھ ملاقاتیں ضرور رہیں۔
جسارت میگزین: آپ کی شاعری کی ابتدا کیسے ہوئی اور کب سے مشاعروں میں شریک ہو رہے ہیں؟
سحر تاب رومانی: کیسے کا تو مجھے علم نہیں ہاں جب میں کالج میں تھا تو دو ایک دوست مجھے ایسے ملے جو شعر سے شغف رکھنے کے ساتھ ساتھ شعر گوئی کی طرف بھی مائل تھے انہی کے ساتھ مل کر میں بھی الٹے سیدھے مصرعے موزوں کرنے لگا۔ یہ بات 1982-83ء کی ہے اور پھر کسی نے مجھ سے کہا کہ تم شعر کہا کرو سو کسی کی فرمائش پر میں نے باقاعدہ شاعری شروع کی۔ اندازہ نہیں تھا کہ یہ سفر اتنا پھیل جائے گا۔ پہلا مشاعرہ سکھر میں ہی پڑھا۔ سکھر اور خیرپور کی کئی ادبی نشستوں اور مشاعروں میں شریک ہوا۔
جسارت میگزین: سکھر کی ادبی فضا کیسی تھی؟ کون کون سے شعرا تھے وہاں؟
سحر تاب رومانی: اندرون سندھ میں نے کئی جگہوں پر مشاعرے بھی پڑھے اور نشستوں میں بھی شریک ہوا‘ چھوٹے شہروں کی ادبی فضا بڑے منظر تخلیق کرتی ہے۔ سکھر کی ادبی فضا میں جو رنگ تھا میں اسے اس لیے بھی فراموش نہیں کرسکتا کہ میں نے وہاں آنکھ کھولی۔ وہاں اُس وقت شوکت عابدی‘ نکہت بریلوی‘ رفیق خاکی‘ عزیز جبران انصاری‘ عصمت سعیدی‘ وفا بریلوی‘ رفیق احمد‘ حافظ رشید‘ شہزاد شام وغیرہ موجود تھے۔
جسارت میگزین: کیا آپ شاعری کے حوالے سے اپنے اساتذہ کے نام بتانا پسند کریں گے؟
سحر تاب رومانی: شاعری میں باقاعدہ تو کوئی استاد نہیں رہا لیکن مشورہ سخن کل بھی اپنے قریبی دوستوں سے کرتا تھا اور آج بھی یہ عمل جاری ہے۔ ابتدائی دنوں میں محترم رفیق احمد مرحوم سے سکھر میں شاعری کے رموز سمجھے۔ رفیق بھائی بہت پیارے انسان اور عمدہ شاعر تھے لیکن شعر و ادب میں انہیں وہ مقام نہیں مل سکا جس کے وہ حق دار تھے۔
جسارت میگزین: کیا آپ نے اپنے کچھ شاگرد بنائے ہیں؟ اگر بنائے تو ان کے نام؟
سحر تاب رومانی: میرا خیال ہے کہ میرے اندر ایسی کوئی صلاحیت نہیں کہ میں کسی کو شاگرد بنائوں یا اصلاح کا کام سر انجام دے سکوں۔ بہت سے لوگ کہتے بھی ہیں کہ میں ان کی شاعری کی اصلاح کر دیا کروں تو میں انہیں یہی کہتا ہوں کہ میری تو اپنی شاعری ابھی اصلاح کے لائق ہے میں کیا خاک اصلاح کروں گا‘ کسی اچھے استاد کو ڈھونڈیں… لیکن مسئلہ یہ ہے کہ اب اچھا استاد تو دور کی بات کوئی صحیح معنوں میں استاد بھی نہیں۔ ویسے آج کل شاگرد بنا لینا کوئی مشکل کام نہیں مجھے حیرت ہوتی ہے کہ وہ لوگ جن کو شاعری شروع کیے ابھی چند سال ہی ہوتے ہیں‘ اُن کے درجنوںشاگرد ہوتے ہیں۔ ایک نوجوان شاعر جس کے کئی شاگرد ہیں ایک دن کہہ رہا تھا کہ ’’میں نے ایک ’’نیا بچہ‘‘ تیار کیا ہے جسے عن قریب مارکیٹ میں لائوں گا۔‘‘ (ہاہاہا)
جسارت میگزین: شاعری میں علم عروض کی اہمیت پر کچھ روشنی ڈالیے۔
سحر تاب رومانی: عروض ایک علم ہے‘ شاعر کے لیے کسی حد تک اس کا جاننا بھی ضروری ہے لیکن بہت سے شاعر اس علم سے واقف نہیں اور بہت سے عروض کا علم رکھنے والے شاعر نہیں۔ موزوں شعر کے لیے مروجہ بحریں ہی وزن کا پیمانہ نہیں وزن کسی دوسرے طریقے سے بھی برقرار رکھا جاسکتا ہے۔ میں نے کہیں پڑھا تھا کہ آہنگ کا رشتہ عروض سے نہیں اصوات سے ہوتا ہے۔
جسارت میگزین: اصناف سخن میں نثری نظم کی کیا حیثیت ہے؟ کیا نثری نظم کامیاب ہوئی؟ نثری نظم کا کوئی رول ماڈل آپ کے سامنے ہے؟
سحر تاب رومانی: نثری نظم انگریزی ادب سے اردو ادب میں آئی ہے‘ یہ ہر قسم کی پابندی سے آزاد ہے۔ میرے خیال میں اسے نثری نظم کہنے کے بجائے صرف نثری کہنا چاہیے (نظم کا لفظ ہٹا دینا چاہیے) اس میں اہم چیز خیال ہے۔ گزشتہ چالیس برسوں میں نثری نظم کے رد و قبول‘ مخالفت اور موافقت میں بہت کچھ لکھا اور کہا جا چکا ہے ہمارے یہاں یہ اپنی حیثیت تسلیم نہیں کرا سکی اور نہ ہی کوئی اتنا بڑا رول ماڈل ہے کہ اس سلسلے میں اس کا نام لیا جائے حالانکہ بہت عمدہ نثری نظمیں پڑھنے کو ملیں اور میں متاثر بھی ہوا۔
جسارت میگزین: آپ کا نظریۂ ادب کیا ہے؟
سحر تاب رومانی: اگر آپ کی مراد کسی خاص نظریے سے ہے تو میں ادب میں کسی خاص نظریے کا قائل نہیں۔ میرے نزدیک ادب ایک نظریہ ہی ہے بلکہ مکمل نظریہ۔ شاعری مسرت اور طمانیت کا باعث یا ذریعہ ہے بس اس قدر ہی اس کا اثر انسانی ندگی یا سماج پر بھی ہے۔ شاعری سے زندگی یا معاشرے میں کوئی بڑا انقلاب ممکن نہیں۔
جسارت میگزین: آج کے زمانے میں تنقید کا معیار کیا ہے؟ کیا آج کے تنقید نگار اپنی ذمے داریاں پوری کر رہے ہیں؟
سحر تاب رومانی: ہمارے ہاں تنقید کا معیار اب وہ نہیں رہا جو پہلے کبھی تھا‘ اب تو بس دوستیاں اور رشتے داریاں نبھانے والے نقاد رہ گئے ہیں۔ ضرورت ہے ایسے سچے اور کھرے نقاد کی جو اپنی ذمے داری دیانت داری کے ساتھ پوری کرے۔ کچھ نئے تنقید نگاروں سے امید کی جاسکتی ہے کہ وہ اچھے تنقید نگار ثابت ہوں گے اور یہ شعبہ پھر سے اہمیت کا حامل ہوگا۔
جسارت میگزین: ترقی پسند تحریک نے اردو ادب پر کیا اثرات مرتب کیے؟
سحر تاب رومانی: میں سمجھتا ہوں کہ ترقی پسند تحریک نے اردو ادب کو ایک نیا رخ دیا اور شاعری‘ افسانے اور ڈرامے میں ایک نئی رمق پیدا کی لیکن اس کا اثر زیادہ دیر تک رہا نہیں شاید لوگ ایک ہی جیسے منظر دیکھنے اور یکسانیت کے عادی نہیں ہوتے سفر کے لیے راستے تبدیل کرتے رہنا چاہیے۔
جسارت میگزین: جدیدیت اور مابعد جدیدیت کا فلسفہ کیا ہے؟ کیا یہ تجربات ہمارے ادب میں کامیاب ہوئے؟
سحر تاب رومانی: یہ ایک لمبی بحث ہے تاہم میں کوشش کرتا ہوں کہ مختصراً واضح کروں۔ جدیدیت میرے نزدیک دراصل اُس فکر یا طرزِ حیات کا نام ہے جو روایتی نہ ہو لیکن یہ مابعد جدیدیت کیا بلا ہے آج تک سمجھ نہیں آیا۔ اردو ادب کے بڑے بڑے مفکر اور نقاد بھی غوروفکر میں لگے ہوئے ہیں اب تک سمجھا نہیں سکے۔ مشہور نقاد شمس الرحمن فاروقی کا مابعد جدیدیت کے بارے میں کہنا ہے کہ ’’یہ جدیدیت سے پھوٹتی ہے۔‘‘
جسارت میگزین: بہت سے لوگ کہتے ہیں اردو ادب روبۂ زوال ہے‘ آپ اس سلسلے میں کیا کہتے ہیں؟
سحر تاب رومانی: یہ کون لوگ ہیں جو کہہ رہے ہیں کہ اردو ادب روبۂ زوال ہے‘ شاید یہ لوگ خود کسی زوال کا شکار ہوگئے ہوں گے اسی لیے کہہ رہے ہیں ورنہ فی الحال مجھے تو نہیں لگتا کہ اردو ادب روبۂ زوال ہے۔ مستقبل میں کچھ نہیں کہا جاسکتا کہ کیا صورت حال ہو۔
جسارت میگزین: کن شعرا سے متاثر ہیں؟
سحر تاب رومانی: متاثر تو کسی سے نہیں‘ لیکن شکیب‘ ساغر صدیقی‘ رسا چغتائی‘ ثروت حسین‘ اقبال ساجد وغیرہ کو پڑھ کر شعر کہنے شروع کیے سو کہا جاسکتا ہے کہ ان سے متاثر رہا۔
جسارت میگزین: کسی بھی شاعر یا شاعرہ کی سنیارٹی کا تعین کس طرح کیا جانا چاہیے؟
سحر تاب رومانی: شاعر یا شاعرہ کی سنیارٹی کا تعین اس کے شعری قد اور سفر کو مدنظر رکھ کر کیا جانا چاہیے۔
جسارت میگزین: کیا آپ قارئین جسارت کی آسانی کے لیے شاعر متشاعر کا فرق بتائیں گے؟
سحر تاب رومانی: شاعر اور متشاعر میں ان دونوں لفظوں میں جو فرق ہے وہی شاعر اور متشاعر کا فرق ہے سمجھنے والے خود سمجھ لیں گے مجھے بتانے کی ضرورت نہیں۔
جسارت میگزین: کراچی میں ہونے والے مشاعروں اور تنقیدی نشستوں کی صورت حال پر تبصرہ فرمائیں۔
سحر تاب رومانی: میں کراچی میں 1991 سے باقاعدہ مشاعرے بھی پڑھ رہا ہوں اور تنقیدی نشستوں میں بھی شریک ہوتا رہا ہوں۔ کسی زمانے میں تنظیم ادب و فنون اور حلقہ دانش کی تنقیدی نشستوں میں باقاعدگی سے شریک ہوتا تھا اور خود بھی تنقیدی نشستیں منعقد کیا کرتا تھا۔ دبئی میں بھی حلقہ اربابِ ذوق کے اجلاس میں باقاعدہ شرکت کرتا تھا۔ کراچی میں دیگر ادبی تنظیمیں باقاعدگی سے علمی و تنقیدی محفلیں منعقد کرتی تھیں‘ ہم جیسوں کے لیے یہ محفلیں تربیت گاہ کا کردار ادا کرتی تھیں لیکن اب صورت حال بہت بدل گئی ہے‘ مشاعرے بہت ہوتے ہیں‘ گفتگو اور تنقید کی نشستیں بہت کم۔ تنقیدی نشستیں تربیت کا ذریعہ ہوتی ہیں ان کا انعقاد بہت ضروری ہے۔ کراچی میں اس وقت آزاد خیال ادبی فو رم اور حلقۂ اربابِ ذوق ہی کی نشستیں باقاعدگی سے ہو رہی ہیں دیگر ادبی تنظیموں کو بھی اس طرف توجہ دینی چاہیے۔
جسارت میگزین: آپ طویل عرصہ دبئی میں بھی مقیم رہے‘ کیا وہاں اردو ادب پرورش پا رہا ہے؟
سحر تاب رومانی: جی ہاں میں متحدہ عرب امارات میں تقریباً 15 سال رہا اور وہاں اردو شعر و ادب کی ایک الگ ہی فضا دیکھی۔ آج کل وہاں کیا صورت حال ہے اس کا تو مجھے صحیح علم نہیں لیکن جس وقت میں وہاں موجود تھا اردو ادب اور تہذیب کو زندہ رکھنے والے‘ پرورش لوح و قلم کے جذبے سے سرشار لوگوں کی ایک بڑی تعداد وہاں موجود تھی‘ آئے دن تنقیدی نشستیں اور شعری محفلوں کا اہتمام رہتا تھا۔ سالانہ اردو عالمی مشاعرے دبئی کی پہچان ہیں سلیم جعفری مرحوم کے بعد آج بھی یہ سلسلہ جاری ہے۔ معروف شاعر اور آرگنائزر ظہورالاسلام جاوید صاحب اس وقت بھی عالمی مشاعرے شاندار انداز میں منعقد کرتے ہیں۔ میں پورے گلف کو اردو شعر و ادب کا تیسرا بڑا مرکز سمجھتا ہوں وہاں اردو شعر و ادب سے محبت کرنے والے اپنا کردار بہ خوبی نبھا رہے ہیں۔
جسارت میگزین: کیا مشاعروںمیں شریک شعرا کو معاوضہ دینا چاہیے؟ کیا ان کے پک اینڈ ڈراپ کا انتظام کرنا چاہیے؟َ
سحر تاب رومانی: اس میں پوچھنے کی کیا بات ہے۔ منتظمین مشاعرہ کو چاہیے بلکہ ان پر لازم ہے کہ وہ مشاعرے میں بلائے جانے والے تمام شعرا کو معاوضہ ادا کریں چاہے کم ہی ہو لیکن ضرور دیا جائے اس سے شعرا کی حوصلہ افزائی بھی ہوتی ہے۔ پک اینڈ ڈراپ بھی ضروری ہے۔ حیرت ہوتی ہے کہ ہمارے یہاں ادیب اور شاعر کو کتنا کمتر سمجھا جاتا ہے اور شاعر بھی بھاگا چلا جاتا ہے مشاعرہ پڑھنے۔ بغیر معاوضے کے جانا ہی نہیں چاہیے۔
جسارت میگزین: کبھی کسی سے عشق ہوا آپ کو؟
سحر تاب رومانی: عشق لازم ہے زندگی کے لیے‘ عشق کے بغیر تو میں سانس ہی نہیں لے سکتا۔
جسارت میگزین: ’’سحرتاب رومانی‘ ‘یہ نام کیوں رکھا؟
سحر تاب رومانی: میں نے جب شعر گوئی کا آغاز کیا تو ذہن میں یہ بات آئی کہ نام ایسا ہونا چاہیے جو کسی اور کا نہ ہو۔ سو بہت سوچ سمجھ کر میں نے یہ نام رکھا۔ یہ اتنا منفرد نام ہے کہ سوائے میرے کسی اور کا نہیں‘ یعنی یہ نام رکھنے والا میں پہلا آدمی ہوں لیکن اب لوگ یہ نام اپنے بچوں کے لیے منتخب کر رہے ہیں ابھی کچھ عرصے قبل میرے دوست معروف شاعر آصف رشید اسجد نے اپنے بھتیجے کا نام بھی سحرتاب رکھا۔
جسارت میگزین: آپ مبتدی قلم کاروں کو کوئی پیغام دیں گے؟
سحر تاب رومانی: یہاں کون مبتدی ہے؟ ویسے بھی اب نئے آنے والوں کو کسی پیغام کی ضرورت نہیں رہی۔
جسارت میگزین: کوئی تازہ غزل قارئین کے لیے؟
سحر تاب رومانی: غزل حاضر ہے:

جا کبھی اور جا کے وقت لگا
اس فقیری میں تاج و تخت لگا
اُس نے دنیا کو گلستاں لکھا
مجھ کو عالمِ تمام دشت لگا
تیرگی میں لگا ستارہ اور
دھوپ میں وہ مجھے درخت لگا
اُس سے کہنا کہ سنگ ہی مارے
پھول تو ہے بہت ہی سخت لگا
میں کہاں ہوں سحرؔ کہانی میں
یہ سمجھنے میں مجھ کو وقت لگا

حصہ