ضد

770

ایان احمد
فرہاد اپنے اسکول کا ایک ذہین طالب علم تھا پڑھائی کے ساتھ ساتھ کھیل کود میں بھی حصہ لیتا، اساتذہ اور بزرگوں کا احترام اپنا فرض سمجھتا اسکول ہی نہیں بلکہ اپنے محلے میں بھی ایک اچھا بچہ سمجھا جاتا تھا لیکن اس میں ایک بہت ہی خراب عادت تھی جو اس کی زندگی کا جزو بن چکی تھی اور اس عادت نے اس کی تمام خوبیوں کو مانند کر دیا تھا وہ تھی ضد۔ اگر کسی بات پر اس کی سوئی اٹک جاتی تو وہ ٹس سے مس نہیں ہوتی بچپن سے بے جا لاڈ پیار نے اس عادت کو اتنا پختہ کر دیا تھا کہ اپنے دوستوں کی بات تو ایک طرف وہ بڑوں کی بات بھی نہیں مانتا اور اپنی بات پر ڈٹا رہتا ہے کہ وہ ہی درست کہہ رہا ہے اور اس کا عمل ہی درست ہے دراصل بات یہ تھی کہ بچپن سے ہی اس کی ہر خواہش پوری کی جاتی رہی اگر وہ کوئی فرمائش کرتا تو اسے پورا کرنا ضروری تھا اگر وہ پوری نہ ہوتی تو ضد پر اتر آتا بات صرف فرمائشوں تک ہی نہیں تھی بلکہ اگر کسی کام کا ارادہ کر لیتا تو اس پر ہی قائم رہتا۔ فرہاد کے امی ابو اس کی اس عادت سے بہت پریشان تھے وہ چاہتے تھے کہ وہ اس عادت کو ترک کر دے انہوں نے اس کے لیے ہر ممکن طریقہ اپنایا، اساتذہ نے بھی کوشش کی مگر فرہاد نے اپنی روشن نہ بدلی وقت کے ساتھ ضد ہٹ دھرمی میں تبدیل ہوئی ضد اور ہٹ دھرمی سے جو خرابیاں ممکن ہو سکتی تھیں وہ سب فرہاد کی زندگی کا حصہ بن گئیں۔
فرہاد کا معمول تھا کہ اسکول سے آنے کے بعد وہ ٹیوشن سینٹر جاتا ایک دن نہ جانے کیا ذہن میں آیا کہ فرہاد نے کہا کہ وہ آج سے ٹیوشن نہیں جائے گا۔ امی ابو نے بہت سمجھایا ٹیوشن ترک کرنے کے نقصانات سے آگاہ کیا لیکن وہ ہٹ دھرمی پر اتر ہوا تھا آخر ٹیوشن سینٹر کے بجائے ایک استاد کا بندوبست کیا گیا کچھ دن استاد سے پڑھنے کے بعد فرہاد نے استاد سے پڑھنے سے انکار کر دیا اور کہا کہ وہ بغیر کسی کی مدد کے پڑھ سکتا ہے اسے ٹیوشن کی ضرورت نہیں۔
فرہاد کے امی ابو کی خواہش تھی کہ وہ ٹیوشن سینٹر جائے کیونکہ وہ نویں جماعت کا طالب علم تھا میٹرک میں اچھے نمبروں سے پاس ہونے کی صورت میں کسی اچھے کالج میں داخلہ ممکن تھا فرہاد کی خواہش تھی کہ وہ ڈاکٹر بنے لیکن وہ اپنی بے جا ضد اور ہٹ دھرمی سے مسلسل تعلیمی نقصان کر رہا تھا ایک دن اسکول سے جب واپس آیا تو اسکول بیگ ایک طرف پھنکتے ہوئے بولا امی جان میں کل سے اسکول نہیں جائوں گا آج مجھے اسکول میں ہوم ورک نہ ہونے کے باعث سزا ملی ہے جو کہ میرے لیے باعث شرم ہے امی نے کہا بیٹا آپ ٹیوشن نہیں لیتے۔ پڑھائی میں کسی سے مدد لینے کو تیار نہیں کل رات آپ دیر تک ٹی وی پر کارٹون فلم دیکھتے رہے آپ کو ٹی وی دیکھنے کے بجائے ہوم ورک کرنا چاہیے تھا جو آپ نے نہیں کیا اور بیٹا ویسے بھی سزا توجہ دلانے اور اصلاح کے لیے ہوتی ہے سزا اس وقت دی جاتی ہے جب کوئی سمجھانے کے باوجود نہ سمجھے تاکہ اصلاح ہو سکے اور معمولی سزائیں تو محبت کے ماحول میں دی جاتی ہیں اس کا آپ کو اثر لینا چاہیے کہ آپ اپنی خامی دور کریں بہتر انداز میں ہوم ورک کریں آج سزا ملی ہے تو کل شاباشی بھی مل سکتی ہے۔
فرہاد اپنی ضد چھوڑنے پر کسی صورت میں تیار نہیں تھا ابو نے سمجھایا اور اسکول نہ جانے کے نقصانات بتائے مگر فرہاد کسی صورت میں اسکول جانے کے لیے راضی نہیں ہوا جب سختی کی گی تو وہ اسکول کے وقت گھر سے نکلتا اور اسکول کے اوقات میں کھیل کے میدان میں اپنا وقت گزارتا۔ اسکول سے باہر وقت گزارنے کے باعث وہ غلط قسم کے بچوں میں شامل ہو گیا جو پڑھنے کے بجائے کھیلنے میں مصروف رہتے اس طرح وہ اپنی ضدی طبیعت کے باعث تعلیم سے دور ہوتا چلا گیا جب اصلاح کی تمام صورتیں ناکام ہو گئیں تو اسے اس کے حال پر چھوڑ دیا گیا وہ اسکول چھوڑ چکا تھا کھیل کود، سیر تفریح اس کا مقصد بن گیا وقت تیزی سے گزرتا رہا۔ ایسے ہی ایک دن جب وہ ایک میچ میں حصہ لینے دوسرے محلے میں گیا تو اس کی ملاقات اپنے اسکول کے ساتھی ارشد علی سے ہو گئی جو کہ چار سال قبل اس کا ہم جماعت تھا۔ دونوں ملے ایک دوسرے کی خیریت دریافت کی فرہاد نے ارشد سے پوچھا کیا کر رہے ہو تو اس نے بتایا کہ میں میڈیکل کے دوسرے سال میں ہوں یہ بتائو پڑھائی چھوڑ کر تم کیا کر رہے ہو اس سوال پر فرہاد نے شرمندگی محسوس کی اور کوئی جواب نہ دیا ارشد نے کہا بھائی وقت کی قدر کرو فضول کھیل کود میں اپنا وقت صائع نہ کرو کیوں کہ گزرا وقت دوبارہ نہیں آتا۔
فرہاد میچ میں حصہ لیے بغیر گھر آگیا آج وہ اپنے آگے شرمندہ تھا وہ سوچ رہا تھا کہ اگر وہ اسکول میں اس دن کی معمولی سزا سے اپنی اصلاح کر لیتا تو آج ارشد کےسامنے جو شرمندگی ہوئی وہ نہ ہوتی اور آج میں بھی میڈیل کا طالب علم ہوتا فرہاد نے عزم کیا کہ وہ وقت کو ضائع نہیں کرئے گا زندگی بھر معاشرے میں شرمندگی کی زندگی گزارنے کے بجائے تعلیم حاصل کرے گا ڈاکٹر بن کر اپنی اور والدین کی خواہش کرئے گا۔

بے چاری گڑیا

یہ ھے میرے بچپن کی کہانی
سہلی تھی میری پیاری رانی
ایک دن اس کو میں نے گھر اپنے بلایا

گڑیوں کامل کر پھرکھیل سجایا
میری اک گڑیا اس کو بھائی
اس پر ہوئی پھر خوب لڑائی
گڑیا کی ہوئی پھر کھینچا تانی
پر رانی کی میں نے بات نہ مانی
اب وہ گڑیا آ دھی پونی تھی
نہ ہی اب میری اور نہ ہی اس کی تھی
آ تی ھے جب یہ یاد پرانی
ہنستے ھیں پھر میں اور رانی

حصہ