حبیب الرحمن
(گزشتہ سے پیوستہ)
وہ بے قرار ہو کر بہت دیر تک پکارتا رہا کہ ’’یہ پیسے کس کے ہیں۔۔۔ یہ پیسے کس کے ہیں۔ جب اسے کوئی جواب نہ ملا تو اس نے وہ پیسے اپنی جیب میں ڈال لئے اور اپنے گھر کی جانب چل پڑا
دونوں بھائی یہ سارا تماشہ دیکھ رہے تھے اور یوں لگ رہا تھا جیسے وہ دونوں ایک دوسرے سے بے خبر ہوں۔ انھوں نے دیکھا کہ کسان روتا جاتا اور بار بار آسمان کی جانب دیکھتا جاتا جیسے وہ اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتا جا رہا ہو۔
یہ دونوں بھی کچھ فاصلے سے اس کے پیچھے پیچھے چلتے رہے اور سوچتے رہے کہ دیکھیں اب کیا ہوتا ہے۔
کسان کافی تیز چل رہا تھا لیکن بھائیوں نے بھی ہمت نہیں ہاری اور مسلسل اسی کسان کے پیچھے پیچھے چلتے رہے۔
جب بازار قریب آیا تو انھوں نے دیکھا کہ کسان ایک کریانے کی دکان پر رک کر کچھ خرید رہا ہے۔ کچھ آٹا، کچھ دالیں، کچھ گھی، کچھ نمک مرچ وغیرہ۔ یہ چیزیں خرید کر اس کی رفتار اور بھی تیز ہوگئی لیکن ایک جگہ بچوں کی ٹافیاں اور چھوٹے چھوٹے کھلونے مل رہے تھے۔ کسان پہلے تو ٹھٹکا، پھر کچھ مٹھائیاں اور دو عدد ایک جیسے کھلونے خریدے اور اپنے گھر کی جانب چل دیا۔
ابھی گھر کچھ دور ہی تھا کہ اپنے بچوں اور بیوی کو آوازیں دینا شروع کر دیں۔ یہ سب کچھ یقیناً خوشی کی کی وجہ سے ہوگا۔ آواز سن کر بیوی تیزی سے باہر آئی، پیچھے پیچھے بچے بھی دوڑے دوڑے باہر آئے۔
یہ دونوں بچے بھی انھیں بھائیوں کے برابر برا کے تھے۔ لیکن یہ کیا، آج تو عید کا دن تھا اور بچوں کے پاس نئے کپڑے بھی نہیں تھے۔ جو کچھ پہنا ہوا تھا وہ بہت خستہ حالت میں تھا اور پیروں میں چپل تک نہیں تھے۔
کسان کی بیوی کا بھی یہی حال تھا۔ اس نے کہا کیا بات ہے، اتنا سارا سامان؟ کیا کہیں چوری تو نہیں کی اگر ایسا ہے تو میں اس کا ایک لقمہ بھی اپنے بچوں کو نہیں دوں گی۔
کسان نے کہا بھلی مانس، کیا تو مجھ کو ایسا سمجھتی ہے؟ چل پہلے بچوں کو یہ مٹھائیاں دے، کھلونے دے اور جلدی کر کھانا پکا، ہم نے اور بچوں نے رات سے کچھ بھی نہیں کھایا۔ چل جلدی کر پھر میں تجھے پوری کہانی سناؤنگا۔
بیوی تو حیرانی اور پریشانی کے عالم کھانا پکانے چلی گئی اور بچے مٹھائیوں میں کھلونوں میں لگ گئے لیکن یہ دونوں بھائی ایک دوسرے کو بہت سنجیدگی کے ساتھ دیکھتے ہوئے اور بوجھل قد موں کے ساتھ گھر کی جانب لوٹ گئے۔
راستے میں بڑے بھائی امجد نے اپنے چھوٹے بھائی اسجد سے کہا، دیکھو اگر ہم نے ان کے جوتے چھپادیئے ہوتے تو کتنا برا ہوتا۔ دیکھو وہ کتنے غریب لوگ تھے ان کے پاس تو پہنے کو کپڑے تک نہیں تھے اور ہاں انھوں نے رات سے کھانا بھی نہیں کھایا تھا۔ چلو ہم گھر چل کر اپنے امی ابو سے یہ ساری باتیں بتائیں گے اور ہمیں یقین ہے کہ ہمارے امی اور ابو ان کی ضرور مدد کریں گے۔
ان بچوں کو اس بات کا احساس تک نہیں ہو سکا کہ کتنا وقت گزر گیا۔ ان کے گھر والے بہت ہی پریشان تھے کہ ان کے بچے بہت دیر سے گھر سے گئے ہوئے ہیں لیکن اب تک کیوں گھر نہیں لوٹے۔ دوپہر کے کھانے کا وقت بھی گزرا جا رہا تھے۔
گھر کے سارے افراد ہی پریشان تھے کہ یہ دونوں بھائی گھر میں داخل ہوئے۔
ارے تم دونوں کہاں تھے؟ بازار میں اتنی دیر کیسے ہو گئی؟ کیا کرنے لگے تھے تم دونوں؟ اور ہاں تمہارے پیسے کیا ہوئے؟ تمہارے ہاتھ میں تو کوئی کھلونا بھی نظر نہیں آرہا؟۔
اتنے بہت سارے سوالات ایک ساتھ ہی پوچھے گئے تب ان کو یہ احساس ہوا کہ انھیں گھر پہنچنے میں بہت دیر ہوگئی ہے۔
وہ جواب دینے کی بجائے رونے لگے تو ان کے بڑوں نے کہا۔۔۔ لو اب ہم تم سے پوچھیں بھی نہیں کہ تم کو اتنی دیر کیوں ہوئی اور پیسوں کا کیا بنا؟۔
نہیں امی ایسی بات نہیں، ہم اس لئے نہیں رو رہے کہ آپ ہمیں ڈانٹ رہی ہیں ہم تو جس بات پر رورہے ہیں اس کو سن کر شاید آپ سب بھی رونے لگیں۔
کیا مطلب؟ سب نے بیک زبان کہا۔۔۔۔ ایسی کیا بات ہو سکتی ہے۔
یہ سن کر بچوں نے اپنی ساری کہانی بیان کر دی۔
بچوں کی ساری روداد سن کر سارے گھروالے افسردہ ہو گئے اور دونوں کو خوب پیار کیا اور خوب خوب شاباشیاں دیں۔
بچو تم نے بہت اچھا کام کیا ہے۔ اگر تم کسان کو ستاتے تو واقعی بہت بری بات ہوتی۔
چلو اب کھانا کھاؤ، شام کو ہم کسان کے گھر چلیں گے اور اس بات کا خیال بھی رکھیں گے کہ انھیں آئندہ یہ دن دیکھنا نہیں پڑیں۔
جب بچوں نے یہ دیکھا کہ ان کی کہانی سے ان کے امی ابو اورگھرکے سارے لوگ بہت خوش ہوئے ہیں تو انھیں اور بھی خوشی ہوئی۔
ابھی سورج ڈھلنے میں کافی دیر تھی، بھائیوں کے امی ابو جانے کے لئے تیار ہو چکے تھے۔ اس سے قبل وہ بازار کا ایک چکر بھی لگا آئے تھے۔ بہت ساری چیزیں خریدی تھیں جن میں کپڑوں کے تھان، بچوں کے لئے کھانے پینے کی چیزیں، کھلونے، راشن، جس میں دالیں، چینی چاول چائے آٹا گھی وغیرہ وغیر۔ اس کے علاوہ عید کے لحاظ سے جو کچھ گھر میں پہلے سے پکاہواتھا اور کچھ خاص طور سے پکایا گیا تھا اپنے ہمراہ لیا، دونوں بچوں کو بلایا، تانگا باہر کھڑا تھا اس میں ساری چیزیں رکھوائیں اور کسان کے گھر کی جانب روانہ ہو گئے۔
کسان کے گھر والوں کو جیسے ہی علم ہوا کہ چودھری صاحب آئے ہیں تو ایک ہاہا کار مچ گئی۔
غریب لوگوں کا دل بہت ہی بڑا ہوتا ہے۔ ان کا بس نہیں چلتا کہ مہمان کے لئے کیا کیا کچھ پیش کر دیں۔ جونہی انھوں نے چودھری صاحب کو دیکھا تو جلدی جلدی چارپائیاں بچھائی گئیں۔ عزت کے ساتھ بٹھایا گیا۔
چودھری صاحب نے جب ان کو بے چین دیکھا تو کہا، بھائی فکر نہیں کرو، ہم تمہیں اپنا بھائی اور چودھرانی تمہاری بیوی کو بہن بنانے آئی ہیں۔ ہمیں افسوس ہے کہ ہم نے اپنے علاقے والوں کی خبر گیری نہیں رکھی۔ یہ کہہ کر اپنے ساتھ جو کچھ لائے تھے ان کے حوالے کر دیا۔
غریب لوگ بہت خوددار ہوتے ہیں۔ وہ نہیں نہیں ہی کرتے رہ گئے لیکن دونوں بھائیوں کے والدین نے ان سے کہا کہ نہیں جب بھائی کہہ دیا اور بہن بنالیا تو بس اب سارے تکلفات ختم۔ چلو ایسا کرتے ہیں کہ اپنی بیوی سے کہو ہم سب کے لئے چائے بنائے۔ ہم سب سامان ساتھ لائے ہیں۔
یہ کہہ کر انھوں نے اپنے دونوں بیٹوں کی جانب اشارہ کر کے کہا کہ یہ وہی بچے ہیں جنھوں نے تمہارے جوتوں میں ایک ایک روپیہ رکھا تھا۔ یہ پیسے ہم نے بطور عیدی ان کو دیئے تھے جو انھوں نے آپ کے جوتوں میں رکھے۔ اللہ کا شکر ہے کہ ان بچوں کی بدولت ہماری غفلت کا کفر ٹوٹا۔ آج سے ہم عہد کرتے ہیں کہ کسی کی جانب سے غافل نہیں رہیں گے اور آپ کی اور آپ کی طرح اس بستی میں جو جو افراد بھی ہیں ان کا خیال رکھا کریں گے۔
کسان اور اس کی بیوی نے آگے بڑھ کر بچوں کے سر پر ہاتھ پھیرا اور ڈھیروں دعائیں دیں۔
سورج غروب ہونے سے پہلے پہلے ہم سب گھر آگئے اور اس رات سب گھر والوں کو اتنے سکون کی نیند آئی کہ رات گزرنے کی خبر ہی نہ ہو سکی۔