گھر

297

نسیم جہاں
تیسری منزل تک چڑھ کے جب فرحانہ نے چابی سے دروازہ کھولا اور اندر داخل ہوئی تو عجیب سناٹا محسوس ہوا۔ ’’یااللہ خیر!‘‘ اس کے دل نے کہا۔ اتنے میں اس کی آٹھ سالہ بیٹی فائزہ کمرے سے نکل کر بسورتی شکل لیے آکر اس سے لپٹ گئی اور شکوے کے انداز میں بولی ’’امی آپ اتنی دیر کیوں کردیتی ہیں؟ پاپا کو بہت تیز بخار ہوگیا ہے اور آج کچھ نہیں پکا ہے، ہم سب بھوکے ہیں۔ ننھی ماریہ بہت رو رہی تھی، میں نے اسے کپ میں دودھ ڈال کر دے دیا، بس ابھی سوئی ہے‘‘۔ فائزہ نے روداد سنائی۔
فرحانہ اس کو اپنے سے چپکائے کمرے میں آئی اور شوہر کے ماتھے پر ہاتھ رکھ کر بخار دیکھا۔ وہ شدید تپ رہا تھا۔ نعیم نے کچھ کہے بغیر آنکھ کھول کر اسے دیکھا اور ان نگاہوں نے پتا نہیں کیا کیا کہہ دیا۔ فرحانہ باورچی خانے میں گئی، ٹوکری میں دیکھا، چار آلو پڑے تھے۔ اس نے جلدی جلدی آلو کی بھجیا بنائی اور آٹا گوندھ کر روٹی ڈالنے کھڑی ہوگئی۔ اس کے ہاتھ مشینی انداز میں کام کررہے تھے، ساتھ ہی ذہن ماضی کے لمحات دہرانے میں لگ گیا۔ فرحانہ نے محسوس کیا اس کا پانچ سالہ بیٹا نوید اس سے کترا رہا ہے، نہ قریب آیا نہ بات کی، بس دور سے سلام۔ وہ خود بھی اتنی مصروف تھی کہ اسے قریب نہ کرسکی۔ فرحانہ سوچ رہی تھی اب سے تقریباً تین سال قبل اس کا گھرانہ خوشیوں کے آسمانوں میں پرواز کررہا تھا، اب کسی دشمن کی نظر نے اسے زمین پر پٹخ دیا ہے۔ وہ ہنسی، وہ قہقہے کہاں کھو گئے، ہر چیز اپنی جگہ پر رکھی نظر آرہی ہے لیکن اس کا چمکتا، سجا سجایا گھر کیسے ویران نظر آرہا ہے اور سناٹے نے ڈیرے ڈال لیے ہیں۔ اس وقت وہ صرف چار تھے، اب دو سالہ ماریہ کا بھی اضافہ ہوچکا ہے۔ نعیم کی بہت اچھی جاب تھی کہ اچانک کالے بادل چھاگئے۔ ایک دن نعیم بڑا دل گرفتہ سا واپس آیا اور بتایا کہ اسے جاب سے فارغ کردیا گیا ہے۔ فرحانہ نے تشویش سے پوچھا ’’کیوں…کیا ہوگیا؟‘‘
’’بس چھانٹی ہورہی ہے…مردوں کو ہٹا کر اب لڑکیاں بھرتی کی جائیں گی۔ نئی پالیسی تیار ہوئی ہے۔‘‘
’’پھر مرد کیا کریں؟ یا جو ان کے نصیب میں ہو وہ کریں؟‘‘ فرحانہ نے سوچا ’’شکر ہے گھر اپنا ہے، ورنہ کرائے کے گھروں میں رہنا بھی آفت بن جاتا ہے۔‘‘
نعیم نے جاب بہت تلاش کی مگر نہ مل سکی۔ انہی دنوں فرحانہ کی ایک پرانی دوست کا فون آیا۔ کالج اور یونیورسٹی کے واقعات دہرا کر دونوں خوب ہنسیں، خوب پرانی یادیں تازہ کیں، پھر اس کی دوست عیشہ نے اس سے پوچھا ’’کیا کررہی ہو آج کل؟‘‘
’’میرے دو پیارے پیارے بچے ہیں فائزہ اور نوید، انہیں پال رہی ہوں۔‘‘ فرحانہ نے بڑے محبت بھرے لہجے میں بتایا۔
’’ارے یار! اتنا پڑھ لکھ کر سب گنوا دیا! بچے تو پل ہی جائیں گے، اور شوہر کیا کرتے ہیں؟‘‘
فرحانہ نے اِدھر اُدھر کرکے بات ٹال دی، کوئی جواب نہ دیا۔ لیکن لوگ بغیر دیکھے صرف آواز کے اتار چڑھاؤ سے سن گن تو لے ہی لیتے ہیں۔ عیشہ نے بھی بات کا رُخ بدل دیا، بولی ’’اپنا ایڈریس دو، میں تم سے ملنا چاہتی ہوں‘‘۔ فرحانہ نے اسے پتا لکھوادیا۔
عیشہ اگلے روز ہاتھ میں مختلف پھلوں اور کھانے پینے کی دیگر اشیا لیے اس کے گھر آگئی۔
’’یہ سب کیا ہے؟‘‘
عیشہ نے جواب دیا ’’محبت کا تحفہ ہے‘‘ اور فرحانہ سے لپٹ گئی۔ دونوں خاصی دیر تک باتیں کرتی رہیں، اور یہ بات بھی کھل گئی کہ نعیم بے روزگار ہوگیا ہے۔ جاتے وقت عیشہ نے بیگ کھول کر گاڑی کی چابی نکالی تو فرحانہ نے مرعوبیت سے پوچھا ’’کیسے آئی ہو؟‘‘
’’اپنی گاڑی سے… آؤ دکھاؤں‘‘۔ عیشہ نے جواب دیا۔
فرحانہ نے گیلری سے چمک دار کار دیکھی جو عیشہ خود ڈرائیو کرکے لائی تھی۔ عیشہ چلی گئی۔ کچھ خوشی کچھ غم فرحانہ کے دل میں بھر گیا۔ نعیم آج بھی منہ لٹکائے واپس آگیا۔ آج اسے پوری امید تھی کہ جاب مل جائے گی لیکن یہ کیسی ہوا چل پڑی ہے کہ کام کے لیے مرد نہیں بلکہ عورت چاہیے۔
عیشہ کے جانے کے دو دن بعد ہی اس کا فون آیا کہ ’’فرحانہ تم جاب کرلو، تنخواہ سولہ ہزار ہے۔‘‘
’’سولہ ہزار…!‘‘ فرحانہ نے ایک ایک لفظ جما جما کر دہرایا۔
’’ہاں، پک اینڈ ڈراپ کا بھی میں کرا دوں گی‘‘۔ عیشہ بولی۔
فرحانہ کا دل چاہا فوراً ہامی بھر لے، لیکن اس نے کہا ’’نعیم سے بات کرکے جواب دوں گی۔‘‘
عیشہ نے کہا ’’ٹھیک ہے۔‘‘
اور یوں فرحانہ کی زندگی کا وہ موڑ آگیا جہاں سے اس کا گھر کے اندر رہ کر کام، بچے، آرام، آزادی سب ختم ہوا، بلکہ اکثر باہر کام کرکے گھر میں بھی ڈیوٹی انجام دینی پڑتی جیسے آج ہوا… پھر بھی دلوں میں پڑی ہوئی دراڑ کو وہ مٹا نہ سکی۔ شروع شروع میں وقت کی پابندی رہتی ہے لیکن غیر محسوس طریقے سے کام کے اوقات بڑھتے ہی چلے گئے، اور اب تقریباً نو بجے چھٹی کرکے تھکن سے چور وہ گھر واپس آتی۔ نہ بچوں کے ساتھ ہنسنا بولنا، نہ نعیم کی دل جوئی۔ کبھی اپنے بچوں کا رویہ خوف زدہ کردیتا، کبھی نعیم کی بدگمان نگاہیں احساسِ جرم میں مبتلا کرتیں۔

حصہ