محمد فرہاد جانباز

526

اختلاف
آپ سمجھ دار ہیں۔ جب آپ کے سامنے من بھاتا اور بھینی بھینی خوشبو والا ایسا کھانا رکھ دیا جائے جس کی مہک سے ہی منہ پانی سے بھر جائے، لیکن دوسری طرف وہ بے حد گرم بھی‘ جیسے ابھی آگ اگلتے چولہے سے اتارکر دسترخوان پر سجا دیا گیا ہو، تب عقل کہتی ہے ’’آپ گرم کھانا نہیں کھا سکیں گے، یہ آپ کے منہ میں جائے گا تو حلق جل جائے گا۔ زبان پر چھالوں کی کانٹے دار فصل اُگ آئے گی۔ وہ چبھیں گے تو آپ پریشان ہوں گے، دل تنگ ہوگا، طبیعت خراب ہوجائے گی۔‘‘
عقل کی یہ باتیں سن کر آپ کا فیصلہ ہوگا ’’اس کھانے کو ذرا دیر کے لیے پڑا رہنے دیا جائے تاکہ ٹھنڈا ہوجائے تو کھانے میں آسانی بھی ہوگی اور لطف بھی محسوس ہوگا۔‘‘
بس یہی وہ بنیادی نکتہ ہے۔ اسی طرح اختلافی ماحول ہوتا ہے۔ جب اختلاف کی گرم لُو چل رہی ہو، ایسی فضا میں مسائل حل نہیں ہوسکتے۔ آپ حل کرنا چاہیں گے تو پریشانی، ناکامی اور نامرادی کا سامنا کرنا پڑے گا۔ یہ چیز آپ کی طبیعت میں بدمزگی پیدا کردے گی۔ لہٰذا کچھ دیر کے لیے اس اختلافی ماحول سے کٹ جائیں، کنارہ کر جائیں، دماغ پر بوجھ مت ڈالیں، ٹھنڈا پانی پی کر اسے سوچنے کی مہلت دیں تاکہ وہ مکمل متانت کے ساتھ مسئلے کے تمام پہلوئوں کا احاطہ کرے اور ایک متناسب و سنجیدہ رائے قائم کرے۔ جب بھڑکتے جذبات پُرسکون ہوجائیں تو آئیں، مسکرائیں اور مسئلہ حل کرلیں۔
یاد رکھیں، اللہ نے انسان کا دماغ سوچنے کے لیے بنایا ہے۔ اسے اپنا کام کرنے دیں، وہ آپ کو اچھی باتیں سوچ کر بتائے گا۔ دماغ کو ’’انا‘‘ کی آگ میں مت جلائیں۔ یہی وجہ ہے کہ لوگ آپس میں اختلاف پیدا نہیں کرنا چاہتے۔ اگر ہوں بھی تو ان کی خواہش ہوتی ہے کہ جلد سے جلد یہ معاملہ ختم ہوجائے۔ لیکن یہ اختلاف فنا کے گھاٹ اس لیے نہیں اترتے کہ لوگ دماغ کو انانیت کی کوڑھ کا شکار بنادیتے ہیں جس سے وہ سوچ بچار اور فکر و نظر کا کام کرنے کے قابل نہیں رہتا۔
لیکن یہ بھی یاد رہے کہ مولانا ابوالکلام آزادؒ نے فرمایا تھا :اختلاف مسئلے کا ہو تو حل دو منٹ میں ہوسکتا ہے… اگر اختلاف ذاتی غرض اور نفسانی مفاد کا ہے تو جان لینا چاہیے یہ وہ اختلاف ہرگز نہیں، جس کو کائناتِ رنگ و بو کے حسنِ دل رُبا سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ اگر کوئی بھی بھائی نظریے کے علاوہ مفاداتی اختلاف کی گتھیاں سلجھانے کا خواہش مند ہے تو پھر یہی عرض کیا جاسکتا ہے:

تری دعا ہے کہ ہو تیری آرزو پوری
مری دعا ہے تیری آرزو بدل جائے

حصہ