مریم شہزاد
پتا نہیں صائم کو کیا ہوگیا تھا ہر وقت اپنا سر ادھر ادھر مارتا رہتا، کبھی غصہ آتا تو زمین پر کبھی دیوار پر اور تو اور کبھی بھائی بہن کو سر سے ٹکر مارتا تو کبھی چاچو پھپو کو اور کبھی توچلتے پھرتے امی کو بھی۔
سب اس کی اس عادت سے بہت پریشان تھے۔
اور امی کو تو اس بات کی بھی پریشانی تھی کہ اس کے خود کتنے زور کی چوٹ لگتی ۔
ایک دن تو صائم نے حد کردی اسکول سے واپس آتے وقت ایک آدمی اس کے آگے آگے چل رہا تھا اور اس کو راستہ نہیں دے رہا تھا تو اس نے غصے میں اس کو بھی ٹکر ماردی ۔
اس آدمی کو بہت غصہ آیا اس نے یہ بھی نہیں سوچا کہ یہ چھوٹا بچہ ہے بہت زور سے اس کو ڈانٹا اور کہا کہ تم کیا بکرے ہو، اب اگر تم کسی کو ٹکر مارو گے تو تمہارے سینگ نکل آئیگے اور تم بکرے بن گے ۔
یہ سن کر صائم بہت ڈرا اور بھاگ کر گھر آگیا اور کھانا کھا کر سوگیا ۔
شام کو اس کی چھوٹے بھائی سے لڑائی ہوگئی اس نے اپنا سر زور سے اس کے پیٹ پر دے مارا بھائی کو تو تکلیف ہوئی مگر آج اس کے اپنے سر میں بھی درد ہوگیا اور وہ اپنا سر پکڑ کر بیٹھ گیا، رات تک اس کے سر میں درد بہت بڑھ گیا امی نے اس کو درد کی دوائی دی اور دوا پی وہ سو گیا ،صبح اٹھ کر اسکول جانے کے لئے وہ بال بنانے لگا تو کنگا کسی چیز سے بار بار ٹکرانے لگا صائم نے سر پر ہاتھ پھیرا تو اس کو کچھ کچھ عجیب سا لگا اس نے کچھ بال ہٹا کر دیکھا تو دو چھوٹے چھوٹے سینگ نکلے ہوئے تھے اس نے گھبرا کر بال واپس ڈھک دیے اور اسکول چلا گیا دوسرے پیریڈ کے بعد ہی سے بچے اس کو دیکھ ہنسنے لگے اور کچھ ڈرنے لگے چھٹی تک وہ پریشان ہوگیا چھٹی ہوتے ہی وہ جلدی جلدی گھر پہنچا امی نے دروازہ کھولا ۔
”یہ کیا لگایا ہے سر پر، ہٹاؤ اس کو، اتنے بُرے لگ رہے ہو ” امی نے کہا ۔
میں نے تو کچھ نہیں لگایا ،وہ رو دینے کو تھا ۔
”اچھا تو پھر یہ کیا ہے؟ امی نے اس کے سر پر ہاتھ لگایا ”یہ سینگ کیسے ہیں ” ۔
سینگ، صائم چلایا ۔
وہ بھاگ کر آئینے کے سامنے گیا اس کے سر پر دو برے بڑے سینگ تھے بالکل بکروں کی طرح سب بھائی بہن اس کو دیکھ کر ہنسنے لگے ۔
صائم زور زور سے رونے اور چیخنے لگا ”امی یہ سینگ ہٹائیں، اب ٹکر نہیں ماروں گا ،امی پلیز یہ ہٹایں ” اور زور زور سے سینگ کھیچنے لگا ہوئی۔
امی گھبرا کر آئیں اور پوچھا۔
” کیا ہوا صائم بیٹا، آنکھیں کھولو، اٹھ جاؤ ” ۔
”امی یہ ہٹائیں، ” اس نے سینگ کھینچتے ہوئے کہا۔
” کیا ہٹاؤں، اور یہ بال کیوں کھینچ رہے ہو ”؟
امی نے کہا ۔
” بال نہیں سینگ ” ۔
کونسے سینگ؟
اب کسی کو ٹکر نہیں ماروں گا، بس یہ سینگ ہٹا دیں ” صائم بولا ۔
”بیٹا کیا کوئی خواب دیکھا ہے ،اٹھو اسکول کو دیر ہو رہی ہے، اپنے بال مت کھینچو، جلدی کرو مجھے ناشتا بھی بنانا ہے ” امی کہتے ہوئے کمرے سے باہر نکل گئی ۔
ہائیں اسکول، میں خواب دیکھ رہا تھا، اس نے جلدی سے سر پر ہاتھ پھیرا، اس کے سر پر کچھ نہیں تھا پھر ڈرتے ڈرتے شیشہ دیکھا مگر وہاں بھی صرف بال تھے۔
اس نے اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کیا کہ یہ صرف خواب تھا ۔
صائم نے عہد کیا کہ اب وہ کسی کو ٹکر نہیں مارے گا اگر سچ مچ سینگ آجاتے تو ۔
یہ سوچ کر ہی اس نے کانوں کو ہاتھ لگا کر توبہ کی ۔