اور میں پھنس گیا

675

ظہیر خان
عنوان سے تو ایسا لگ رہا ہے جیسے کسی سیاسی پارٹی کے رہنما نے وزارت کا لالچ دے کر مجھے اپنے جال میں پھانس لیا ہو یا پھر کسی خوبرو حسینہ نے اپنی دل فریب ادائوں کے حصار میں مجھ جیسے سیدھے سادے انسان کو گرفتار کرلیا ہو… مگر ایسا کچھ نہیں ہے… ایسی اپنی قسمت کہاں… دراصل یہ ایک حادثہ تھا جسے ہم خوفناک تو نہیں مگر تھوڑی دیر کے لیے دردناک ضرور کہہ سکتے ہیں… اب پتا نہیں یہ حادثہ تھا یا سانحہ یا شاید پھر درمیان کی کوئی چیز رہی ہو‘ بہرحال جو کچھ بھی تھا وہ میرے لیے اذیت کے لمحات تھے۔ نہ جانے وہ کو ن سی بری ساعت تھی یا پھر کسی رقیبِ روسیاہ کی بددعا تھی جو رنگ لائی اور میں آدھا گھنٹے تک ایک ناگہانی مصیبت میں گرفتار رہا۔
پچھلے دنوں میرے اپنے ہی ادارے میں‘ جہاں میں برسرِکار ہوں‘ یہ واقعہ پیش آیا جس کے لیے میں ابھی تک فیصلہ نہیں کرسکا کہ یہ حادثہ تھا یا سانحہ؟ اب آپ میری یہ دردناک روداد سنیں اور خود ہی فیصلہ کرلیں۔
میرا آفس بلڈنگ کی آٹھویں منزل پر واقع ہے۔ آنے جانے کے لیے لفٹ بھی دستیاب ہے۔ شام پانچ بجے چھٹی ہوجاتی ہے اور سارا آفس خالی ہو جاتا ہے۔ گرائونڈ فلور پر رات کی شفٹ کے کچھ مزدور اور چوکیدار ہوتے ہیں۔ میں مصروف تھا لہٰذا عصر کی نماز سے فارغ ہوکر بڑے اطمینان سے گنگناتا ہوا چھ بجے اپنے آفس سے نکلا (یہ گنگنانا کس بات کا پیش خیمہ تھا یہ بعد میں معلوم ہوا) لفٹ کی خدمات حاصل کیں اور لفٹ میں داخل ہوکر گرائونڈ فلور کا بٹن دبا دیا۔ لفٹ اپنی تمام منزلیں طے کرتی ہوئی پہلی منزل ساتھ خیریت کے عبور کرچکی تھی۔ ابھی گرائونڈ فلور پہنچنے میں کچھ لمحات باقی تھے کہ اچانک لفٹ ایک جھٹکے کے ساتھ رک گئی… اﷲخیر کرے… اب کیا ہوگا؟ سب تو جاچکے ہیں، کمپنی کا بجلی والا بھی اس وقت نہیں ہوگا۔ اللہ رحم فرمائے… ذہن میں طرح طرح کے برے خیالات آنے لگے… تو کیا آج کی رات اس لفٹ میں… نہیں نہیں اﷲ نہ کرے ایسا ہو۔ جلدی جلدی دعائیں جو یاد تھیں سب پڑھ ڈالیں، باہر والوں سے کوئی رابطہ بھی نہیں ہوسکتا تھا۔ محرم کی آٹھویں تاریخ تھی، صبح سے موبائل سروس بند تھی۔ اللہ میاں اب کیا ہوگا…؟ کسے آواز دوں… کیا کروں…؟ کوئی ترکیب ذہن میں نہیں آرہی تھی۔ آج ہی محرم کی آٹھویں تاریخ بھی ہونی تھی… آج ہی موبائل سروس بھی بند ہونی تھی اور آج ہی یہ مصیبت کی گھڑی بھی آنی تھی۔ آج سے ایک ہفتہ قبل کینٹین میں کھانے کے دوران یہی ناہنجار موضوعِ گفتگو تھی۔ ایک صاحب نے اپنا خیال ظاہر کیا‘ جس میں طنز کا پہلو زیادہ اور خیال کا پہلو کم تھا‘ کہنے لگے ’’لفٹ کیا ہے کھٹارا ہے ایسے جھٹکے لے کر چلتی ہے جیسے گدھا گاڑی۔‘‘ ایک مولانا ٹائپ کے بزرگ نما بڑے صاحب فرمانے لگے ’’بھئی میں نے تو استخارہ کیا مگر مجھے کوئی خوش کن جواب نہ مل سکا لہٰذا میں تو سیڑھیوں سے چڑھ کر آتا ہوں۔‘‘ میرے دل میں خیال آیا کہ کاش میں نے بھی استخارہ کرلیا ہوتا تو شاید آج……
بہت عرصے قبل کسی مولوی صاحب کی کتاب ’’قبر کے حالات‘‘ پڑھی تھی… بس نہ پوچھیے کتاب کیا یاد آئی سارا جسم پسینہ سے شرابور ہو گیا۔ مولوی صاحب شدت سے یاد آنے لگے… یا اللہ مولوی صاحب بہت نیک اور اچھے انسان تھے‘ انہوں نے مسلمانوں کی اصلاح کے لیے کتنی اچھی کتاب لکھ ڈالی ان کے صدقہ ہی میں کوئی وسیلہ پیدا کردے اور مجھے اس قید سے رہائی دلادے۔ اپنے سارے گناہ ذہن کے اسکرین پر دھڑا دھڑ آنے لگے۔ کہتے ہیں انسان جب کسی پریشانی کے عالم میں ہوتا ہے تو اسے اﷲ میاں بہت یاد آتے ہیں اور وہ دل سے دعا کرتا ہے بقول علامہ اقبال ’’دل سے جو بات نکلتی ہے اثر رکھتی ہے‘‘ اسی کیفیت میں تھا کہ اچانک ایک آواز نے مجھے چونکا دیا ’’اندر کون ہے‘‘ یہ آواز تھی اس چوکیدار کی‘ جو اس وقت میرے لیے مسیحا ثابت ہوا اور مسیحا کا صحیح مفہوم بھی آج سمجھ میں آگیا تھا ’’میں ہوں تنویر‘‘ میں نے چیخ کرکہا ’’آپ صاحب اندر پریشان نہ ہوں میں کچھ کرتاہوں‘‘ اور اس کے بعد اس کی کوئی آواز نہ آئی۔ کچھ دیر (کوئی پانچ منٹ) بعد کچھ آوازیں آنی شروع ہوئیں شاید لفٹ کے دروازے کے درمیان کا شیشہ کھولا جارہا تھا۔ شیشہ کھل گیا۔ جان میں جان آئی… شکر ہے کچھ صورتیں تو نظر آئیں۔ ایک مزدور نے مجھے پیچ کس دیا یہ کہتے ہوئے کہ ’’سر برابر میں ایک کھٹکا ہے اسے اس پیچ کس سے زور سے دبائیے دروازہ کھل جائے گا‘‘ پیچ کس تو ہاتھ میں لے لیا مگر وہ کھٹکا کہاں ہے…؟ گھبراہٹ اس قدر کہ کھٹکا نظرہی نہیں آرہا… بہرحال یہاں ہاتھ مارا وہاں ہاتھ مارا خدا خدا کرکے کھٹکا مل گیا… پوری طاقت سے اسے دبایا حالانکہ ہلکے سے بھی دبانے پر مسئلہ حل ہوجاتا۔ اللہ کا شکر اداکیا کہ لفٹ کا دروازہ کھل گیا۔ اب صورتِ حال یہ تھی کہ میں گرائونڈ فلور سے تقریباً چار فٹ اوپر تھا اور ہمارے سامنے فقط دو فٹ کی جگہ تھی جس کے ذریعہ ہم لیٹ کر باہر آسکتے تھے۔ ایک مزدور نے کہا ’’سر پہلے آپ اپنا پیر باہر نکالیں اور میری پیٹھ پر ٹکا لیں‘‘میں نے کہا ’’صرف تم ہاتھوں کا سہارا دو میں چھلانگ لگاتا ہوں‘‘ اور میں نے کسی طرح چھلانگ لگادی اور لفٹ سے باہر آگیا ’’کفر ٹوٹا خدا خدا کرکے‘‘یا یہ کہہ لوں ’’گیٹ کھل گیا خدا خدا کرکے۔‘‘
ابھی میں ہال ہی میں تھا کہ ایک نوجوان تیزی سے یہ کہتے ہوئے آیا کہ ’’سنا ہے کوئی لفٹ میں پھنس گیا ہے‘‘ اور میں نے بڑی انکساری سے جواب دیا ’’بھیا! میں پھنس گیا تھا۔‘‘

غزلیں

عدنان افضال

اتنی تیزی سے عمر ڈھل رہی ہے
لگ رہا ہے کہ فلم چل رہی ہے
آ بھی جا مرگِ ناگہانی اب
زندگی کچھ دنوں سے کَھل رہی ہے
تب تلک تجھ کو چاہتا رہوں گا
جب تلک میری سانس چل رہی ہے
سو گیا تھک کے وصل کا شوقین
اور ہوس کروٹیں بدل رہی ہے
دشمنی کی کہاں ضرورت اب
دوستی آستیں میں پَل رہی ہے
بحر کیسی بھی ہو زمیں کیسی
اک تُو ہی محورِ غزل رہی ہے

اسد اقبال

سچ کہوں یا جھوٹ بولوں کیا کروں میں
یہ بتاؤ آئنے سے کیا کہوں میں
یار میں جو ہوں میں وہ ہرگز نہیں ہوں
جو نہیں ہوں اصل میں وہ ہی تو ہوں میں
وہ اچانک سامنے آئے کسی روز
اور اپنے آپ سے کْھل کر ملوں میں
عقل نے میرے جنوں کو ٹالنے کی
لاکھ کوشش کی مگر ہوں جوں کا توں میں
دہر مْجھ پر تنگ ہونے لگ پڑا ہے
سوچتا ہوں آسمانوں پر رہوں میں

سعدی

ہیں محوِ حیرتِ دنیا دماغ کتنے ہی
ملا نہ تُو ملے تیرے سراغ کتنے ہی
یہ سال کیسی ہواؤں کو ساتھ لایا ہے
بجھا دیے ہیں پرانے چراغ کتنے ہی
یہ کیا کہ روز نیا زخم مل رہا ہے ہمیں
ابھی تو مٹنے نہ پائے تھے داغ کتنے ہی
یہ ان کے لہجے کی تاثیر تھی کہ باتوں کی
دکھا دیے ہیں ہمیں سبز باغ کتنے ہی
ہے اب بھی دل مرا آمادہِ محبت کیوں
ملے ہیں گرچہ محبت میں داغ کتنے ہی
یہی وہ غم تھا جو اقبال کو ستاتا رہا
ملا نہیں انہیں شاہیں تھے زاغ کتنے ہی
بنا پلائے ہی رخصت کیا ہمیں سعدی
وہ بھر رہا تھا اگرچہ ایاغ کتنے ہی

سحرتاب رومانی

میر کی ہو کہ غزل فیضی کی
داستانیں ہیں دل آویزی کی
کچھ نہ کرتا تو وہ بہتر ہوتا
میں نے بے کار عرق ریزی کی
زندگی بھر رہی محفل محفل
گفتگو میری کم آمیزی کی
شہر سارا مرا بنجر کر کے
بات کرتا ہے وہ زر خیزی کی
خیر کا درس ہمیں دینا تھا
سو مسلسل ہی شر انگیزی کی
اُس کے رستے میں لگائے اشجار
اور پھر دھوپ سے کم تیزی کی
رات کٹتی ہی نہیں تھی، اس نے
آ کے آنکھوں سے سحر بیزی کی

عزیر جیلانی

خود میں رہتے ہوئے بھی خود سے سوا ہوتا ہے
کوئی جب کچھ نہیں ہوتا تو خدا ہوتا ہے!!
آج تو مصرعِ ثانی بھی بہت ہے ورنہ
وحشِ یکتائی کے ہوتے ہوئے کیا ہوتا ہے!
اب تو بیٹھے ہوئے بس دھیان میں کھو جاتا ہوں!
سوچنے بیٹھوں تو ہر سمت خلا ہوتا ہے!!
عشق میں صرف خسارا ہی خسارا ہے میاں!
کون کہتا ہے یہ! کہہ دینے سے کیا ہوتا ہے!
فکر ایسی دے کہ ہر لفظ سے گھل مل جائے
شعر وہ دیجو الٰہی! جو بڑا ہوتا ہے!!

زاہد عباس

وہ جانتا ہے کہ اچھا ہے حال لوگوں کا
تبھی تو پوچھتا ہے حال چال لوگوں کا
سنو جو آج گھروں میں دبک کے بیٹھے ہیں
یہی تو کرتے رہے ہیں قتال لوگوں کا
وہ تلملاتا رہے گا کرے گا اور وہ کیا
جواب میرا بنا ہے سوال لوگوں کا
امیرِ شہر ذرا سوچ ہو رہا ہے کیوں
ترے ہی شہر میں جینا محال لوگوں کا
وہ تنگ دست بھی ہو کر دراز دست نہیں
یہی کمال ہے ان باکمال لوگوں کا
عجیب طور سے دنیا نے رنگ بدلا ہے
عجیب طور سے گزرا ہے سال لوگوں کا
وہ جس گھڑی سے ہوئے لوگ خواہشوں کے اسیر
اسی گھڑی سے ہوا ہے زوال لوگوں کا
میں اب کے بار بھی ہجرت نہ کر سکا زاہدؔ
ہمیشہ ہی رہا مجھ کو خیال لوگوں کا

حصہ