خلافت جمہور ، مفہوم و شرائط

626

پروفیسرڈاکٹر انیس احمد
یہ قرآن کریم کا غیرمعمولی ادبی اعجاز ہے کہ وہ انسانوں کے لیے اپنی ہدایت کی تعلیمات کو انتہائی مختصرالفاظ میں بیان کردیتا ہے۔ ان الفاظ میں نہ کہیں جھول پایا جاتا ہے، نہ ابہام، نہ فلسفیانہ اُلجھن بلکہ سلاست ِبیان کے ساتھ محض چند الفاظ معانی کے سمندر کو سمو لیتے ہیں۔ سورئہ صف میں چند الفاظ میں انبیاے کرام ؑ کو مقرر کرنے کا مقصد، دعوتِ دین کی جامعیت، دعوت و اصلاح کا مقصد اور آخرکار ایک ایسے معاشرے اور نظامِ عدل کے قیام کی طرف اشارہ کیا گیا ہے جو شرک و کفر اور زندگی میں ظلم، فساد اور دو رنگی سے نجات دلانے کا ذریعہ ہے۔ فرمایا جاتا ہے:
وہی ہے جس نے اپنے رسولؐ کو ہدایت اور دین حق کے ساتھ بھیجا تاکہ وہ اس کو پوری جنسِ دین پر غالب کردے، خواہ یہ کام مشرکوں کو کتنا ہی ناگوار گزرے۔ (الصف۶۱:۹)

منصبِ رسالتؐ
یہاں پہلی بات جو سمجھائی جارہی ہے، وہ یہ ہے کہ انبیاے کرام ؑ اور خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم کا خصوصی طور پر بھیجا جانا اس غرض کے لیے ہے کہ وہ ہدایت اور دین حق کو، جیساکہ وہ ہے، بغیر کسی کمی بیشی کے اس میں سے کسی بات کو نظرانداز کیے بغیر، بلاکم و کاست اللہ کے بندوں تک پہنچانے کا فریضہ اس طرح انجام دیں کہ کسی کے ذہن میں کوئی ابہام اور شبہہ نہ رہے اور حق ظاہر ہوجائے۔ لیکن یہاں ساتھ یہ بات بھی سجھائی جارہی ہے کہ دینِ حق اور ہدایتِ الٰہی کو محض پیش کرنا مقصد نہیں ہے بلکہ حق کو باطل، شرک اور فسق پر غالب کرنے کی جدوجہد کرنا بھی دعوت کا حصہ اور مقصود ہیں۔ دین آیا ہی اس لیے ہے کہ وہ شرک و و الحاد کو، نفس پرستی اور آبا پرستی کو ، اور ہر طرح کے ظلم و استحصال سے انسانی زندگی کو پاک کرے، جھوٹے خدائوں سے انسانیت کو نجات دلائے، اور زندگی کی تمام وسعتوں پر اللہ رب العزت کی سربلندی اور حاکمیت کے قیام کے ذریعے سے اللہ کی زمین پر صرف اس کی مرضی کو رائج اور قائم کردے۔ یہ دعوتِ دین کے کسی خاص جزو یا حصے پر عمل پیرا ہونے کی نہیں بلکہ مکمل دین کی دعوت ہے۔ توحید فقط اللہ تعالیٰ کو ایک ماننا نہیں ہے بلکہ زندگی کے تمام معاملات میں صرف اور صرف اس کی بندگی میں آجانے کا نام ہے۔
اسلام دین و دنیا کی ثنویت یا دو رنگی (dualism) کی جگہ دین و دنیا کی وحدت کا داعی ہے اور یہ توحید کا لازمی تقاضا ہے۔ یہ زندگی کو دو خانوں میں تقسیم نہیں کرتا بلکہ زندگی کو ایک ایسی اکائی میں تبدیل کر دیتا ہے کہ جس کے نتیجے میں انسان کا کھانا پینا، اُٹھنا بیٹھنا، لباس پہننا، تجارت کرنا، تفریح کرنا، غرض ہرانسانی عمل اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی خوشی اور مرضی کے تابع ہوجاتا ہے۔ یہ عیسائیت کی طرح ہفتے میں ایک دن چرچ جا کر اپنے رب کی بڑائی بیان کرنے کو کافی نہیں سمجھتا بلکہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی حکومت اور دائرۂ کار کو جس طرح مسجد میں قائم کرتا ہے، اسی طرح خاندان، تجارت، سیاست، معاشرت، قانون و ثقافت، ہرشعبۂ زندگی کو اللہ تعالیٰ کی ہدایت اور احکام کے تابع کرتا اور اس کی رضا کے حصول کا میدانِ کار بنا دیتا ہے۔نعوذ باللہ یہ ایسے خدا کا قائل نہیں جو مسجد یا خانقاہ تک محدود ہو اور باقی تمام کاروبارِ حیات شیطان کے حوالے کردے۔ اسلام اس تقسیم کو توحید کے منافی قرار دیتا ہے اور یہی منصب نبوت کا تقاضا ہے۔ ۚ ’’اللہ کے بندے بن جائو اور طاغوت سے مکمل اجتناب کرلو‘‘ (النحل۱۶:۳۶) ۔ یہی وہ دعوت ہے جسے حضرت آدم ؑ سے لے کر خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم تک ہر نبی نے انسانوں تک پہنچایا اور اللہ کی زمین پر اللہ کی حکومت قائم کرنے کی کوشش کی۔
ہدایت و رہنمائی
اگلی بات یہ فرمائی جارہی ہے کہ انبیاے کرام ؑ ہی ہدایت پہنچانے کا ذریعہ ہیں اور تمام انبیاےکرامؑ نے انسانوں کو ایک ہی پیغام دیا ہے کہ صرف اللہ کی بندگی اختیار کریں۔ گویا یہ دین ہی ہدایت کا واحد ذریعہ ہے۔ وہ اللہ ہے جو الرحمٰن اور الرحیم ہے، جو اپنے بندوں سے محبت کرتا ہے اور انھیں گمراہ نہیں دیکھنا چاہتا، جو ان کی ہدایت و رہنمائی کے لیے ہر دور میں اپنے انبیا ؑ بھیجتا رہا اور جس نے آخرکار پوری ا نسانیت کے لیے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنا آخری نبی اور پیغامبر بنا کر بھیجا۔ دین کو مکمل شکل میں محفوظ کیا اور اسے قیامت تک کے لیے تمام انسانوں کے لیے صراطِ مستقیم اور نجات کا راستہ قرار دیا۔ نیز یہ کہ نبی کا کام نہ صرف تلاوتِ کتاب اور تعلیمِ کتاب ہے بلکہ تزکیہ اور حکمت کی تعلیم و تربیت دینا بھی ہے۔ ان چاروں وظائف کو عملاً نافذ کرنے کا نام اقامت ِ دین ہے۔ یعنی تلاوتِ کتاب کے ذریعے انسانوں تک ہدایت اور دین حق کو جیساکہ وہ ہے پہنچانا، نبی کی ذمہ داری ہے۔اس کے ساتھ افراد کا تزکیہ کرنا، جسے ہم کردار سازی اور صلاحیت ِ کار میں ترقی کہتے ہیں۔ افراد کی صلاحیتوں کو اُبھارنا اور انھیں دعوتِ دین کی حکمت عملی سے آگاہ کرنا نبی کے مشن کا حصہ ہے۔ نبی کے بعد دعوت کا پہنچانا ہو یا ہدایت کی وضاحت کرنی ہو، قانون کا نفاذ کرنا ہو، یہ سب کام نبی کے بعد اُس اُمت کے سپرد کر دیے گئے جو نبی پر ایمان رکھتی ہو۔ چنانچہ قرآن کریم نے واضح الفاظ میں اعلان کر دیا کہ تم وہ خیراُمت ہو جسے پیدا ہی اس لیے کیا گیا ہے کہ انسانوں کو اچھائی ، نیکی، بھلائی اور معروف کا حکم دو اور گمراہی، منکر اور فواحش سے روکنے اور بچانے کے لیے اپنی قوت کا استعمال کرو۔(اٰل عمرٰن ۳:۱۱۰)
یہاں بات فقط وعظ و تلقین کی نہیں کی جارہی بلکہ اس کے امرونہی کا بھی ذکر ہے جو واضح طور پر قوتِ نافذہ کی طرف اشارہ ہے اور جس کے ذریعےمتوجہ کیا جارہا ہے کہ منکر اور بُرائی کو مٹانے کے لیے ہرممکن ذریعۂ اصلاح کا استعمال ضروری ہے۔
یہاں یہ بھی کہا گیا ہے کہ یہ ہدایت مکمل ہے، یہ زندگی کے کسی خاص پہلو تک محدود نہیں، یہ محض روحانیت کا نام نہیں، نہ یہ محض ’ذاتی‘ اور ’نجی‘زندگی کے لیے ہے بلکہ یہ زندگی کے تمام گوشوں کا احاطہ کرتی ہے۔ یہ ہدایت نہ صرف جامع اور مکمل ہے بلکہ یہی حق ہے یہی ’دین الحق‘ ہے اور اس ’دین الحق‘ کی دعوت اور اس کی سربلندی کی جدوجہد کرنا نبی اور ان کے بعد نبی کے ماننے والوں کا کام ہے۔ تحریک اسلامی کا اصل مقصود، دین حق کا قیام اور باطل اور طاغوت سے انسانیت کو نجات دلانا ہے۔
مخالفین کا ردعمل
یہ بات بھی واضح کی جارہی ہے کہ اس دین حق کی دعوت اور جدوجہد کو کفر، ظلم، طاغوت کے علَم بردار برداشت نہیں کریں گے۔وہ اسے سخت ناگوار سمجھتے ہوئے اپنی تمام قوت اس کا راستہ روکنے میں لگائیں گے اور نہ صرف مقامی طور پر بلکہ بین الاقوامی سطح پر بھی دین حق کو دبانے اور نقصان پہنچانے کی پوری کوشش کریں گے۔ جو خوش نصیب ہدایت کو قبول کرلیں گے اور اس پر استقامت سے جم جائیں گے، وہ اپنے رب کی نصرت و حمایت سے کم تعداد میں ہونے کے باوجود بالآخر کثرت پر غالب آئیں گے۔ اسلام قلت و کثرتِ افراد کی جگہ افراد کی تاثیر اور قوت کردار و اخلاق کا اصول پیش کرتا ہے کہ اگر وہ صرف ۲۰ صالح اور مجاہد افراد ہیں تو وہ ۲۰۰ پر غالب آئیں گے ۔ گویا کامیابی کا معیار تعداد نہیں تربیت ہے، کردار اور طرزِعمل ہے۔ مخالفت کی ہوائیں جتنی بھی تندوتیز ہوں گی، حق اتنا ہی زیادہ بلندی کی طرف جائے گا۔
تحریکاتِ اصلاح کا اصل تشخص
جو اسلامی تحریکات اپنے قیام کا مقصد اور اپنی سرگرمیوں کا ہدف حاکمیت ِالٰہی کا قیام قرار دیتی ہیں، ان کے لیے قرآن کا دیا ہوا اصول یہی ہے کہ وہ حاکمیتِ الٰہی کے قیام کے لیے ایسے افراد تیار کریں جو چاہے تعداد میں کم ہوں لیکن اپنے ایمان اور کردار میں غیرمتزلزل اور میدانِ کارزار میں چٹان کی طرح جم جانے والے ہوں، جو سر تو دے دیں لیکن ان کا سر صرف اللہ کے سامنے جھکے اور ایمانی اصولوں پر کبھی سمجھوتا نہ کریں۔ تحریکاتِ اسلامی کا اصل سرمایہ یہی تربیت یافتہ افراد ہوتے ہیں، جو اللہ کے حضور شب گزاری کے ساتھ ساتھ کارزارِ حیات میں، رزم حق و باطل میں فولاد کی طرح ہوں۔
اس آیت مبارکہ میں یہ بات بھی واضح کر دی گئی ہے کہ ہدایت ربانی اور مکمل دین کے اظہار اور حق کو قائم کرنے کے لیے محض عددی قوت یا عوامی احتجاج کی طاقت (street power)کا استعمال کامیابی کی شرط نہیں ہے۔ تحریکی کارکنوں کی وہ کم تعداد بھی جو قوتِ کردار سے آراستہ ہو، باطل اور طاغوت کے بڑے سے بڑے لشکر پر غالب آسکتی ہے۔ تاریخ گواہ ہےکہ معرکۂ بدر ہو یا غزوئہ احزاب، اہلِ ایمان کی کم تعداد اپنی قوتِ کردار اور اعلیٰ تربیت یافتہ اخلاق کی بناپر منکرینِ حق کی کثرتِ تعداد کے باوجود ان پر غالب آئی۔
خلافتِ جمہور کا مفہوم
پارلیمنٹ یا معاشی منڈی یا تعلیم گاہ جہاں کہیں بھی انسان کا اپنا بنایا ہوا نظام چل رہا ہے، اسلام چاہتا ہے کہ انسان کی حاکمیت، آمریت اور بادشاہت کی جگہ مالکِ حقیقی کی حاکمیت کو خلافتِ جمہور کے ذریعے رائج کیا جائے۔ یعنی انسانوں کے بنائے ہوئے قوانین کی جگہ ہدایتِ الٰہی کی روشنی میں اسلامی شریعت کو قائم کیا جائے لیکن خلافت کے قیام اور خلافت ِ جمہور کے ذریعے نظامِ عدل کا قیام چند بنیادی شرائط کو پورا کیے بغیر نہیں ہوسکتا۔ پہلی شرط یہ ہے کہ اس تبدیلی و اصلاح کا داعی اور اس کے رفقا سب سے پہلے خود دین کی شہادت دیں، چنانچہ فرمایا گیا:
اٰمَنَ الرَّسُوْلُ بِمَآ اُنْزِلَ اِلَيْہِ مِنْ رَّبِّہٖ وَالْمُؤْمِنُوْنَ ۝۰ۭ (البقرہ ۲:۲۸۵)رسول اور اہلِ ایمان اس ہدایت پر ایمان لائے جو ان کے رب کی طرف سے ان پر نازل ہوئی ہے۔ انھوں نے اس ہدایت کو دل سے تسلیم کرلیا ہے۔
زمین پر اللہ تعالیٰ کے دین اور نظام کو رائج کرنے والوں کو پہلے اپنی دعوت پر غیرمتزلزل یقین ہو۔ وہ اس کا اظہار و اقرار نہ صرف زبان سے کر رہے ہوں بلکہ عملاً شہادتِ حق کا فریضہ ادا کرنے میں قیادت کریں۔ چنانچہ جب تک تحریک کا ہر کارکن تجدید ِ ایمان کرتے ہوئے اللہ کی بندگی اور تحریک سے وابستگی اور دین کی سربلندی اور کامیابی پر مکمل ایمان نہ لائے وہ دین کی دعوت، استقامت و اعتماد سے نہیں دے سکتا۔ اس کا لہجہ اور اس کی ہر ہر ادا( body language) اس بات کا اعلان کرے کہ وہ اپنی دعوت کی صداقت پر مکمل اعتماد و ایمان رکھتاہے اور کسی فکری انتشار (confusion)کا شکار نہیں ہے۔وہ یہ جانتے ہوئے بھی کہ سیاسی مقابلے میں کامیابی کا کوئی امکان نہیں، اللہ تعالیٰ کو خوش کرنے کے لیے اپنے تمام وسائل کو شہادتِ حق میں لگا دے گا۔ اس کا اصل ہدف دین حق کا قیام ہو جس کے لیے قوتِ نافذہ کا ہونا ایک ضروری وسیلہ تو ہے، اس کی منزل نہیں۔ وہ فتح اور ناکامی سے بلند ہوکر اپنی تمام قوت اقامتِ دین کی جدوجہد میں لگا دے۔
خلافتِ جمہور کا واضح مفہوم یہ ہے کہ زمین پر اللہ تعالیٰ کی خلافت و نیابت کو قائم کرنے کے لیے اللہ کے بندوں کو حکمت و محبت کے ساتھ اللہ کے دین سے آگاہ کیا جائے جو محض زبان سے نہ ہو بلکہ ہر تحریکی کارکن کی شخصیت، اور اس کی سیرت اور اس کا کردار خود دعوت کی زبان بن جائے۔ زبان سے کوئی لفظ ادا کیے بغیر وہ اپنے وجود سے ایک دیکھنے والے کو یہ بات پہنچا دے کہ وہ سچ پر قائم اور سچ کو غالب کرنے والا ہے۔ وہ بے غرض ہے۔ اسے اپنی لیڈری مطلوب نہیں ہے۔ وہ دراصل دین کا کارکن ہے۔ وہ نہ شہرت چاہتا ہے نہ کوئی معاوضہ یا بدلہ طلب کر رہا ہے بلکہ اپنا سب کچھ اپنے رب کی خوش نودی کے حصول کے لیے لگادینے کو اپنی خوش قسمتی سمجھتا ہے۔
خلافتِ جمہور اور مغربی جمہوریت کا جوہری فرق ہی یہ ہے کہ خلافت اللہ کی ہدایت کی بالادستی کی بنیاد پر قائم ہوتی ہے اوراس میں کسی فرد کی آمریت کی کوئی گنجایش نہیں ہوتی اور نہ اس میں اکثریت کے نام پر استبداد کو قبول کیا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ خلافت جمہور کا مطلب یہ ہے کہ تمام معاملات میں فیصلے آنکھیں بند کر کے محض افراد کے ووٹوں کی کثرت پر نہ کیے جائیں بلکہ جس اصول پر فیصلہ ہو وہ یہ ہے کہ انسانیت کا خالق ہم سے کیا چاہتا ہے۔ گویا ووٹ کا استعمال لازماً کیا جائے لیکن ووٹ اپنی قوت قرآن و سنت سے حاصل کرے اور اس کا تابع ہو۔ نیز جن اُمور کے بارے میں اللہ اوراس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی ہدایت موجود ہے، اسے دل کی گہرائیوں سے تسلیم کیا جائے اور جو معاملات انسانوں کی عقل اور تجربے پر چھوڑے گئے ہیں ان میں قرآن و سنت کے بتائے ہوئے اصولوں کی روشنی میں جمہور کی مرضی کے مطابق معاملات طے ہوں۔ شوریٰ کے نظام کی روح جہاں اللہ اور اس کے رسولؐ کی اطاعت ہے وہیں فیصلہ سازی میں عوام اور ان کے نمایندوں کی ایک ایسے انتظام کے ذریعے مؤثر شرکت ہے جو افراد اور گروہوں کی آمریت سے پاک ہو۔
(جاری ہے)

حصہ