مدیحہ صدیقی
دیکھو میں خون کا پیاسا ہوں
اڑنے میں تیز میں خاصا ہوں
جب رات اندھیری ہوتی ہے
تو صبح مری ہو جاتی ہے
سب بڑے، بڑے بھی ڈرتے ہیں
اور چادر تان کے سوتے ہیں
میں اپنے ٹھکانے سے اڑ کر
جب دیکھتا ہوں باہر آکر
کس کس کا خون میں چکھوں گا
کس کس کو کاٹ کے بھاگوں گا
جب میری بِین کو سنتے ہو
تو تالی خوب بجاتے ہو
تم بیٹھ کے خارش کرتے ہو
تو مجھ کو خوب ہنساتے ہو
گو چھوٹا سا میں مچھر ہوں
پر کام بڑے میں کرتا ہوں
گر تم کو مجھ سے بچنا ہے
تو پھر تو دوائی چھڑکنا ہے