نون۔ الف
کیا یہ فیصلہ ہوچکا ہے کہ ریاست پاکستان میں سپرمیسی عدلیہ کی جگہ کسی اور ” نادیدہ قوت” کی ہوگی؟ اگرچہ یہ بات اب تک کسی بھی حکومتی عہدیدار کے منہ سے نہیں نکلی۔ مگر یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ اس کی ” کھلے بندوں” تردید بھی نہیں کی جارہی ۔
اس حوالے سے لاپتا افراد کے بارے میں اب تک کوئی مثبت پیش رفت دیکھنے میں نہیں آرہی۔ بات جہاں سے شروع ہوئی تھی 9 سال بعد بھی اسی مقام پر اسی شدت کے ساتھ موجود ہے۔
سپریم کورٹ لاپتا افراد کے قائم کردہ کمیشن اور چیف جسٹس جناب ثاقب نثار کی رولینگز کی درختوں درختوں اچھل کود اور حوصلہ افزا بیانات سے زیادہ اہمیت نہیں ہے۔ گزشتہ دنوں لاپتا افراد کے کیسز کی سماعت اور کمیشن کی نگرانی کے لیے چیف جسٹس پاکستان جسٹس ثاقب نثار نے جسٹس منظور احمد ملک اور جسٹس سردار طارق پر مشتمل سپریم کورٹ کا 2 رکنی خصوصی بینچ کی تشکیل کا اعلان کیا، اس سماعت میں لاپتا افراد کے وکیل کرنل ریٹائرڈ انعام الرحیم نے بتایا کہ ‘مِسنگ پرسنز کمیشن ‘میں پروڈکشن آرڈرز کے باوجود سالوں لوگوں کو پیش نہیں کیا جاتا لہذا عدالت سے استدعا ہے کہ لا پتا افراد کے مقدمات سننے کے لیے سپریم کورٹ کا خصوصی بینچ تشکیل دیں۔ عدالت میں انتہائی کرب ناک مناظر دیکھنے میں آئے کہ جب 9 سال سے لا پتا بیٹے کی ماں نے عدالت میں رو رو کر دہائیاں دینی شروع کر دیں بتایا کہ اس کے بیٹے مدثر کی 8 بیٹیاں ہیں اور ہم سب اس کی واپسی کی راہ تک رہے ہیں۔ بوڑھی عورت نے چیف جسٹس کو مخاطب کرکے کہا کہ اوپر اللہ کی ذات ہے اور زمین پر آپ سے ہمیں امید ہے، میرے بیٹے کو بازیاب کروادیں۔
اخبارات میں یہ بات بھی ریکارڈ پر موجود ہے کہ جب چیف جسٹس نے متعلقہ اداروں کے نمائندے سے دریافت کیا تو بتایا گیا کہ متعلقہ فرد کسی ادارے کی بھی تحویل میں نہیں، جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ آپ چاہتے ہیں کہ ایجنسیوں کی بات کو آخری سمجھیں اور ان افراد کی تلاش چھوڑ دیں؟
کرنل ریٹائرڈ انعام الرحیم نے عدالت کو بتایا کہ کمیشن کی جانب سے پروڈکشن آرڈر جاری ہونے کے بعد بھی سالوں گزر جاتے ہیں لیکن لا پتا فرد کو پیش نہیں کیا جاتا۔
چیف جسٹس نے معاملے پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ہم لا پتا افراد کے مقدمات سننے اور اس حوالے سے قائم کمیشن کی نگرانی کے لیے سپریم کورٹ کا خصوصی بینچ تشکیل دے رہے ہیں۔
لا پتا افراد کے حوالے سے یہ بات بھی اہم ہے کہ اس کمیشن کو قائم ہوئے 9 سال گزر چکے ہیں۔ ماورائے عدالت گرفتاریوں اور گمشدگیوں کا یہ معاملہ 135 کیسز سے شروع ہوا اور اب 5000 تک پہنچ چکا ہے۔
گمشدگیوں اور ماورائے عدالت گرفتاریوں کا یہ سلسلہ پورے ملک میں خاص طور پر بلوچستان اور کے پی کے میں تو یہ سلسلہ گزشتہ کئی برسوں سے چل رہا ہے مگر اس کی تازہ ترین لہر کراچی بھی پہنچ چکی ہے جہاں صرف ایک سال کے قلیل عرصے میں درجنوں نوجوانوں کو بغیر وارنٹ اور بتائے بغیر رات کی تاریکی میں راہ چلتے یا گھر سے اٹھا کر نامعلوم مقام پر منتقل کردیا جاتا ہے۔ اور پھر اس گرفتا ری یا حبس بے جا میں رکھے جانے کی کوئی ایف آئی آر تک تھانوں میں درج کروانے کی اجازت نہیں ملتی۔
کراچی میں بے شمار افراد ماورائے عدالت گرفتاری اور اس کے بعد پولیس مقابلے کوئی نذر ہوتے چلے گئے۔ ان مارے جانے والے بے گناہوں کے لواحقین اور بوڑھے والدین کا کوئی پرسان حال ہے نہ کوئی آہ و فریاد سننے والا۔۔ کس سے انصاف مانگیں کس کو وکیل بنائیں؟ کس عدالت کے سامنے اپنا رونا روئیں؟
ریاست کے باسی یہ سوال کرنے میں حق بجانب ہیں کہ قانون کس چڑیا کا نام ہے؟ اور اس مملکت میں اصل حکمرانی کس کی ہے؟ جس ملک میں چیف جسٹس اپنے چھا پے کے دوران برآمد ہونے والی شراب کو شراب ثابت نہ کر پائے؟ وہ اپنے آرڈرز پر کیسے عمل درآمد کروا سکتا ہے؟
میرے سامنے آج ایک ایسے محب وطن اور خدمت خلق سے سرشار انسان دوست کا معاملہ ہے کہ جسے لوگ ”اعجاز اللہ خان” کے نام سے جانتے ہیں؟ یہ اعجازاللہ خان کون ہے؟ اس کا ماضی کیا تھا؟ حال کیا ہے؟ اس کی سرگرمیاں کیا تھیں اور کس کے لیے تھیں؟ کیوں یہ فرشتہ صفت اعجاز اللہ خان نے اپنی زندگی کو داؤ پر لگاتے ہوئے اپنے علاج و معالجے سے غفلت برتتا رہا؟
الخدمت فاونڈیشن پاکستان کا اسسٹنٹ جنرل سکریٹری، کئی رفاحی ہسپتالوں کا سرپرست و منتظم، یتیموں کے لیے تعمیر ہونے والے آغوش سینٹرز اور ہاسٹلز کا ذمہ دار، جان ہارتا ہوا ”صحرائے تھر” کا مسیحا اعجاز اللہ خان! آج اس فرشتے جیسے آدمی کو رات کی تاریکی میں گھر سے اٹھا لیا جاتا ہے یہ کہتے اور لکھتے ہوئے کلیجہ منہ کو آرہا ہے کہ آج ”اعجاز اللہ خان” آج اپنے ہی دیس میں ”لا پتا” ہوگیا ہے۔
اس کا جرم کیا ہے؟ کون سی شق اور کس قانون کے تحت اس پر مقدمہ بنایا جائے؟ کچھ تو پتا چلے آخر کہ کس بدامنی، لاقانونیت، بلوہ، فساد، چوری ڈکیتی، قتل، اور گاڑی جلانے، گھر ہتھیانے، سرکاری املاک پر قبضہ کرنے، آخر کس بات اور کس جرم پر اس کی گرفتاری عمل میں لائی گئی ہے؟
جن اہل کاروں نے جس اعجاز اللہ خان کو گرفتار کرکے نامعلوم مقام پر منتقل کیا ہے بتائیں تو سہی، آپ اس سے کیا اقرار کروانا چاہتے ہیں؟ کیا معلومات درکار ہیں؟ یہ سب آپ اس سے ویسے ہی پوچھ لیتے؟ کہ تمہارا دہشت گردوں سے کیا تعلق ہے؟ وغیرہ وغیرہ اس کا پرچہ درج کرواتے…
مجھے یقین ہے کہ اعجاز اللہ خان بلا کم و کاست سب کچھ بتا دیتا کہ اس کا کس دہشت گرد اور ملک دشمن سے کیا واسطہ اور رابطہ ہے؟
مگر آپ نے ایسا نہیں کیا…
اعجازاللہ خان تو اپنی جوانی سے لے کر آج تک اپنے ہر جرم کا ”اقراری مجرم” بلکہ یوں کہیے کہ ”عادی مجرم” ہے
اس کا پہلا جرم یہ کہ اس نے صحرائے تھر میں ایڑیاں رگڑتی انسانیت کے لیے پانی کے سینکڑوں کنویں کھدو ائے، دوسرا جرم یہ کہ اس نے علاج و معالجہ کے لیے بہترین ہسپتال بنوائے، تیسرا جرم یہ کہ یتیم بچوں کے” آغوش” سینٹرز کے لیے فنڈز جمع کیے، چوتھا جرم یہ کہ دن کو دن نہیں رات کو رات نہیں سمجھا اور دیوانہ وا ر ”خدمتِ خلقِ خدا” میں مصروف رہا۔
جس نے اپنی صحت اور اپنی زندگی کی پرواہ کیے بغیر اپنے ملک کے عوام کے لیے اپنے آپ کو تج دیا۔ آج اس اعجاز اللہ خان کو تفتیش کے لیے اس بزدلی کے ساتھ گھر سے اٹھایا گیا ۔۔۔ اس کی توقع نہیں تھی۔
اگر اعجاز اللہ خان کو بھی اپنی پاکیزہ زندگی کی وضاحت کرنی پڑے گی تو میرے ملک کے کرتا دھرتاؤ، ناخداؤ، اور پالن ہارو…. کل کوئی اور عدالت لگنے والی ہے جہاں رات کی تاریکی میں نہیں دن کے روشن اجالے میں تم سب بھی کسی کے آگے پیش ہونے والے ہو، وہاں تم نہیںتمھاری گز بھر کی زبان بولے گی، اور بے گناہ، بے قصور، مجبور لوگ تمھارے بیان اقراری پر مہر تصدیق ثبت کر رہے ہوں گے…. ڈرو اس وقت سے!!!