شیر دل بچہ!

386

ڈاکٹر میمونہ حمزہ
رات ہولے ہولے سرک رہی تھی۔ اس رات کا کیا کہنا! ہم حاجی کیمپ میں بیٹھے تھے، یہاں سے بسوں میں سوار ہوکر ائرپورٹ پہنچنا تھا۔ انتظار کے ان لمحوں میںکئی لوگ کھانا کھول کر بیٹھے تھے، کوئی پھل کھا رہا تھا اور کوئی مٹھائی اور حلوہ۔ فراخ دلی سے ایک دوسرے کو دعوت ِ طعام دی جارہی تھی، روح کی غذا کا بھی پورا اہتمام ہورہا تھا۔ معلمین حج کے مختلف ایام کے بارے میں ٹریننگ دے رہے تھے، واپس جاتے ہوئے انہوں نے خواتین کو آخری نصیحت کی:
’’… اور خواتین بار بار مسجد ِ عائشہ (تنعیم) سے احرام باندھ کر عمرے نہ کریں، ایسی تکرار سنت سے ثابت نہیں، ایسا نہ ہو کہ بال کاٹ کاٹ کر گنجی ہوجائیں واپسی تک! ہاں طواف کریں جس قدر ممکن ہو۔‘‘
بسیں آئیں تو لوگ بھاگ بھاگ کر ان میں سوار ہوگئے، سول ایوی ایشن کا ایک اہلکار پڑتال بندی کے لیے آگیا، اور لگا سب کے پاسپورٹ چیک کرنے۔ ’’بزرگو! پاسپورٹ‘‘۔ اس نے سب سے اگلی سیٹ پر بیٹھے شخص کو متوجہ کرنے کے لیے آواز لگائی۔ مگر بوڑھے بابا جی ٹس سے مس نہ ہوئے، دوسری اور تیسری بار متوجہ کرنے پر بھی وہ کھڑکی سے افق کے پار ہی دیکھتے رہے، پیچھے سے ایک مسافر نے کہا:
’’بابا جی کے گلے میں لٹکے بیگ میں چیک کرلیں۔‘‘
’’نہیں جی، ہم بیگ کو ہاتھ نہیں لگاتے۔‘‘ اہلکار نے روکھا سا جواب دیا۔
کئی لوگوں کے متوجہ کرنے اور کان کے قریب آکر بولنے پر بھی بابا جی نے کوئی جنبش نہ کی تو اہلکار نے بے دلی سے بیگ کی زپ کھول کر پاسپورٹ نکال لیا۔ یک نہ شد دو شد، بابا جی کے ساتھ ایک خاتون کا بھی پاسپورٹ تھا، جو بس میں نہ تھی۔ اتنی دیر میں دوسری بس کا اہلکار آواز لگاتا ہوا نکل آیا ’’غلام رسول… غلام رسول‘‘۔ اب غلام رسول صاحب کو بس سے اتار کر اُن کی بیگم صاحبہ کے پاس بھیجا گیا اور بس چل پڑی۔
اسلام آباد ائرپورٹ کے لاؤنج میں (جو ابھی تک بے نظیر ائرپورٹ نہیں بنا تھا، بی بی ابھی بقیدِ حیات تھیں) حاجیوں کے اعزاز میں چائے اور سینڈوچز کا اہتمام تھا، چیک اِن سے پہلے حاجیوں نے احرام پہن لیے اور دو رکعت نفل ادا کیے۔ اسی دوران لاؤنج میں کچھ ہلچل دکھائی دی، پتا چلا کہ ایک بزرگ خاتون اپنے شوہر یعنی غلام رسول صاحب کو احرام پہننے کے لیے اصرار کررہی ہیں اور انہوں نے انکار کردیا ہے کہ میں یہ نہیں پہنتا، میرا سفید جوڑا ہی ٹھیک ہے۔ آخر دو حاجی اٹھے اور بابا جی کو واش روم میں لے گئے، کچھ دیر بعد بابا جی جھنجھلائے ہوئے احرام پہن کر آگئے، انھی صاحبان نے اپنے ساتھ دو نفل بھی پڑھوا دیے۔ خاتون نے اطمینان کا سانس لیا اور ان دونوں کا شکریہ ادا کیا۔ ہم جہاز میں سوار ہونے کے لیے قطار میں کھڑے تھے کہ ایک مرتبہ پھر ہنگامہ سنائی دیا، معلوم ہوا خاتون کی نظر بچا کر بزرگ غلام رسول دوبارہ سفید جوڑا پہن آئے ہیں اور احرام بغل میں دبا رکھا ہے۔ پی آئی اے اہلکاروں نے بھی انہیں منایا، مگر بابا جی اسی لباس کو پہنے رکھنے پر مُصر رہے، ایک صاحب نے ذمہ لیا کہ میقات سے گزرنے سے پہلے میں انہیں پہنوا دوں گا۔ یوں بابا جی جہاز میں سوار ہوگئے۔ ان صاحب نے نہ صرف احرام پہنوایا بلکہ ان کا سفید جوڑا بیگ میں رکھ کر اسے تالا لگا کر چابی ان کی بیگم کو دے دی۔ اتنے پکے کام کے بعد بابا جی آرام سے بیٹھ گئے اور حاجی بھی ان سے توجہ ہٹاکر ’’لبیک اللہم لبیک‘‘ کی تلبیہ میں مشغول ہوگئے۔
جہاز جدہ ائرپورٹ پر اترا، امیگریشن کی لمبی قطار ختم ہوئی تو معلمین کی بسوں کا انتظار شروع ہوگیا۔ ائرپورٹ پر گاہے گاہے اعلانات بھی ہورہے تھے۔ غلام رسول نامی مسافر کے لیے پیغام کہ ان کا بیٹا ساجد انہیں لینے آنے والا ہے۔ یہیں مسافروں نے وضو کرکے نمازِ ظہر ادا کی۔ مسافر نماز سے فارغ ہوئے تو یہ دیکھ کر حیران رہ گئے کہ ایک بزرگ حاجی سفید قمیص شلوار میں ملبوس نماز ادا کررہے ہیں، اور دوسری جانب خواتین کے گروپ میں اماں جی سر پیٹ رہی ہیں کہ:
’’باوے میرے کولوں چابی منگی سی کہ بھوکھ لگی ہے میں حلوہ کھاساں۔‘‘ (بابے نے مجھ سے چابی مانگی تھی کہ بھوک لگی ہے، میں حلوہ کھاؤں گا) اور اماں جی نے بے دھیانی میں انہیں بیگ کی چابی دے دی، اور انہوں نے موقع غنیمت جان کر احرام اتارا اور قمیص شلوار زیب تن کرلیا۔ اب خواتین اماں جی کو سرزنش کررہی تھیں کہ چابی دی کیوں؟ اور ان کے ساتھ آئی ہوئی گاؤں کی خاتون الگ ناراض ہورہی تھیں کہ یہ دونوں ہمارا بھی حج خراب کرائیں گے۔
مردوں کی جانب معرکہ کچھ زیادہ ہی گرم تھا، کچھ لوگوں نے بابا جی کی منتیں کیں کہ احرام پہن لیں، مگر بابا جی بار بار کی اس دھینگا مشتی سے اتنے تنگ آچکے تھے کہ انہوں نے نہ صرف صاف انکار کردیا بلکہ کہا کہ میں یہ بے پردہ کپڑے نہیں پہنتا۔ جب ان سے کہا گیا کہ یہ اﷲ کا حکم ہے، اُسے پسند ہے کہ حاجی یہ لباس پہنے، تو انہوں نے کانوں کو ہاتھ لگائے اور بیوی سے کہا ’’مجھے میرے پیسے دے دو، میں سڑک پار سے ویگن لے کر گاؤں جارہا ہوں، میں نے اور کہیں نہیں جانا‘‘۔ صاف ظاہر تھاکہ بابا جی کی ذہنی حالت تسلی بخش نہیں تھی، مگر باقی حاجی کبھی بابا جی کو کوستے اور کبھی ان کی بیگم کو، جو کچھ دیر بھی چابی کی حفاظت نہیں کرسکیں۔ ایک صاحب نے کہا: ’’ان پر دم لگے گا۔‘‘
دوسرا بولا ’’کون پاگل ہے جو ان کو یہاں لے آیا ہے، جس کو رب کا نہیں پتا وہ کیا حج کرے گا!‘‘
تیسرا بولا ’’بیٹے کو نہیں پتا تھا کہ باپ کی کیا حالت ہے! خوامخواہ گناہ گار بنا رہا ہے ان کو بھی اور خود کو بھی…‘‘ کچھ اور لوگوں نے بھی بیٹے کو بے نقط سنائیں، ایک حاجی صاحب اپنی ہی لَے میں بولے ’’میں تو سوچتا ہوں کیا ہے وہ بیٹا جو جانتا بھی ہے کہ اس کے ماں باپ بوڑھے ہیں، ارزل العمر میں ہیں، بہت سمجھدار بھی نہیں ہیں، پھر بھی وہ انہیں حج کی سعادت دینا چاہتا ہے، وہ انہیں یہاں کی پُرنور فضائیں دکھانا چاہتا ہے، ان کی آخرت بنانا چاہتا ہے، کیا سعادت مند ہے وہ بیٹا، اور کیا خوش نصیب ہے یہ بابا۔‘‘
اتنی دیر میں ذرا ہلچل ہوئی، پتا چلا کہ ساجد صاحب پہنچ گئے ہیں۔ کئی لوگوں نے ساجد کی طرف رخ کیا۔ وہ بڑے اطمینان سے بولا ’’میں نے دارالافتاء سے پتا کرلیا ہے، ان پر دَم لگے گا، بس ایک جانور قربان کردوں گا اور انہیں دوبارہ میقات لے جاؤں گا، ٹیکسی لے کر آیا ہوں، فکر کی کوئی بات نہیں۔‘‘
اب سب سوچ رہے تھے کہ بیٹا باپ سے کیا کہے گا؟ ساجد مجمع چیر کر آگے بڑھا اور باپ کو گلے لگا لیا۔ ماں نے بھی آگے بڑھ کر اس کی بلائیں لیں۔ ساجد نے بڑے پیار سے بابا جی سے کہا ’’تساں احرام وی لوائی چھوڑیا اے، ہن تساں کی میقات کھڑساں، فیر اﷲ سوہنے نے گھار جاسا۔‘‘ (آپ نے احرام بھی اتار دیاہے، اب آپ کو میقات لے کر جاؤں گا، پھر سوہنے اﷲ کے گھر جائیں گے۔)
باباجی اس طرح سر ہلا رہے تھے جیسے طفل ِ مکتب ہوں ’’ہوں، ماڑا بچہ آئی گیا اے، ماڑا شیر دل بچہ، بچہ جس طرح کیسو اسے طرح کرساں۔‘‘ (ہوں، میرا بیٹا آ گیا ہے، میرا شیر دل بیٹا، بیٹا جیسے کہو گے ویسے ہی کروں گا۔)
کچھ لمحے بعد ہی بابا جی اس طرح باتیں کررہے تھے اور ساجد کے قصے سنا رہے تھے کہ کوئی نہ جان سکتا تھا کہ کچھ دیر پہلے تک وہ کیا کررہے تھے۔ ایک حاجی نے آگے بڑھ کر کہا ’’ان کا جنون شاید بیٹے کا فراق ہی تھا۔‘‘

حصہ