خواجہ رضی حیدر
آخری حصہ
’’آل انڈیا مسلم لیگ نے جون 1936 میں آنے والے انتخابات کے لیے پارلیمنٹری بورڈ کا جو منشور جاری کیا تھا اس میں بھی یہ اُصول وضع کیا تھا کہ پارلیمنٹری بورڈ اُردو زبان اور رسم الخط کے فروغ اور تحفظ کے لیے کام کرے گا۔‘‘
1936 میں بمبئی کے ایک جلسہ میں انہوں نے دورانِ تقریر اُردو میں چند جملے ادا کیے لیکن اکتوبر 1937 میں سٹی مسلم لیگ بجنور یوپی کے ایک جلسہ میں جس کی صدارت تحریکِ خلافت کے رہنما مولانا شوکت علی کررہے تھے انہوں نے اپنی تقریر کا آغاز اُردو میں کیا اور پھر انگریزی میں گفتگو جاری رکھی۔ اسی جلسہ میں قائداعظم نے یہ بھی کہا کہ اسلام اور اُردو مسلمانوں کے اتحاد کے بنیادی عناصر ہیں۔
19 ستمبر 1937 کو شملہ میں ایک عوامی استقبالیہ سے خطاب کرتے ہوئے قائداعظم نے کہا کہ اگر میں اپنی زندگی میں اپنی قوم کو مضبوط، آزاد اور محب وطن بنا دیتا ہوں تو میں یہ سمجھوں گا کہ میں نے اپنی زندگی کا مقصد پالیا ہے لیکن ہمارے ملک کی آزادی کا قطعی یہ مقصد نہیں کہ اکثریت کے لیے ایسی آزادی جو جبر و ظلم پر مبنی ہو۔ اس استقبالیہ میں سرسکندر حیات خان، سرعبداللہ ہارون، مولانا شوکت علی اور سرسلطان احمد بھی موجود تھے جنہوں نے جناح کی قیادت پر بھرپور اعتماد کا اظہار کیا۔ شملہ ہی میں مولانا ظفر علی خان نے جناح سے ملاقات کی اور اپنی جماعت ’اتحاد ملت پارٹی‘ کو مسلم لیگ میں ضم کرنے کا فیصلہ کیا۔
ہندو مسلم مفاہمت کے حوالے سے جواہرلال نہرو سے مذاکرات کے دوران قائداعظم نے 17 مارچ 1938 کو جواہرلال نہرو کے نام ایک خط میں ہندو مسلم مفاہمت کے لیے جو چودہ نکات بیان کیے تھے اس میں بھی انہوں نے واضح طور پر کہا تھا کہ ’’مسلمان اُردو کو ہندوستان کی قومی زبان دیکھنا چاہتے ہیں اور وہ چاہتے ہیں کہ اُردو زبان کو نہ محدود کیا جائے اور نہ کسی قسم کا نقصان پہنچایا جائے۔‘‘
جنوری 1938 میں مسلم لیگ کلکتہ کے ایک جلسے میں کانگریسی ذہنیت کا پردہ چاک کرتے ہوئے کہا کہ ’’اگر ہم کو برِّصغیر میں اپنے وجود کی پائیدار ضمانت درکار ہے تو ہم کو اُردو کے تحفظ کے لیے جدوجہد کرنا ہوگی۔‘‘ اسی سال 1938 میں صوبہ بہار کے شہر ’گیا‘ میں ایک پُرہجوم اجتماع سے انگریزی میں خطاب کرنے کے بعد کہا کہ میں اپنی ٹوٹی پھوٹی اُردو میں بھی آپ سے کچھ کہنا چاہتا ہوں کیوں کہ یہ میری ذمّہ داری ہے کہ میں آپ سے آپ کی زبان میں بھی بات کروں۔ اس تقریر میں بھی انہوں نے کہا کہ اُردو اور اسلام ہم کو متحد و منظم کرسکتے ہیں۔
16 اکتوبر 1937 کو آل انڈیا مسلم لیگ کے 25 ویں سالانہ اجلاس لکھنؤ کی دوسری نشست میں راجا امیر احمد خان آف محمود آباد نے اُردو کے حوالے سے ایک قرارداد پیش کی۔ اس اجلاس کی صدارت قائداعظم محمد علی جناح کررہے تھے۔ قرارداد میں کہا گیا تھا کہ ’’جیسا کہ اُردو زبان دراصل ایک ہندوستانی زبان ہے اور ہندو مسلم ثقافت کے باہمی تعامل و ارتباط کا نتیجہ ہے اور ملک کی کثیر آبادی اس کو بولتی ہے۔ یہ متحدہ قومیت کے ارتقا میں معاون ہے۔ اس کو ہندی سے تبدیل کرنے کی کوشش کرنا اُردو کی ساختیاتی بنیادوں کو بُری طرح متاثر کرے گی بلکہ ہندو اور مسلمان طبقات کے درمیان رفاقت کے فروغ میں بھی رکاوٹ ڈالے گی۔ آل انڈیا مسلم لیگ ہندوستان کے اُردو بولنے والے عوام سے اپیل کرتی ہے کہ وہ مرکزی اور صوبائی حکومتوں کی سطح پر اور ہر شعبۂ حیات میں اپنی زبان کے مفادات کے تحفظ کے لیے ہر اس علاقہ میں ہر ممکن جدوجہد کریں جہاں جہاں اُردو بولی جاتی ہے۔ اختیاری مضمون کی حیثیت سے اُردو کی تدریس کے انتظامات کیے جائیں اور تمام سرکاری محکموں، عدالتوں، مجلس قانون ساز، ریلوے اور محکمہ ڈاک میں اُردو کے استعمال کے انتظامات کیے جائیں۔ اس بات کی کوشش کی جائے کہ اُردو کو ہندوستان کی ہمہ گیر اور آفاقی زبان بنا دیا جائے۔‘‘ اجلاس میں اس قرارداد کی تائید مولانا کریم الرضا خان (یوپی) حسن ریاض (یوپی) غلام حسن (سی پی برار) اور ایس ایم حسن خان (بمبئی) نے کی اور متفقہ طور پر یہ قرارداد منظور کرلی گئی۔
قائداعظم محمد علی جناح اپنی اُردو کو تانگے والے کی اُردو اور کبھی کبھی بمبئی والے کی اُردو کہا کرتے تھے۔ قائداعظم کے پرائیویٹ سیکریٹری مطلوب الحسن سیّد کا بیان ہے کہ جب میں 1940 میں ان کا پرائیویٹ سیکریٹری مقرر ہوا تو انہوں نے مجھ سے اُردو میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ’’تم لکھنؤ والا ہے، اس لیے ہم تم سے اُردو بولا لیکن کام تم انگلش میں کرے گا۔‘‘
جولائی 1938 میں دہلی پراونشل مسلم لیگ کے جلسے سے انہوں نے نہایت ٹھہر ٹھہر کر تقریباً پندرہ منٹ تک اُردو میں خطاب کیا۔ اکتوبر 1938 میں سندھ صوبائی لیگ کانفرنس میں انہوں نے کانگریس کی صوبائی حکومتوں کے مسلم دشمن اقدامات کی مخالفت کی اور فرمایا ’’اُردو ہندوستان کے مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد کی مادری زبان اور ہندوستان میں رابطے کی زبان ہے۔ اس لیے اس کی حفاظت ہمارا قومی فرض ہے۔ ہم اُردو کے خلاف اقدامات کو اسلام، مسلم ثقافت اور ادب کے خلاف اقدامات تصوّر کرتے ہیں۔
17 مارچ 1939 کو قائداعظم علی گڑھ سے واپسی پر بریلی پہنچے تو نہ صرف ریلوے اسٹیشن پر ان کا شاندار استقبال کیا گیا بلکہ رات کو ایک جلسے میں انہوں نے اُردو میں خطاب بھی کیا۔ انہوں نے کہا کہ ’’انگریز کیا چاہتا ہے۔ ہندو کیا چاہتے ہیں۔ انگریز چاہتا ہے کہ ہندو اور مسلمان لڑتے رہیں اور وہ حکومت کرتا رہے۔ ہندو چاہتا ہے کہ انگریز کے زیر سایہ ہماری حکومت مسلمانوں پر قائم رہے اور وہ مسلمانوں پر حکومت کرتا رہے۔ اور ہم مسلمان یہ چاہتے ہیں کہ ہم نہ انگریز کے غلام رہیں اور نہ ہندوئوں کے بلکہ ہندوستان میں ایک آزاد قوم کی طرح اپنا وجود قائم رہے۔‘‘
25 مارچ 1939 میں مسلم لیگ کانفرنس کی صدارت کرتے ہوئے قائداعظم نے اُردو میں ایک مختصر تقریر کی اور کانگریس کی سیاست کو دھوکہ دہی کی سیاست قرار دیتے ہوئے مسلمانوں کو خبردار کیا کہ وہ کانگریس کے دام ہمرنگ زمین سے ہوشیار رہیں کیوں کہ وہ مسلمانوں کے مفادات کے خلاف کام کررہی ہے۔
3 اپریل 1942 کو الٰہ آباد میں آل انڈیا مسلم لیگ کے اجلاس سے بھی قائداعظم نے اُردو میں خطاب کیا اور کہا کہ ہندوستان میں بولی جانے والی تمام زبانوں میں ایک ہی نعرہ گونج رہا ہے اور وہ نعرہ ہے ’’پاکستان زندہ باد‘‘
دسمبر 1943 کو کراچی میں آل انڈیا مسلم لیگ کے سالانہ اجلاس میں جب نواب بہادر یار جنگ نے قائداعظم کی تقریر کا نہایت پُرجوش انداز میں اُردو ترجمہ پیش کیا تو قائداعظم نے برجستہ کہا کہ آج مسلم لیگ کو اس کی زبان مل گئی ہے۔‘‘
قائداعظم کسی بھی زبان کی افادیت اور اہمیت سے پورے طور پر واقف تھے وہ جانتے تھے کہ زبان قوموں کی تعمیر و ترقی اور سلامتی و استحکام میں بنیادی کردار ادا کرتی ہے۔ اسی لیے وہ ہمیشہ اُردو کے تحفظ پر زور دیا کرتے تھے۔ 1944 میں گاندھی جناح مذاکرات کے موقع پر بھی انہوں نے دوقومی نظریے کی وضاحت کرتے ہوئے کہا تھا کہ دیگر عناصر کے علاوہ ہماری زبان اور اَدب بھی ہندوئوں سے مختلف ہے۔
مئی 1947 میں آل انڈیا مسلم نیوز پیپرز ایسوی ایشن کے کنونشن سے دہلی میں خطاب کرتے ہوئے ماضی میں مسلم پریس کی کمزور صورتِ حال پر روشنی ڈالی اور کہا کہ اُردو ہماری قومی زبان کا درجہ لینے جارہی ہے، ایسی صورت میں ضرورت اس بات کی ہے کہ اُردو صحافت کو زیادہ سے زیادہ ترقی دی جائے۔
12 جولائی 1947 کو لندن مسلم لیگ کے زیر اہتمام ’پاکستان ڈنر‘ کے موقع پر ایک پیغام میں اُردو کی اہمیت کو واضح کیا۔ اس موقع پر ڈنر میں موجود کیمبرج یونیورسٹی میں عربی اور فارسی کے پروفیسر اور معروف مستشرق آبری نے اس بات پر خوشی کا اظہار کیا کہ پاکستان کی زبان اُردو ہوگی۔ انہوں نے اس اُمید کا اظہار بھی کیا کہ پاکستان سے تخلیق کیے جانے والے اُردو اَدب کا شمار دنیا کے عظیم ادب میں ہوگا۔
قیامِ پاکستان کے بعد 18 اگست کو کراچی میں عید کی نماز کے اجتماع سے قائداعظم نے اُردو میں مختصر خطاب کیا اور تمام مسلمانوں کو عید کی مبارکباد پیش کی۔ 5 فروری کو سبی بلوچستان میں ایک بلوچ صحافی کے سوال کا جواب اُردو میں دیتے ہوئے کہا کہ ’بازاری افواہوں پر یقین مت کیجیے‘۔
21 مارچ 1948 کو ڈھاکہ میں فوجی پریڈ سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کی سرکاری زبان اُردو ہوگی۔ اسی تقریر میں آپ نے یہ بھی کہا کہ میں آپ پر یہ بات واضح کردینا چاہتا ہوں کہ پاکستان کی سرکاری زبان کوئی اور زبان نہیں بلکہ اُردو ہوگی۔ جو شخص بھی اس سلسلہ میں گمراہ کرے گا وہ یقینا پاکستان کا دوست نہیں ہوسکتا۔ کوئی بھی قوم ایک قومی زبان کے بغیر ملکی سالمیت اور یکجہتی کو فروغ نہیں دے سکتی۔
قیامِ پاکستان کے بعد 21 مارچ 1948 کو پاکستان کے نئے سکوں کا اجرا کیا گیا جن پر اُردو اور انگریزی میں ’حکومت پاکستان‘ کے الفاظ کندہ تھے۔ ان الفاظ سے ہی یہ شہادت میسر آتی ہے کہ پاکستان کی سرکاری زبان اُردو ہوگی۔
24 مارچ کو ڈھاکہ یونیورسٹی کے کنونشن سے خطاب کرتے ہوئے قائداعظم نے کہا کہ بین الصوبائی رابطہ کے لیے اُردو پاکستان کی سرکاری زبان ہوگی۔ اُردو اسلامی روایات اور ثقافت کی نمائندہ زبان ہے اور اسلامی ممالک کی زبانوں سے نہ صرف قریب ترین ہے بلکہ پاکستان کے تمام علاقوں میں بولی اور سمجھی جاتی ہے۔ انڈیا میں نہ صرف اُردو کو دیس نکالا دیا جارہا ہے بلکہ سرکاری خط و کتابت کے لیے بھی اُردو رسم الخط کو ممنوع قرار دے دیا گیا ہے۔
میں یہاں ایک بات کی وضاحت ضروری سمجھتا ہوں کہ ’’اُردو پاکستان کی سرکاری زبان ہوگی۔‘‘ یہ قائداعظم کی دیرینہ خواہش ضرور تھی لیکن اس بات کا فیصلہ پاکستان کی دستور ساز اسمبلی نے 25 فروری 1948 کو اپنے ایک اجلاس میں کیا تھا، جس کی صدارت قائداعظم محمد علی جناح کررہے تھے۔ اس لیے جب ڈھاکہ میں قائداعظم نے اُردو کو پاکستان کی سرکاری زبان کہا تو وہ اپنا فیصلہ نہیں سنا رہے تھے بلکہ پاکستان کی دستور ساز اسمبلی کے فیصلے کا اعلان کررہے تھے۔
’’اُردو پاکستان کی سرکاری زبان ہوگی۔‘‘ اس فیصلہ کے نفاذ میں تاخیر ضرور ہوئی مگر اس فیصلے کی قانونی حیثیت اپنی جگہ مسلم ہے۔ اگر ہم پاکستان سے پوری دیانت کے ساتھ وفاداری کا اعلان کرتے ہیں تو ہم کو اس فیصلے کو تسلیم کرنا چاہیے اور ایسا ہم اسی صورت میں کرسکتے ہیں جب ہم اپنے سیاسی وجود سے ہر قسم کے علاقائی تعصبات کو اکھاڑ کر پھینک دیں، کیوں کہ اسی صورت میں ہم پاکستان کی سلامتی کے لیے اپنا جائز کردار بھی ادا کرسکتے ہیں اور قائداعظم کی رُوح کے سامنے سرخرو بھی ہوسکتے ہیں۔