سماجی میڈیا پر غیرقانونی گرفتاری کا شور

426

سماجی میڈیا کے تیز ترین، بڑھتے ہوئے استعمال پر ہر بار میں تشویش کا اظہار بھی کرتا ہوں اور ساتھ ساتھ مختلف موقعوں پر اس کے مختلف مضمرات سے بھی آگاہ کرتا ہوں۔ سیاسی حوالے یا ملک کی صورتِ حال کی معلومات جاننے کے لیے اگر ہر گھنٹے میں دو منٹ نظر مار لی جائے تو دن کے 24 میں سے اگر آپ 17گھنٹے جاگتے ہیں تو اس کا مکمل دورانیہ کُل 34 منٹ بنے گا۔ کچھ دوست احباب کو مبارک باد، تعزیتی یا دیگر میسجز بھیجنے کے لیے پانچ، سات منٹ مزید لے لیں تو کُل ملا کر یہ چالیس منٹ بنتے ہیں۔ چلیے پندرہ منٹ اور لے لیں، تفریح طبع کے لیے کچھ ویڈیوز بھی دیکھ لیں۔کوئی اچھا خیال آرہا ہے تو ایک دو ٹوئٹر یا فیس بُک پر کوئی پوسٹ بھی کرلیں۔ اس طرح ایک دن میں ایک گھنٹہ کافی ہے، جس میں آپ نے انتہائی ضروری و غیر ضروری سب کچھ کرلیا۔ لیکن عملاً کیا ہورہا ہے اس کا اگر جائزہ لیں تو پتا چلے گا کہ ہمارا اسکرین کے ساتھ تعلق عام طور پر کم از کم چھ سے آٹھ گھنٹے ہے۔ ایک اور کیٹگری ہے جسے ایڈکٹ کہیں گے۔ اُس کا معاملہ ایسا ہے کہ 12سے 14گھنٹے بھی اُنہیں کم ہی لگتے ہیں۔
بھارت کے ایک تاجر خاندان سے تعلق رکھنے والے ماڈل، پھر ایک مشہور فوٹو گرافر اور بلاشبہ تصاویر کی دنیا میں بھارت کے سب سے بڑے ڈیجیٹل آن لائن بازار کا ویب پورٹل چلانے والے، ایک معروف مقرر (اصلاحِ احوال کرتے ہوئے کامیاب زندگی گزارنے کے مبلغ)، موٹی ویشنل اسپیکر کی دنیا میں ایشیا کے معروف نام مہیش سندیپ مہیشوری کی ڈھائی منٹ دورانیے کی وائرل ویڈیو کلپ نظر سے گزری۔ ویڈیو کوئی ساڑھے تین ملین ویوز مکمل کرتی ہوئی مجھ تک پہنچی تھی۔ اتفاق ہے کہ ویڈیو کلپ کا موضوع یہی تھا: حد سے زیادہ موبائل فون کے استعمال کے نقصانات۔ مقرر نے شرکائے لیکچر سے پوچھا کہ آپ میں سے کتنے لوگ ہیں جو موبائل کو تین سے چار گھنٹے روزانہ استعمال کرتے ہیں؟ سبھی نے ہاتھ کھڑے کرلیے، تو مقرر نے سوال کیا: کیا آپ کو اندازہ ہے کہ اس کا مستقبل میں آپ کو کیا نقصان ہوگا؟ سب نے نفی میں سر ہلا دیا، تو مقرر نے کہاکہ آپ اس بات کو انڈر اسٹیمیٹ کیوں کررہے ہیں کہ اس کے استعمال سے آپ کے جسم پر کیا اثرات ہوں گے؟ چنانچہ انہوں نے سمجھانے کے لیے ایک سادہ سا عمل کیا کہ اپنے دونوں ہاتھوں کو پشت پر جاکر پکڑ لیا اور ایک منٹ تک تمام شرکاء کو ایسا کرنے کے لیے کہا، لیکن وہاں موجود شرکاء میں سیچند کے سوا کوئی بھی ایسا نہیں کرسکا۔ ایک منٹ تو دُور، لوگ اپنے دونوں ہاتھ نہیں پکڑ سکے۔ پھر مقرر نے سمجھایا کہ موبائل کے مستقل استعمال کے نتیجے میں ہمارے جسم کے پٹھوں کے ساتھ کیا ہورہا ہے اور آگے چل کر کیا کچھ ہوجائے گا۔ ان پٹھوں کے ایسا ہوجانے سے جسم کے تمام حصوں کو خون نہیں پہنچ پاتا جس کی وجہ سے دماغ پوری طرح کام ہی نہیں کرپاتا۔ اس لیے ذرا تصور کیجیے کہ ہم خود اپنی زندگی، اللہ کی عطا کردہ بہترین نعمت کے ساتھ کیا سلوک کررہے ہیں۔ یہ تو حال تھا اُن کا جو پورے دن میں تین سے چار گھنٹے موبائل استعمال کرتے ہیں، سوچیے اُن کا کیا بنے گا جنہیں اس سماجی میڈیا کی بری طرح لت لگ چکی ہے!
اب ایسا بھی نہیں ہے کہ سماجی میڈیا پر صرف سیاست ہی ہوتی ہے… اور بھی بہت کچھ جاری رہتا ہے۔ اس وقت سماجی میڈیا کاروبار کا اہم ترین ذریعہ بن چکا ہے، ہر طرح کے کاروبار کے لیے پروموشن اور ٹارگٹ افراد تک رسائی کے لیے بھی اس کا بھرپور استعمال ہورہا ہے۔ پھر جب سے لائیو سیشن کا فیچر فیس بُک نے متعارف کرایا ہے ہر طرف سے ایک نیا سلسلہ شروع ہوگیا ہے۔ کیا مرد، کیا خواتین… سب نے اپنی اپنی دکانیں کھول لی ہیں۔ بات اس حد تک آگے بڑھتی دیکھی کہ اب خواتین نے لائیو میک اَپ کے گروپس بنا لیے ہیں، جن پر وہ لائیو آکر باقاعدہ میک اَپ کرنے کا مکمل طریقہ بتاتی ہیں، یعنی خود اپنے اوپر میک اَپ کرتی ہیں۔ بظاہر تو یہ عام سی بات لگتی ہے لیکن اس سب کے پیچھے میک اَپ مصنوعات بنانے والی کمپنیوں کی مخصوص مصنوعات کی فروخت کا ایجنڈا بھی پوشیدہ ہوتا ہے۔ خواتین خود اپنے میک اَپ کے دوران مصنوعات کو متعارف کراتی ہیں، برانڈ بتاتی ہیں، یہاں تک کہ مارکیٹ، دکان اور قیمت بھی بتاتی ہیں۔کاروباری مقصد کے ساتھ ساتھ سب سے خطرناک کام جو جانے انجانے میں یہ خواتین کررہی ہوتی ہیں وہ یہ کہ گروپس میں ڈالی جانے والی ان ویڈیوز کو، کوئی بھی فیک آئی ڈی سے گروپ میں شامل ہوکر کسی بھی مقصد کے لیے استعمال کرسکتا ہے۔ ان خواتین کے شوہر حضرات کو یہ بات شاید معلوم نہ ہو، لیکن اس طرح ویڈیو کے وائرل ہونے اور اس کے نتیجے میں یہ بات کسی خاتون کے والد یا شوہر کو معلوم ہوجائے تو سوچیں اس کے کیا سماجی و خانگی اثرات ہوں گے۔ دوسری اہم بات یہ کہ یہ پرائیویٹ ڈیٹا قطعاً محفوظ نہیں ہوتا۔ فیس بُک ہیکنگ تو معمولی بات ہوچکی ہے۔ بدقسمتی سے ہمارے ملک میں درست سمت کسی بھی چیز کی رہنمائی نہ ہونے کے سبب بے راہ روی اور ہر چیز میں چور راستے ڈھونڈنے کا جو کلچر فروغ پا چکا ہے اُس نے نئی نسل کی اخلاقیات کو بری طرح متاثر کیا ہے۔ میک اَپ مصنوعات کی فروخت کے پیچھے ایک بہت بڑی انڈسٹری ہے جو خواتین کو زیادہ سے زیادہ خوبصورت بننے، رنگ گورا کرنے، سجنے سنورنے اور اُس خوبصورتی پر داد وصول کرنے کے لیے شوبز کی پوری انڈسٹری کو سہارا دے کر کھڑی ہوئی ہے۔ جیسا کہ میں پہلے بھی تذکرہ کرتا رہا ہوں کہ سب ’مال‘کا چکر ہے، اس لیے ان سب گروپس کو کھڑا کرنے کے پیچھے بھی یہی سوچ کارفرما ہے۔گو کہ میں نے صرف پاکستان اور دبئی سے متعلق چند ہی گروپس کا جائزہ لیا، میرے تجزیے کے مطابق گروپس میں زیادہ تر شادی شدہ خواتین ہی پائی گئیں، جن کے پاس قوتِ خرید اور خریدنے کا خودساختہ فیصلہ کرنے کی مکمل آزادی ہوتی ہے (کم عمر لڑکیوں کے مقابلے میں)، پھر اُن کے کمنٹس سے اندازہ ہوگیا کہ اس طرح کی ویڈیوز آپس میں کمپٹیشن بھی پیدا کرتی ہیں۔کئی کئی گھنٹے خواتین موبائل کا کیمرا لگاکر میک اَپ کرنے میں جتی رہتی ہیں۔ کچھ گروپس میں تو باقاعدہ میک اَپ کمپنی کی جانب سے اسپانسر بھی آفر کیا گیا تھا، جس نے میرے تجزیے کو مزید درست سمت دی۔ سماجی رابطوں کے ذریعے، مؤثر انداز سے بات سمجھائی جائے۔ کسی نے کیا خوب کہا ہے کہ ’اسکرین کا بھی اپنا ایک نشہ ہوتا ہے‘۔ایک جانب میک اَپ کے ذریعے خوبصورت بننے، نت نئے فیشن جاننے، مصنوعات کی معلومات لینے اور برانڈز کو بطور کلچر اپنانے کا رحجان اس انداز سے سرایت کرایا جارہا ہے کہ مصنوعات کی زیادہ سے زیادہ، کبھی نہ ختم ہونے والی فروخت اور ساتھ ہی ساتھ اُس کے گاہکوں کی تیز ترین اُگنے والی فصل ہمیشہ جاری رہے۔
اس ہفتے سماجی میڈیا پر نئی حکومت کے اقدامات پر خوب چرچے رہے۔ بھینسوں اور گاڑیوں کی نیلامی کے بعد مہنگائی اور منی بجٹ کا بھی خوب چرچا رہا۔اسی طرح وفاقی وزیر محمودالرشید کے بیٹے کی اسلام آباد میں برہنہ حالت میں پولیس کے ہاتھو ں گرفتاری پر بھی خوب جگ ہنسائی کی گئی۔ پیٹرول، ڈالر، سی این جی و دیگر کی قیمتوں میں اضافے کے ردعمل میں موجودہ وزیر خزانہ کی دو سال قبل کی انتہائی متضاد تقاریر بھی یاددہانی کے لیے ’نئے پاکستان‘ کے عنوان سے خوب شیئر کی گئیں۔ پھر پشاور یونیورسٹی میں فیسوں میں اضافے یا ہاسٹل ایشو پر مقامی طلبہ کے مظاہرے پر یونیورسٹی انتظامیہ کی جانب سے بھرپور پولیس ایکشن کا ایشو بھی خوب گرم رہا۔ جامعہ کا مؤقف تھا کہ تین ماہ قبل یونیورسٹی ہاسٹل کے کمروں کو غیرقانونی قابضین سے خالی کرانے پر فیسوں کا ایشو بنا کر بدلہ لیا گیا ہے، جبکہ طلبہ تنظیموں کے ترجمان کا کہنا ہے کہ یونیورسٹی انتظامیہ کا اپنے وعدوں سے انحراف کرتے ہوئے 2008ء میں 10 ہزار ایک سو روپے فی سمسٹر سے اب 52 ہزار فی سمسٹر تک پہنچانا ظلم کے مترادف ہے۔ اسی طرح ہاسٹل و دیگر معاملات میں بھی فیسوں کے اضافے کو احتجاج کی وجہ بیان کیا گیا۔ بہرحال پشاور یونیورسٹی کے طلبہ پر تشدد کا معاملہ ملکی سطح پر اہمیت اختیار کرگیا ہے۔
اسی طرح سماجی میڈیا پر کراچی کے ایک معروف سماجی رہنما اعجاز اللہ خان کی اُن کے گھر سے بغیر کسی وارنٹ گرفتاری بھی سماجی میڈیا پر اُن کے چاہنے والوں اور احباب کی طویل فہرست کی جانب سے گرم موضوع بنی رہی۔ پاکستان میں گمشدہ افراد، اور غیر قانونی گرفتاری کے نتیجے میں کئی گھرانوں میں آج تک انتظار کی تکلیف دہ گھڑیاں گزاری جا رہی ہیں۔ ایسے میں ایک اور واقعہ کا اضافہ ہوا، جو کہ حسنِ اتفاق سے ایک ایسے شخص کا ہے جو انتہائی مقبول عوامی شخص ہے۔ اُن کی اس طرح گرفتاری پر اُن کی اپنی سماجی جماعت کی جانب سے خاموشی معنی خیز رہی جبکہ جماعت اسلامی کراچی کے امیر کی جانب سے ایک ہلکا پھلکا بیان سامنے آیا، البتہ اُن کے وسیع حلقہ احباب نے سماجی میڈیا پر ضرور ہلچل مچائی۔ اُن کی تصاویر، ٹی وی انٹرویوز، اُن کے بچپن اور جوانی کے واقعات کی پوسٹیں بڑی تعداد میں شیئر کی گئیں۔ اسی طرح اُن کی اہلیہ کی جانب سے قانون نافذ کرنے والے اداروں کے سربراہان کو لکھے گئے خط کو بھی سماجی میڈیا پر پوسٹ کیا گیا جس کے مطابق اعجاز اللہ خان دل، بلڈ پریشر، معدے اور آنتوں کے علاوہ،کمر اور ریڑھ کی ہڈی اور موٹاپے جیسے شدید امراض میں مبتلا ہیں۔ ایسے میں اُن کی بلاوجہ اور قانونی تقاضوں کے بغیر گرفتاری اُن کی صحت و سلامتی کے حوالے سے خاصی تشویش کا باعث بنی ہوئی ہے۔ اعجاز اللہ خان کی اہلیہ نے کھلے الفاظ میں اُن کی رہائی کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ اعجازاللہ قانون کا احترام کرنے والے شہری ہیں جو ہر قسم کا تعاون کرنے کو تیار ہیں۔ اسلام آباد سے معروف صحافی سیلانی منظرنامے کی تمام تر عکاسی کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ ’’اعجازاللہ خان دہشت گرد نہیں تھا، دہشت گردوں کی نرسری کا پرنسپل تھا، وہ الخدمت کے پلیٹ فارم سے ملک توڑنے کی خدمت کررہا تھا۔ تھر میں جاتا، ملک دشمنوں کے لیے کنویں کھدواتا، دریا آپے سے باہر ہوتے تو الخدمت کے رضاکاروں کے ساتھ راشن پانی لے کر دہشت گردی کے کیمپ کھول لیتا، کوئی وبا پھوٹتی تو ڈاکٹروں کی ٹیم لے کر سماج دشمن عناصر کے دوادارو میں لگ جاتا۔ میں اس احمق انسان کو 1988ء سے جانتا ہوں، یہ اس اسلامی جمعیت طلبہ کا کارکن تھا جس کے کارکنوں کو مشرقی پاکستان میں مکتی باہنی والوں کی گولیوں سے سینے چھلنی کروانے پر عقل نہیں آئی۔ یہ اس قافلے کے ساتھ ہے جس کے نوّے نوّے برس کے بوڑھے بزرگ آج بھی ’’بغاوت‘‘ کے جرم میں تختۂ دار پر لٹکائے جارہے ہیں… یہ سب دیکھ کر بھی اعجازاللہ کو عقل نہ آئی، نتیجتاً عقل دلانے والے ساتھ لے گئے۔ لیکن مجھے امید ہے کہ اعجاز کو عقل نہیں آئے گی جیسے انہیں ساتھ لے جانے والوں کو نہیں آرہی۔ ایسی حرکتوں سے ہی ہم نے منظور پشتین کو کھڑا کیا ہے۔ بات اتنی سی ہے کہ اعجازاللہ اگر کسی جرم میں ملوث ہے تو تفتیش کریں، مقدمہ درج کریں، جیل بھیجیں، نشانِ عبرت بنائیں تاکہ دنیا عبرت پکڑے۔ اس طرح کے ہتھکنڈوں سے تو صرف وہ فصل کاشت ہوگی جسے نفرت اور بیزاری کہتے ہیں۔ یہی فصل مشرقی پاکستان میں بوئی تھی، نتیجہ1971ء میں دیکھ لیا ناں۔ دیکھیں فاصلے کسی کے حق میں نہیں۔ فاصلے نہ بڑھنے دیں، اور آپ اُن لوگوں سے فاصلہ بڑھا رہے ہیں جو بے وردی کے سپاہی ہیں، جو وقت پڑنے پر بیوی، بچے، گھر بار، مال، دولت چھوڑ کر پاکستان زندہ باد کا نعرہ لگاتے ہوئے اٹھ کھڑے ہوں گے۔ آپ انہیں دشمنوں کی قطار میں کھڑا نہ کریں کہ دشمن یہی چاہتا ہے۔‘‘

حصہ