آسیہ پری وش
جہانزیب کی طبیعت میں اپنی چیزوں کی حفاظت کے معاملے میں بہت لاپروائی تھی۔ وہ اپنی ضروری چیزیں بھی جہاں بیٹھتا وہیں چھوڑ کے اْٹھ جاتا تھا۔ بعد میں اس کی امی اس کی چیزیں سنبھال کے رکھ دیتیں۔ اس لاپروائی پہ اس کی امی اسے سمجھاتی بھی رہتی تھیں تو وہ باپ کی ڈانٹ بھی سنتا رہتا تھا۔ چونکہ اسے ابھی تک کوئی نقصان نہیں ہوا تھا تبھی اسے اپنی اس لاپروائی کا احساس نہیں تھا۔’’بابا مجھے اچھی طرح یاد ہے دو دن پہلے میں نے اپنی سلپ یہیں ٹیبل پہ رکھی تھی اور کل رات تک بھی یہیں پڑی تھی‘‘، جہانزیب نے جھنجھلا کر ٹیبل پہ مکا مارا۔’’تو کیا سلپ کی جگہ یہ ٹیبل تھی جو یہاں پر رکھی تھی‘‘، اس کے بابا نے غصے سے اسے دیکھا۔
’’بابا میں پہلے ہی بہت پریشان ہوں۔ کل صبح پیپر ہے سلپ کے بغیر مجھے امتحانی ہال میں داخل ہی نہیں ہونے دیا جائے گا اور میں سارا گھر دیکھ چکا ہوں لیکن سلپ مل ہی نہیں رہی‘‘، وہ پریشانی سے روپڑا۔آج کل جہانزیب اور اس کے والد گھر میں اکیلے تھے۔ اس کی امی کسی شادی میں شرکت کرنے دوسرے شہر گئی ہوئی تھیں اور جہانزیب اپنی لاپرواہ طبیعت کے سبب اپنی سلپ گْم کربیٹھا تھا جس کی اس وقت ڈھنڈیا مچی ہوئی تھی۔ ’’امی آپ کہاں ہیں؟ آکے مجھے میری سلپ ڈھونڈ کے دیں ورنہ میں کل کیا کروں گا‘‘۔’’کتنی دفعہ سمجھایا تھا کہ اپنی چیزیں سنبھال کے رکھا کرو۔ کسی دن کوئی بڑا نقصان نہ کردو لیکن نہیں۔ وہ جہانزیب ہی کون جو ماں باپ کی کوئی نصیحت بھی سنے‘‘۔
’’ سلپ گْم ہوجانے پہ پریشان تو وہ بھی ہوگئے تھے لیکن بیٹے کی لاپروائی کی عادت پہ انہیں غصہ بھی بہت آرہا تھا‘‘۔ ’’سارا گھر چیک کرلیا ہے ڈسٹ بن بھی چیک کرلیا ہے یا نہیں؟ تمہاری امی گھر پہ ہوتی ہیں تو وہ تمہاری ادھر اْدھر بکھری ساری چیزیں سنبھال کے رکھ دیتی ہیں۔ کیا پتا ان کی غیرموجودگی میں رضیہ نے تمہاری سلپ کو فالتو کاغذ سمجھ کر ڈسٹ بن میں پھینک دیا ہو‘‘؟’’میری سلپ اور ڈسٹ بن میں‘‘، باپ کی بات پہ وہ چیخ کر صحن کے کونے میں رکھے ڈسٹ بن کی طرف بھاگا۔ کچرے سے بھرے ڈسٹ بن کو دیکھ کر وہ جھجھک گیا اور مسکین صورت بنا کر باپ کو دیکھا۔
’’نہ جو بھی کرنا ہے خود کرنا ہے‘‘، باپ کے صاف جواب پہ اس نے ایک نظر اپنے صاف ہاتھوں کو دیکھ کر ہچکچاتے ہوئے ڈسٹ بن میں ہاتھ ڈالا تو صبح کی استعمال شدہ چائے کی پتی نے اس کے صاف ہاتھوں کا استقبال کیا۔ کل کے کھائے کیلوں کے چھلکے جو کہ اس نے کل لنچ گول کرکے کیلوں پہ ہی گزارا کرتے ہوئے چھلکے وہیں صحن کی ٹیبل پہ ہی چھوڑ کے اْٹھ گیا تھا ان چھلکوں اور دوسرے کچرے نے اس کے ہاتھوں کے ساتھ ساتھ اس کے موڈ کو بھی خراب کرکے آخر سلپ اس کے ہاتھ لگ ہی گئی۔ مٹی اور دوسرے کچرے سے خراب ہوئی سلپ کو ڈسٹ بن سے نکالتے ہوئے اسے کام والی رضیہ پہ بہت غصہ آرہا تھا۔ ’’رضیہ باجی کو تو میں کل سبق سکھاؤں گا‘‘
’’کیوں رضیہ کو کیوں؟ تم اپنی لاپروائی کو سبق سکھاؤ‘‘۔ ڈسٹ بن سے سلپ ڈھونڈتے جہانزیب کی کیفیت سے لطف اندوز ہوتے اس کے باپ نے بیچاری رضیہ پہ آئے اس کے غصے پہ اسے سرزنش کی۔ ’’رضیہ اس گھر کی فرد نہیں ہے جو اس گھر کی چیزیں سنبھالے گی۔ وہ صفائی کرنے آتی ہے اور اپنا کام کرکے چلی جاتی ہے۔ اسے کیا پتا کہ ادھر اْدھر پڑی یہ چیزیں ہمارے لیے کتنی اہم ہیں۔ یہ ہم لوگوں کا فرض ہے کہ اپنی چیزوں کی حفاظت کریں اور بیٹا جی آپ تو یہ بھی شکر کریں کہ آج کچرا اْٹھانے والا نہیں آیا ہے ورنہ آپ کی یہ سلپ تو گئی تھی ہاتھ سے۔ پھر آرام سے بیٹھ کر اپنی اس لاپروائی کی عادت کا رونا روتے‘‘ ۔ابو کی بات پہ جہانزیب کا سر ندامت سے جْھک گیا۔
ابھی بھی وقت ہے بیٹا۔ اپنی اس عادت پر کنٹرول کرلو کہ کہیں کل کو اس سے بھی بڑا کوئی کارنامہ نہ سرانجام دینا پڑے۔ انہوں نے ڈسٹ بن اورکچرے میں خراب ہوئے اس کے ہاتھوں اور سلپ کی طرف اشارہ کیا۔اپنی لاپروائی کی وجہ سے ڈسٹ بن کی تلاشی کا تجربہ ہی اس کے لیے کافی تھا سو اس نے اپنی اس لاپروائی کی عادت سے توبہ کی اور اپنی چیزوں کو خود ہی سنبھال کر رکھنے کا عہد کرکے اپنی قیمتی سلپ کو گیلے کپڑے سے صاف کرنے بیٹھ گیا۔
منے کے فریاد
مدیحہ صدیقی