محمد انور
کراچی مسائل کا شہر بنتا جارہا ہے، اور سب سے بڑا مسئلہ پانی کی فراہمی کا ہے۔ اس مسئلے کو حل کرنے کے لیے 2014ء میں نوازشریف کی حکومت نے K-4 منصوبے کی منظوری دی۔ 25 ارب روپے کی لاگت کے اس منصوبے کو رواں سال جون میں مکمل ہوجانا چاہیے تھا، مگر وفاقی اور صوبائی حکومتوں کی عدم دلچسپی کی وجہ سے یہ تاخیر کا شکار ہوگیا۔ دنیا بھر میں اصول ہے کہ کنٹریکٹ کے مطابق منصوبہ مکمل نہ کیے پر کنٹریکٹر فرم کے خلاف کارروائی کی جاتی ہے۔ مگر K4 پراجیکٹ کی تکمیل کی مدت جون 2018ء آنے سے قبل ہی فروری میں کنٹریکٹر فرم فرنٹیئر ورکس آرگنائزیشن (ایف ڈبلیو او) کو تکمیل کی مدت کے لیے مزید دس ماہ دے دیے گئے۔ کنٹریکٹر فرم نے اس مقصد کے لیے 17 فروری کو درخواست دی تھی جس میں کہا گیا تھا کہ K-4 پراجیکٹ معاہدے کے تحت اِس سال جون تک مکمل نہیں ہوسکے گا، لہٰذا منصوبے کی مدت میں اضافہ کیا جائے۔ سرکاری ذرائع کا کہنا ہے کہ پراجیکٹ کے سابق پی ڈی انجینئر سلیم صدیقی نے تکمیل کی مدت بڑھانے سے انکار کردیا تھا۔ اسی دوران پی ڈی کو عہدے سے ہٹادیا گیا اور اُن کی جگہ سابق ایم ڈی سید ہاشم رضا کی سفارش پر سندھ گورنمنٹ کے گریڈ 18 کے نان انجینئر افسر اسد ضامن کو پی ڈی مقرر کیا گیا۔ نئے پی ڈی نے ایف ڈبلیو او کی جانب سے کام کی تکمیل کی مدت میں اضافے کی درخواست کو دو روز کے اندر ہی منظور کرکے مدت میں نو ماہ کا اضافہ کردیا۔ اس طرح مذکورہ منصوبے کی تکمیل کی حتمی مدت مارچ 2019ء کردی گئی۔
تاہم ایسا کرتے ہوئے پراجیکٹ ڈائریکٹر نے رولز کے تحت سندھ کابینہ سے منظوری لی اور نہ ہی یہ معاملہ حکومت کو بھیجا گیا۔
اس طرح نان ٹیکنیکل پراجیکٹ ڈائریکٹر نے فراہمی ٔ آب کے اس عظیم منصوبے کی تکمیل کی مدت میں قوانین کی خلاف ورزی کرتے ہوئے خود ہی نوماہ کی توسیع کرکے اختیارات کا ناجائز استعمال بھی کیا۔ منصوبے کی تکمیل کی مدت میں اضافے کے باعث اس کی لاگت میں بھی اربوں روپے کا اضافہ ہونا یقینی ہے۔
اطلاعات کے مطابق اس منصوبے سے نتھی اگمنٹیشن پراجیکٹ کی لاگت 5 ارب سے بڑھا کر 19 ارب روپے کردی گئی ہے۔ اگمنٹیشن پراجیکٹ کے پی ڈی کا چارج بھی پراجیکٹ ڈائریکٹر کو دے دیا گیا۔ اس طرح K-4 منصوبے کی تکمیل کے بعد آنے والے 260 ملین گیلن پانی کی تقسیم تک کا مجموعی منصوبہ کم و بیش 47 ارب روپے کا ہوجائے گا۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ اس بات کا خدشہ موجود ہے کہ یہ منصوبہ دسمبر 2019ء تک بھی مکمل نہیں ہوپائے گا، اس لیے اس کی مجموعی لاگت 47 ارب سے بڑھ کر60 ارب روپے تک پہنچ سکتی ہے۔ سرکاری ذرائع کا کہنا ہے کہ فنی لحاظ سے K-4 ایشیا کا سب سے بڑا فراہمی ٔ آب کا منصوبہ ہے، اس لیے اس کا سربراہ کسی انجینئر کو ہی مقرر کرنا ضروری ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ حکومت نے نان انجینئر کو پراجیکٹ ڈائریکٹر تعینات کرکے نہ صرف قوانین کی خلاف ورزی کی ہے بلکہ اس کی تکمیل میں تاخیر کا باعث بھی بنایا ہے۔ کنٹریکٹر فرم نے بھی منصوبے میں تاخیر کی وجہ پی ڈی کی طرف سے نقشے اور فنی رہنمائی نہ کرنا بتائی ہے۔ ظاہر ہے کہ نان انجینئر کس طرح ٹیکنیکل امور کی رہنمائی کرسکتا ہے! ایسی صورت میں ضرورت اس بات کی ہے کہ K4 کے موجودہ نان انجینئر پراجیکٹ ڈائریکٹر کو ہٹاکر تجربہ کار انجینئر کو تعینات کیا جائے۔ اگر حکومت کی جانب سے پی ڈی کی تقرری انجینئرنگ کونسل کی شرائط اور معروف اصولوں کے تحت نہ کی گئی تو خدشہ ہے کہ یہ منصوبہ آئندہ 5 سال بعد بھی مکمل نہیں ہوسکے گا۔
دوسری طرف کراچی میں پانی کی طلب میں اضافہ ہورہا ہے۔ ان دنوں شہر کو یومیہ کم از کم ایک ہزار ملین گیلن پانی کی ضرورت ہے لیکن شہر کو صرف350 ملین گیلن پانی یومیہ مل رہا ہے۔ پانی کی فراہمی میں یہ کمی حب ڈیم میں پانی کا ذخیرہ ختم ہونے اور وہاں سے پانی کی سپلائی بند ہوجانے کی وجہ سے ہوئی ہے۔
کراچی کی یہ بدقسمتی ہے کہ اسے کبھی بھی ضرورت کے مطابق پانی نہیں ملا۔ حب ڈیم بارش کے نتیجے میں بھر جائے تو یہاں سے کراچی واٹر اینڈ سیوریج بورڈ اپنے صارفین کے لیے سو ملین گیلن یومیہ پانی حاصل کرسکتا ہے، مگر بارشیں نہ ہونے کی وجہ سے یہ ڈیم گزشتہ کئی برسوں سے مکمل نہیں بھر سکا۔ دو سال قبل ہونے والی بارشوں سے ڈیم سے زیادہ سے زیادہ 60 ملین گیلن یومیہ پانی حاصل کیا جاسکا، جو بتدریج کم ہوکر اب ختم ہوگیا ہے۔
آئندہ سال جون تک اضافی پانی کا کوئی بھی منصوبہ مکمل نہیں ہوگا
اگرچہ صوبائی وزیر بلدیات سعید غنی یہ دعویٰ کررہے ہیں کہ دھابیجی کے پرانے پمپنگ اسٹیشن کی جگہ نئے پمپنگ اسٹیشن کے قیام کا کام آئندہ سال مارچ تک مکمل ہوجائے گا۔ تاہم حقیقت یہ ہے کہ واٹر بورڈ حکام نے اس کی تکمیل کی تاریخ جون 2019ء مقرر کی ہے۔ اس لیے اس بات کا کوئی امکان نہیں کہ یہ منصوبہ جون سے پہلے مکمل ہو اور اس کی تکمیل سے 50 ملین گیلن اضافی پانی کراچی کے لوگوں کو مل سکے۔ جبکہ دوسری طرف 65 ایم جی ڈی منظور شدہ پانی کے منصوبے پر چونکہ ابھی کام ہی شروع نہیں کیا جاسکا اس لیے یہ آئندہ سال بھی مکمل نہیں ہوسکے گا۔
کے فورمنصوبے میں بے قاعدگیاں
ایک رپورٹ کے مطابق دس کروڑ روپے سے زائد مالیت کے کام کے منصوبے کے کنٹریکٹ کے امور کی منظوری کا اختیار صوبائی حکومت کے پاس ہے۔ یہ پروجیکٹ ایف ڈبلیو او کو دیے جانے کا فیصلہ بھی سابق وزیراعلیٰ سندھ قائم علی شاہ کی کابینہ نے کیا تھا۔ اس لیے معاہدے میں ہر طرح کی ترمیم و توسیع کا اختیار بھی صرف صوبائی کابینہ کو ہے، مگر کے فور کے پروجیکٹ ڈائریکٹر نے صوبائی کابینہ کو بے خبر رکھ کر اپنے دستخط سے منصوبے کی تکمیل کی مدت مارچ 2019ء تک بڑھا دی۔ جبکہ دوسری طرف معلوم ہوا ہے کہ کنٹریکٹر فرم کے حکام نے بھی منصوبے کی رفتار میں سُستی کا نوٹس لیا ہے۔ تاہم انہیں بتایا گیا ہے کہ واٹر بورڈ کے پی ڈی ضروری دستاویزات فراہم ہی نہیں کر پارہے۔ یاد رہے کہ سابق پی ڈی K-4 انجینئر سلیم صدیقی نے صوبائی حکام کو دسمبر 2017ء میں دی گئی رپورٹ میں دعویٰ کیا تھا کہ پروجیکٹ پر 35 فیصد کام مکمل ہوگیا ہے۔