اسامہ فاروق
اگربچے سے کوئی غلطی ہوجائے تواس سلسلے میں اسلام نے بچے کی اصلاح نہایت ہی مشفقانہ انداز میں کرنے کی ترغیب دلائی ہے۔ علاج کا درست طریقہ یہ ہے کہ ہم اسے نرمی اور پیار سے سمجھائیں اور اس کی غلطی پرتنبیہ کریں۔ مضبوط دلائل سے اسے یہ سمجھائیں کہ اس سے جو غلطی سرزدہوئی ہے اسے کوئی بھی اچھا انسان پسند نہیں کرے گا۔ اس طرح بچہ سمجھ جائے تو ٹھیک ورنہ دوسرا طریقہ یہ ہے کہ اسے نرم انداز میں سزا دی جائے۔
نرمی سے سمجھانے کی ایک زبردست مثال حدیث میں بیان ہوئی ہے کہ ’’سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ ایک بدو نے مسجد میں پیشاب کردیا تو لوگ اسے روکنے کے لیے دوڑے مگر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اسے چھوڑ دو اور پیشاب پر پانی کا ایک ڈول بہادو، اس لیے کہ تمہیں آسانی پیدا کرنے کے لیے بھیجا گیا ہے نہ کہ مشکلات پیدا کرنے کے لیے۔
مگر ہمارے ہاں کیا ہوتا ہے کہ اگر بچے سے کوئی غلطی ہوجائے تو بجائے اسے اچھے انداز میں سمجھا نے کے اس پر تھپڑوں اور لعنتوں کی بارش کردی جاتی ہے اور اگر یہی سلسلہ تھوڑے لمبے عرصے تک چلتا رہے تو اس سے بھی بچہ ضدی ہوجاتا ہے اور بڑوں کا کہنا نہیں مانتا اگر ان کا کہا ہوا کام کر بھی لے تو دلی طور پہ کام نہیں کرتا اور آہستہ آہستہ بغاوت پراترتا چلاجاتا ہے۔
عموما یہ بھی ہوتا ہے کہ بچے سے ایک بار غلطی ہوجائے اسے ہمیشہ ہی اس کی غلطی کا طعنہ دیا جاتا ہے اور اسے بار بار اس کی ناکامیوں کا احساس دلاتے ہیں جس کی وجہ سے بچہ بزدل اور ضدی ہوجاتا ہے۔ بچے میں چڑچڑاپن پیدا ہوتا ہے جو کہ نہایت خطرناک ہوسکتا ہے۔ اگر بچے کو طعنے دینے اور اس کا مذاق اڑانے کے بجائے موجودہ حالات کے مطابق مشہور اور کامیاب شخصیات کی محنت، ان کی کامیابی کے لیے کی گئی کوششیں اور ناکام لوگوں کی مثالیں دیں گے تو وہ بڑی آسانی سے بات سمجھے گا۔ آپ کو اپنا دوست مانے گا اور اپنی غلطیوں کو سدھارنے کی کوشش کرے گا۔
ہمارے معاشرے میں بچوں کی نفسیاتی تربیت کا بھی فقدان ہے۔ والدین اور اساتذہ کو چاہئے کہ ان کی تعلیم کے ساتھ ساتھ ان کی تربیت پہ بھی خاص توجہ دیں۔ مثال کے طور پہ بچہ جب عقل مند اور ہوشیار ہوجائے تو اسی وقت سے اسے جرات، بے باکی، صداقت و شجاعت اور بہادری کی تربیت دی جائے، اسے کامل اور مکمل ہونے کے لیے شعور دیا جائے۔ وہ دوسروں کے لیے بھلائی اور خیر کے جذبات رکھے۔ وہ غصہ پر قابو رکھے، مطلب یہ کہ اسے نفسیاتی اور اخلاقی فضائل اور کمالات سے آراستہ ہونے کی تربیت دی جائے مگر ہمارے ہاں بچے کو کسی بھی مسئلہ کے مثبت پہلو اور اس کا حل بتانے کے بجائے اسے ڈرایا جاتا ہے مثلا بچہ جب پہلی مرتبہ سانپ دیکھتا ہے ڈرنا تو انسان کی فطرت ہے وہ یقینا ڈر جائے گا مگر اس کے ذہن میں یہ سوال ضرور اٹھے گا کہ یہ کیا چیز ہے پھر وہ اپنے بڑوں سے یا والدین سے پوچھے گا کہ یہ کیا چیز ہے تو والدین اسے بتاتے ہیں کہ یہ بہت خطرناک چیز ہے یہ انسان کوکاٹ لے تو انسان اس سے مر بھی جاتا ہے۔ ایسی باتیں بتانے سے بچہ خوفزدہ ہوجاتا ہے اور مستقبل میں خطروں سے ڈر نے لگتا ہے۔