فرح ناز
گرمی کی شدت، انتظار کی کوفت، ٹریفک کا شور اور ساتھ ہی آنکھوں سے کھا جانے کی اذیت… عنایہ ہی نہیں، کالج کی سبھی لڑکیوں کو روزانہ اس معمول سے گزرنا پڑتا ہے۔ بس میں چڑھنا اور اترنا گویا جنگ کے مترادف ہوتا۔ ایسے میں نہ کپڑوں کا ہوش، نہ چادرکا… اترنے کے بعد چند سیکنڈ سانسیں بحال کرنے اور چند لمحے کپڑوں کو ان کی درست جگہ لانے میں لگ جاتے۔
عنایہ گوری رنگت اور خوب صورت نقوش کی وجہ سے ہر محفل میں نمایاں ہوجاتی تھی، پھر یہ کیسے ممکن ہے کہ اسٹاپ پہ کھڑی لڑکیوں میں عنایہ کو کوئی نظرانداز کر جائے! یہی وجہ ہے کہ اسے روز کسی مشکل کا سامنا کرنا پڑتا۔ کبھی کوئی گانا، تو کبھی کوئی جملہ۔ اور تو اور کچھ لوگ تو گھر تک پہنچانے کی ڈیوٹی بلامعاوضہ ادا کرتے۔ اُس وقت تو عنایہ کو بہت غصہ آتا، لیکن دوسرے دن وہ بڑے فخریہ انداز میں اپنے گروپ کے جھرمٹ میں بیٹھ کر یہ سب سنا رہی ہوتی اور وہ اس کے حُسن کی تعریف میں قلابے ملا رہی ہوتیں، اور وہ بڑے غرور سے سب کی طرف ایسے دیکھتی جیسے کہہ رہی ہو ’’ہے کوئی ہم جیسا!‘‘
کہتے ہیں کہ انسان اپنے دوستوں اور صحبت سے پہچانا جاتا ہے۔ عنایہ کے آس پاس رہنے والی سبھی لڑکیاں گو کہ اچھی شکل صورت کی تھیں، لیکن عنایہ ان میں نمایاں تھی۔ ان سب کی ایک بری عادت دوسروں پہ آوازیں کسنا اور خاص طور پہ کسی کی شکل صورت، جسامت یا کسی طرح کی جسمانی کمی کو نشانہ بنانا تھی۔ اس کے کالج میں ایک گروپ بہت نمایاں تھا۔ تحریری و تقریری مقابلے ہوں یا شعر و شاعری کی محفل سجے، وہ لڑکیاں نمایا ں رہتیں اور ان کے یہ سارے کام حجاب و نقاب کے ساتھ ہوتے۔ ٹیچرز کی توجہ اس گروپ کی لڑکیوں پہ رہتی۔ عنایہ کی خودپسند طبیعت پہ یہ گراں گزرتا اور وہ ان کو نیچا دکھانے کے لیے موقع کی تلاش میں رہتی۔
اس گروپ کی ایک لڑکی فاطمہ اس کی کلاس فیلو تھی۔ ایک کلاس کے سوا ساری کلاسز عنایہ کے ساتھ ہوتیں۔ سلام دعا تو روز ہو ہی جاتی۔
’’تمہیں کیا ضرورت ہے نقاب کی، تمہیں کون دیکھتا ہوگا!‘‘ آج کلاسز آف ہونے کے بعد وہ اپنی دوستوں کے انتظار میں درخت کے گرد بنی منڈیر پہ بیٹھی تھی۔ فاطمہ وہاں آپہنچی اور بیگ سے عبایہ نکال کر پہننے لگی۔ فاطمہ کا رنگ قدرے دبا ہوا تھا، ناک نقشہ بھی معمولی تھا۔ عنایہ کو تو موقع چاہیے تھا بے عزتی کرنے کا۔
عنایہ کی بات سن کر فاطمہ کی آنکھوں میں ایک چمک عود کر آئی اور ہونٹوں پہ مسکراہٹ پھیل گئی۔
’’کیوں کہ میں بہت قیمتی ہوں‘‘۔ فاطمہ نے کالے دستانے ہاتھوں پہ چڑھاتے ہوئے کہا، اور اپنی نقاب درست کی، بیگ اپنے کندھے پہ ڈال کر وہ گویا تیار تھی راستے کے شیطانوں سے نپٹنے کے لیے۔
’’اللہ حافظ‘‘۔ فاطمہ نے گیٹ کی طرف بڑھتے ہوئے کہا۔
عنایہ نے سر جھٹک کر معمول کے مطابق چھوٹا سا آئینہ بیگ سے نکالا اور اپنا جائزہ لینے لگی۔ لائٹ پنک لپ اسٹک لگاتے ہوئے جانے کیوں اسے فاطمہ کا چھوٹا سا جملہ یاد آگیا ’’کیوں کہ میں بہت قیمتی ہوں‘‘۔ ایک طنزیہ مسکراہٹ اس کے لبوں پہ آگئی۔
گھر آکر بھی وہ کچھ بجھی بجھی تھی۔ اماں، بابا کی جان، ہر وقت چہکنے والی عنایہ کے چہرے پہ سوچوں کا جال پھیلا ہوا تھا، ایک الجھن اس کے چہرے سے عیاں تھی۔ اماں نے بہت کریدا لیکن بتانے جیسا کچھ تھا ہی نہیں۔
اگلے دن کالج آتے ہی اس کی آنکھیں فاطمہ کو کھوج رہی تھیں، اس سے پوچھنا تھا کہ وہ قیمتی کیسے ہے؟ میں اس سے زیادہ خوب صورت اور حسین ہوں تو میں زیادہ قیمتی ہوئی ناں۔ فاطمہ کے آتے ہی عنایہ اس کے پاس پہنچ گئی۔ فاطمہ اسے دیکھ کر تھوڑا حیران ہوئی۔ سلام دعا کے بعد عنایہ اس کے پاس ہی بیٹھ گئی۔ فاطمہ نے عبایہ اتارکر بیگ میں رکھا اور ایک بڑا سا ململ کا دوپٹہ سر پہ اس طرح اوڑھا کہ اس کا سارا جسم بھی چھپ گیا۔ گرلز کالج ہونے کے باوجود کبھی کبھی اسٹاف کے کسی مرد سے سامنا ہوسکتا تھا، اس لیے دوپٹے سے پردہ کیا جاسکتا تھا۔
فاطمہ نے سوالیہ نظروں سے عنایہ کو دیکھا۔
’’تم پردہ کیوں کرتی ہو؟‘‘ عنایہ جلد ہی مطلب پہ آگئی۔
’’تم موبائل پہ کور کیوں چڑھاتی ہو؟‘‘ فاطمہ نے میٹھی سی مسکراہٹ کے ساتھ اُس کی مرمریں انگلیوں میں دبے پنک کلر کے موبائل کی طرف اشارہ کرتے ہوئے پوچھا۔
’’حفاظت کے لیے، بہت قیمتی ہے‘‘۔ عنایہ نے کندھے اچکاتے ہوئے کہا۔
’’اور ہم؟ ہم بھی تو بہت قیمتی ہیں، سچے موتی کی طرح۔ اس کی قیمت اسی لیے زیادہ ہوتی ہے کہ اللہ نے اس کو سیپ میں محفوظ کیا، ہر طرح کی آلودگی اور کسی بھی قسم کے نشان سے پاک… اور عورت کو اسی لیے پردے کا حکم دیا۔ ہم کیوں ہر کسی کو اجازت دیں کہ وہ ہمیں دیکھے اور تبصرے کرے!‘‘ فاطمہ نے سوال کیا اور خود ہی جواب بھی دے دیا۔
’’لیکن لوگ تو پردہ دار خواتین کو بھی چھیڑتے ہیں، لوگ تو تمھیں بھی دیکھتے ہیں؟‘‘ عنایہ بحث کے موڈ میں تھی۔
’’یہ ان کا فعل ہے۔ موبائل کور کے باوجود گرتا ضرور ہے مگر کور اس کی حفاظت کرتا ہے اور وہ ٹوٹنے سے بچ جاتا ہے، اسی طرح جب آپ اپنے آپ کو کور کرلیتے ہیں تو آپ کو کوئی غرض نہیں ہوتی کہ کون کون آپ کو دیکھ رہا ہے۔ معمولی کپڑے کا حجاب عبایہ حرص و ہوس کے بھاری حملوں کو پسپا کردیتا ہے، اور ایسا بھی ہوتا ہے کہ لوگ آپ کا احترام کرنے لگتے ہیں، آپ کی عزت کرنے لگتے ہیں، آپ کو راستہ دینے لگتے ہیں… اور پھر میرے پروردگار کا حکم بھی تو ہے اور ہمارے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’عورت پردے میں رہنے کی چیز ہے، کیوں کہ جب وہ باہر نکلتی ہے تو شیطان اسے بہکانے کے موقع تلاش کرتا ہے۔‘‘
فاطمہ کے سمجھانے کا انداز اتنا متاثر کن تھا کہ عنایہ بس سنتی گئی۔ آج اسے معلوم ہوا کہ فاطمہ کے چہرے پہ سکون اور پاکیزگی کیوں ہے؟
’’کیا ہوا؟‘‘ فاطمہ کو احساس ہوا کہ عنایہ بڑی محویت سے اسے دیکھے جارہی ہے۔
’’سوری، لیکچر کچھ لمبا ہوگیا شاید‘‘۔ فاطمہ نے شرمندگی سے کہا۔
’’تم چاہو تو میرے ساتھ قرآن کی کلاس لے سکتی ہو، اتفاق سے سورہ نساء ہی پڑھائی جارہی ہے، وہاں تمہیں سارے سوالوں کے جواب ملیں گے۔‘‘
اور کچھ ہی دنوں کے بعد فاطمہ کے گروپ میں ایک پیاری سی لڑکی کا اضافہ ہوگیا جس کا نام عنایہ اکرام تھا۔ سچے موتی کی طرح چمکنے والی عنایہ، جسے اپنے قیمتی ہونے کا احساس ہوگیا تھا۔