اسلام پُرامن مذہب

1036

مدثر قیصرانی
اسلام پر اگر سرسری نظر دوڑائی جائے تو اسلام ہمیں ایک مکمل ضابطہ حیات پر مبنی پر امن مذہب دکھائی دیتا ہے اور اسی پر امن مذہب کے ماننے والے کو مسلمان کہا جاتاہے۔ بے شک اسلام ہمیں امن کا درس دیتا ہے اسلام ہمیں بھائی چارگی کا درس دیتا ہے۔ امانت اور دیانت داری کے اسباق سکھاتا ہے۔ مسلمان مسلمان کا بھائی ہے بار بار کہتا ہے کیونکہ اسلام خونریزی کا مذہب نہیں ہے۔ اسلام ناحق اور حرام مال کھانے کا مذہب نہیں ہے۔ اسلام قتل و غارت گری کا نام نہیں ہے بلکہ اسلام ایک امن پسند مذہب ہے کیونکہ اسلام کا مطلب ہی سلامتی اور امن والا ہے جس کا نام امن اور سلامتی ہے۔ وہ مذہب بھلا کیسے قتل و غارت گری کی اجازت دے سکتا ہے۔ اسلام کہتے ہی اسی کو ہے کہ اپنے آپ کواللہ کی رضا کے آگے جھکا دیا جائے اور اللہ تعالیٰ بحر وبر میں کبھی فساد نہیں چاہتا۔ اب اسی مذہب اسلام کو ماننے والے کو مسلمان کہا جاتا ہے اور مسلمانوں کو یہ حکم ہے کہ آپ نے اسلام کے مطابق زندگی گزارنی ہے کیونکہ اسلام ایک ایسا واحد مذہب ہے جو تمام چرند پرند انسان حیوان سب کے حقوق کی پاسداری کا درس دیتا ہے۔
اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے کیونکہ حقیقت میں غم خواری محبت انس اور پیار ہی وہ بنیادی جذبہ ہے جسے دین اسلام نے ہر مسلمان میں فروغ دینے کی تلقین کی ہے۔ خاتم النبین صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی جذبے کو عملی طور پر مسلمانوں کی زندگی میں اس طرح نافذ کر دکھایا کہ مختلف رنگوں اور نسل کے لوگوں کو اسلامی اخوت کی ایسی لڑی میں پرو دیا کہ پھر اس لڑی کو توڑنا کسی دشمن کی بس کی بات نہ رہی،چشم فلک نے وہ حیران کن منظر بھی دیکھاکہ جو لوگ کل تک مختلف قبیلوں علاقا ئیت اور رنگ و نسل کی بنیاد پر ایک دوسرے کی عزتوں پر حملہ کرنے قتل و غارت گری کو کاروبار حیات سمجھتے تھے۔ اسلام کے آنے کے بعد وہ جذبہ دلوں میں پیدا ہوگیا کہ ہر مسلمان اپنے مسلمان بھائی کے لیے اپنا سب کچھ قربان کرنے کے لیے تیار نظر آتا ہے۔
اسلام اور مسلمانوں کو آج دنیا دہشت گرد اور قتل و غارتگری والا مذہب تصور کرتی ہے۔ مسلمان ہی ایک دوسرے کے خلاف سازشیں کر رہے ہیں۔ آج اسی وجہ سے غیر مسلم بھی ہم پر بھاری ہے حالانکہ اسلام ہی وہ واحد مذہب ہے جو تمام مذاہب سے سچا اور غالب ہونے والا ہے۔مگر وقتی طور پر یہ مغلوبیت ہماری ہی کمی کوتاہیوں اور ہمارے اعمال کا نتیجہ ہے۔آج اگر نظر دوڑائی جائے تو ہر ممالک میں اسلامی اشعار پر پابندی لگتی ہوئی نظر آتی ہے اسلامی عقائد پر بات کرنا غیر قانونی گردانا جاتا ہے۔اسلامی طرزو فکر کو اپنانے پر دہشت گردی کا لیبل لگ جاتا ہے اور قرآن نے واضح کر دیا کہ یہود و نصاریٰ آپ کے کبھی بھی دوست خیر خواہ نہیں بن سکتے ہیں مگر پھر بھی ہم انہی کے گیت گاتے نظر آتے ہیں جن کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ ہمیں معصوم جانوں کی نعشیں اٹھانی پڑتی ہیں۔
اسلام امن کے درس اور مسلمان بھائی چارگی کے درس دینے والے کو آج دہشت گرد قرار دے کر ان کی خون کی ندیا ں بہا دی جاتی ہے ۔برما میںلاکھوں مسلمانوں کا قتل عام کیا گیا۔قرآن پڑھتے طلباء شہید کردئے جاتے ہیں۔معصوم کھیلتے ہوئے کلیوں کو مرجھا دیا جاتا ہے۔فلسطینی مائیں اپنی گود اجاڑرہی ہیں،کشمیر ی مائیں بہینیں اپنوں کے جنازے اٹھا کرآنسوں کے دریا بہا دیتی ہے زیادہ دور نہیں حال ہی میں31مارچ کو فلسطین پر اسرائیلی بمباری سے 15نہتے معصوم بچے خواتین اور بوڑھے شہید کردیے گئے حالانکہ اسلام تو حالت جنگ میں بھی کفار کے بچوں خواتین اور بوڑھوں پر قتال سے منع کرتی ہے آج ان ہی اسلام لیواوں کو شہید کیا جارہا ہے1اپریل کو کشمیر میں 20معصوم جانیں خاک و خون میں تڑپا دی گئیں ۔2اپریل کو افغانستان میں قرآن پڑھتے 101طلباء کو شہید کردیا جاتا ہے مگر کسی کو جوں تک نہیں رینگتی۔
مسلمانوں پر یہ مظالم کب تک۔۔آخر کب تک ہم اس ظلم کی چکی میں پستے رہیںگے۔۔آخر کب تک ہم ان یہود و نصاری کے ساتھ دوستی کی پینگیں بڑھاتے رہیں گے جب کہ واضح لفظوں میں قرآن میں موجود ہے کہ یہود و نصاری کبھی بھی اسلام کے خیرخواہ نہیں ہوسکتے۔ خدارا ہوش کے ناخن لیجئے اورستم بالائے ستم یہ ہے کہ آج مسلمان بھی دوسرے مسلمان کو قتل ہوتے خاموشی اختیار کئے خواب غفلت میں ڈوبا ہوا نظر آتا ہے حالانکہ مسلمان ایک دوسرے کے لیے تو یک جان ہیں اگر ایک حصے کو تکلیف ہے تو دوسرے کو بھی تکلیف ہونی چاہیے۔ آج اگر ہم اپنے مسلمان بھائیوں کے لیے اُٹھ کھڑے نہیں ہوئے تو وہ دن دور نہیں جب ہماری باری آئے گی۔
اسلامی طرز زندگی کو اپناتے ہوئے مسلمان ایک دوسرے کا ساتھ دیں تو دیکھیں وہی امن و امان بحال ہوگا جو آج سے چودہ سوسال پہلے اسلام کے آنے کے بعد دنیا امن کا گہوارہ بن گئی تھی۔آج ہمیں مسلمانوں کا ساتھ دینا چاہئے ہمارا حق بنتا ہے ہم اپنے مظلوم مسلمان بھائیوں کے لیے ہر ممکن مدد اور ہر سطح پر ان کی حمایت میں آواز بلند کرنی چاہئے ۔
اللہ تعالیٰ تمام مسلمانوں کی حفاظت فرمائے بے شک اسلام ایک امن پسند مذہب اور ان کے ماننے والے دہشت گرد نہیں بلکہ مسلمان کہلاتے ہیں اور مسلمان کبھی اللہ کی زمین پر فساد نہیں چاہتا کیونکہ میرا اللہ زمین پر فساد سے منع کرتا ہے اور اسی اللہ کو ماننے والے بھلا کیسے زمین میں فساد و قتل و غارتگری کرسکتے ہیں۔اللہ تعالیٰ ہم سب کا حامی و ناصر ہو، آمین۔

پردہ ضرورت یافیشن۔۔۔؟

بنت ِ عطا

اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا ’’اپنے گھروں میں سکون سے بیٹھی رہو اور زمانہ جہالت کی طرح زیب و زینت ظاہر نہ کرو‘‘۔ مذکورہ آیت پردے کی اہمیت کو بیان کرتی ہے۔ بحیثیت مسلمان ہم سب یہ جانتے ہیں کہ اس پرفتن دور میں پردہ کس قدر ضروری ہے۔ مگر افسوس ناک صورتحال یہ ہے کہ پردے کو بھی فیشن بنا دیا گیا ہے۔ رنگین مزین برقعے جو ان کو بھی اپنی جانب متوجہ کرلیں جو دیکھنا نہیں چاہتے۔ ہم نے عبایا پہننے کا تو رواج بنا لیا مگر اس کے مقصد کو بھول گئے۔ پردے کا مقصد یہ تھا کہ ہم نامحرم کی نظروں سے محفوظ رہ سکیں۔ جہاں سے کوئی باپردہ خاتوں گزرے مردوں کی نظریں خود جھک جائیں۔ مگر ہم نے کیا کیا اتنے آرائشی مزین برقعے بنالئے کہ ہر شخص ہماری طرف متوجہ ہو۔ ہم نے خود اپنے پردے کے مقصد اپنے دین کے حکم کو پامال کردیا۔
میری گزارش ہے اپنی مسلمان بہنوں سے، اپنے معاشرے سے کہ خدارا پردے کو پردہ ہی رہنے دیں، اسے اپنی خواہشات اور فیشن کی بھینٹ نہ چڑھائیں۔ اپنے اسلامی وقار کو قائم رکھیں، سادگی اپنائیں، سادگی ایمان کا حصہ ہے، فیشن سے عزت نہیں ملتی، اللہ عزت دیتا ہے، اپنی نیتوں کو ٹھیک کرلیں، ڈھیلے ڈھالے اور سادہ حجاب اور برقعے استعمال کریں، اللہ کی رضا و خوشنودی کو پیش نظر رکھیں، اللہ کا حکم پورا کرنے کے لئے پردہ کریں، دین کے احکامات کا تمسخر نہ اڑائیں۔
یہ چا ر دن کی زندگی اپنی خواہشات کو پورا کرنے کے لیے نہیں ملی، یہ زندگی ایک امتحان ہے آزمائش ہے، کہ کون آخرت کی بہترین تیاری کرنیوالا ہے؟ کون اپنے رب کی رضا اور خوشی کو اہمیت دیتا ہے اور کون اپنی نفسانی خواہشات کے پیچھے اندھا دھند بھاگتا ہے۔ زندگی اسی کھیل تماشے میں ضائع کرنے کے لئے نہیںہے۔ سوچنے کی بات ہے کہ ہم اگر بہت خوبصورت نظر آ بھی گئے تو کیا، فیشن کی دوڑ میں سب سے آگے نکل بھی گئے تو کیا، ہم لوگوں کی نظروں میں بہت جچ بھی گئے تو کیااگر یہ سب کچھ ہمیں مل بھی گیا تو کیا۔ موت کے ساتھ ہی ہر چیز کا خاتمہ ہو جانا ہے دنیا کی ناموری، شہرت عزت سب کچھ یہیں رہ جانی ہے اور آخرکار انسان اکیلا ہی اپنے اعمال کا بوجھ لے کر اپنی قبر میں جاسوئے گا جہاں سوائے اپنی نیکیوں کے کچھ کام آنے والا نہیں ہے۔
اللہ تعالیٰ نے بہت عظیم الشان جنت بنائی ہے اپنے فرمانبردار بندوں کے لئے وہاں وہ وہ نعمتیں ہیں جو نہ کسی آنکھ نے کبھی دیکھیں، نہ کسی کان نے سنیں، نہ کسی دل پر ان کا خیال بھی گزرا، آج دنیا میں رب چاہی زندگی گزار لیں کل آخرت میں ان شاء اللہ ہم اپنی من چاہی زندگی گزاریں گے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو پردے کے حقیقی تقاضوں پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے، آمین۔

حصہ