زاہد عباس
جسے دیکھو، آج کل ’’پودے لگاؤ، ماحول بچاؤ‘‘ جیسے نعرے مارتا دکھائی دیتا ہے۔ جہاں جائیں بس یہی سوال سننے کو ملتا ہے ’’آپ نے پودے لگانے کا مشن شروع کیا کہ نہیں؟‘‘ یعنی اس وقت ملک کا سب سے بڑا مسئلہ سرسبز و شاداب پاکستان ہی ہے۔ کریپشن، غربت، بدامنی، بے روزگاری، معاشی بدحالی اور دہشت گردی جیسے معاملات اب ہمارے ملک کا مسئلہ ہی نہیں۔
ابھی کل ہی کی بات ہے، ہمارے ایک دوست ہم سے ملنے آئے، بولے ’’میاں اگر دنیا میں زندہ رہنا ہے تو زیادہ سے زیادہ پودے لگاؤ‘‘۔
میں نے کہا ’’بھائی پودے لگانے میں ایسی کون سی بات ہے جس کی وجہ سے انسان زندہ رہ سکے؟‘‘
بولے ’’میں تاریخ میں زندہ رہنے کی بات کررہا ہوں، جب آپ شجرکاری مہم میں زیادہ سے زیادہ حصہ لیں گے تو لازمی طور پر میڈیا کوریج ملے گی جس سے آپ کی پہچان بڑھے گی، اور اگر یہ کام این جی او کے نام سے کریں گے تو بین الاقوامی طور پر جانے جائیں گے۔ اس طرح رہتی دنیا تک نہ صرف آنے والی نسلوں کے آئیڈیل بنیں گے بلکہ جب جب گرین پاکستان یا ماحول دوست اقدامات کرنے والوں کی فہرست مرتب کی جائے گی اس میں آپ کا نام بھی شامل ہوگا، یہی وہ نہ ختم ہونے والی زندگی ہے جس کی طرف میں نے اشارہ کیا ہے‘‘۔
وہ کسی ماہرِ ماحولیات یا یونیورسٹی کے ہیڈ آف ڈپارٹمنٹ برائے باٹنی کی طرز پر پودوں کی افزائش اور ماحولیاتی آلودگی پر مستقل بولے جارہے تھے۔ انہوں نے اپنے درس کو مزید آگے بڑھاتے ہوئے کہا ’’سنو، کسی بھی ملک کے طول و عرض میں پودے لگانا یا جنگلات بڑھانا اس علاقے کے درجہ حرارت کو کم اور ماحول کو صاف رکھنے میں مددگار ثابت ہوتا ہے، مگر افسوس، درخت لگانے کی ہمارے معاشرے کو جتنی زیادہ ضرورت تھی، ہم اتنی ہی سستی برت رہے ہیں۔ نہ صرف درخت لگائے نہیں جارہے، بلکہ ماضی میں درختوں کو بے دریغ کاٹا بھی گیا۔ ہمارے ملک میں جس تیزی سے درخت کاٹے گئے اور اب تک کاٹے جارہے ہیں، اس کے نتیجے میں فضا میں آکسیجن کم اور کاربن ڈائی آکسائیڈ زیادہ ہورہی ہے، جو جان داروں کے لیے شدید خطرات کا باعث ہے۔ ہم درخت نہ لگا کر اپنی آنے والی نسلوں کو غیر محفوظ بنارہے ہیں، اور اگر آج ہم زیادہ سے زیادہ درخت لگائیں گے تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ ہم اپنی آنے والی نسلوں کی حفاظت کا انتظام کررہے ہیں۔ اب وقت آگیا ہے کہ ہم نہ صرف نئے پودے لگائیں بلکہ ان کی نگہداشت بھی کریں۔ اور سب سے اہم بات یہ کہ درخت لگانا صدقۂ جاریہ بھی ہے، جب تک آپ کے لگائے ہوئے درخت سے لوگ فائدہ اٹھاتے رہیں گے، اُس وقت تک اجر بھی ملتا رہے گا۔ اگر آپ چاہتے ہیں کہ آپ کا نام بھی رہتی دنیا تک یاد رکھا جائے تو پھر میرے بتائے ہوئے راستے پر چلیں۔‘‘
میں نے ان کی جانب سے کی جانے والی باتوں پر دورانِ گفتگو انہیں چھیڑتے ہوئے کہا ’’آپ کے نزدیک ہمیشہ زندہ رہنے کا اگر یہی کلیہ ہے تو پاکستان کا ہر کسان اور باغبان یقینا تاقیامت زندہ رہے گا۔ ظاہر ہے وہ روز ہل چلاتا اور کھیتی باڑی کرتا ہے جس سے سرسبز فصل تیار ہوتی ہے۔ اسی طرح باغ کا مالی نہ صرف پودے لگاتا ہے بلکہ ان کی کاٹ چھانٹ بھی کرتا ہے۔ وہاں بھی ہر طرف ہریالی ہی ہریالی ہوا کرتی ہے۔ شجرکاری مہم میں حصہ لینے والوں کو تاریخی طور پر زندہ رہنے کی نوید تو آپ سنا ہی چکے ہیں، میری طرف سے سارے ملک کے کسانوں اور باغبانوں کے لیے اضافی طور پر ایک لائف ٹائم ایوارڈ کی بھی سفارش کردیجیے۔‘‘
بولے ’’ایسا نہیں ہوتا، بات دراصل یہ ہے کہ اگر کسان ہل چلاتا ہے اور مالی باغ میں پودے لگا کر پانی وغیرہ دیتا ہے تو انہیں اس کام کی اجرت مل جاتی ہے۔ مثلاً مالی جہاں بھی کام کرتا ہے وہاں سے اسے تنخواہ ملتی ہے، اور جہاں تک کسان کا تعلق ہے تو اسے بھی اپنی محنت کا تیسرا حصہ فصل کی کٹائی پر (اگر اس کی زمین نہیں ہے تو) مل جاتا ہے۔ اس طرح ان دونوں کو ان کی جانب سے کی جانے والی محنت کا معاوضہ ادا کردیا جاتا ہے۔ لہذا ان کا شمار فی سبیل اللہ کسی لالچ کے بغیر شجرکاری مہم کا حصہ بننے والوں میں نہیں کیا جاسکتا۔‘‘
قربان جاؤں میں اپنے دوست کی سادگی پر، اور ایسی بے لوث، بنا کسی لالچ فی سبیل اللہ شجرکاری مہم چلانے والوں پر، جن کا نظریہ پہلے دن سے ہی یہ ہو کہ پودے لگاؤ تاکہ اس کے نتیجے میں میڈیا کوریج ملے اور سارے زمانے میں جانے پہچانے جائیں، ہماری آنے والی نسلیں ہمیں اپنے ہیرو کے طور پر یاد رکھیں۔ یعنی ایک ایسی اداکاری جس کے پیچھے صرف اور صرف اپنی ہی تشہیر کا معاملہ ہو، اور پھر خود ہی تاریخی طور پر لازوال بننے کی خواہش بھی رکھیں… واہ بھئی واہ خوب منطق ہے!
ہماری بدقسمتی رہی ہے کہ ہمارے حکمران پہلے خود ہی کام بگاڑتے ہیں اور پھر اس کو سنوارنے کا سارا بوجھ عوام پر ڈال دیتے ہیں۔ بالکل یہی صورتِ حال ہمیں آج کل حکومت اور مختلف نجی تنظیموں کی جانب سے چلائی جانے والی شجر کاری مہم میں بھی نظر آتی ہے۔ شجرکاری مہم کے نام سے قوم کو ٹرک کی سرخ بتی کے پیچھے لگانے والوں سے عرض ہے کہ یہ بات ہم اچھی طرح جانتے ہیں کہ کسی بھی ملک کی معاشی ترقی اور ماحولیاتی استحکام کے لیے اس کے مجموعی رقبے کا 25 فیصد جنگلات پر مشتمل ہونا چاہیے، اور پاکستان میں دو فی صد سے بھی کم رقبے پر جنگلات ہیں، جبکہ اس کے مقابلے میں امریکا میں 33 فی صد اور بھارت میں 23 فی صد حصے پر جنگلات ہیں۔ ہمیں یہ بھی خبر ہے کہ پاکستان میں جنگلات کے خاتمے سے ماحولیاتی استحکام کو شدید نقصان ہورہا ہے۔ درختوں کی کٹائی میں اضافے اور جنگلات میں کمی سے مٹی کے تودے گرنے، شدید بارشیں، زیادہ تباہ کن سیلاب اور گرمی کی شدت جیسے عوامل سامنے آرہے ہیں۔ ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ درختوں کی کٹائی کی وجہ سے زرخیز زمینیں ریگستان میں تبدیل ہورہی ہیں، اس کے ساتھ فضائی آلودگی بڑھ رہی ہے۔ اور یہ بھی سچ ہے کہ درختوں کی جڑیں مٹی کو سرکنے نہیں دیتیں اور درختوں کی تعداد میں تیزی سے ہوتی کمی کے باعث ملک بھر میں خاص کر شمالی علاقوں میں مٹی کے تودے گرنے کے عمل میں اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ ہمیں یہ بھی علم ہے کہ پاکستان سالانہ 67500 ایکڑ جنگلات سے محروم ہورہا ہے۔ اس لیے قدرتی آفات اور تباہی سے بچنے کے لیے پاکستان میں ڈیڑھ کھرب سے دو کھرب درخت لگانے کی ضرورت ہے، تب کہیں جاکر پاکستان میں درختوں کی تعداد 1947ء سے پہلے پائے جانے والے درختوں کے مساوی ہوسکے گی۔ ہم عالمی اداروں کے جاری کردہ اُن اعداد و شمار سے بھی بخوبی واقف ہیں جن کے مطابق پاکستان کی سرزمین صرف 2.1 فی صد جنگلات سے ڈھکی ہے، پاکستان میں اتنے بڑے پیمانے پر جنگلات کی کمی کے باعث زمین بنجر ہوجائے گی۔ ہم ان میڈیا رپورٹس سے بھی آگاہ ہیں جن کے مطابق جنگلات کے شعبے سے حاصل ہونے والی باضابطہ آمدن عالمی معیشت کا 0.9 فیصد ہے۔ ایندھن، تعمیراتی مواد، خوراک وغیرہ کے لیے جنگل کاٹے جاتے ہیں اور ان سے دنیا بھر کی معیشت کا 1.1 فیصد حاصل ہوتا ہے۔ جنگلات ایک کروڑ 32 لاکھ ملازمتیں تخلیق کرتے ہیں اور اندازاً چار کروڑ دس لاکھ مویشی اس شعبے پر انحصار کرتے ہیں۔ ہمیں یہ بھی پتا ہے کہ دنیا کی آبادی کا ایک تہائی اب بھی لکڑی کے ایندھن پر انحصار کرتا ہے، اور جنگلات انسانیت کے فائدے اور بقا کے لیے بنیادی ضرورت بھی ہیں۔ ہمیں یہ بھی یاد ہے کہ سیلاب ہوں یا زلزلے، یا کوئی اور قدرتی آفت… ہر مشکل گھڑی میں پوری قوم نے نہ صرف یک جہتی کا مظاہرہ کیا بلکہ اپنے ہم وطنوں کی مالی مدد میں بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ جب جب وطنِ عزیز کو ضرورت پڑی ہم نے عملی طور پر پاکستانی ہونے کا ثبوت دیا۔ تازہ ترین مثال ہی لے لیجیے، جوں ہی سپریم کورٹ کے چیف جسٹس جناب ثاقب نثار صاحب نے ڈیم بنانے کے لیے آواز لگائی تو حب الوطنی سے سرشار قوم نے اس آواز پر لبیک کہتے ہوئے جس سے جو بن سکا، کر نے کے لیے تیار ہوگیا۔ بیرونِ ملک مقیم پاکستانیوں سے لے کر اندرون ملک رہنے والے بچے، بزرگ، خواتین، طلبہ، مزدور، کاروبار سے منسلک افراد، یہاں تک کہ خواجہ سرائوں نے بھی نہ صرف اپنا اپنا کردار ادا کرنا شروع کردیا بلکہ ہر ایک کی جانب سے ڈیم کے لیے مالی معاونت کا سلسلہ بھی شروع ہوگیا… یعنی جب بھی ملک کو ہماری ضرورت پڑی ہم سب کندھے سے کندھا ملا کر کھڑے ہوگئے۔ ہونا بھی یہی چاہیے، کیونکہ وطن پرست اور خوددار اقوام کا یہی کردار ہوا کرتا ہے، اور سب سے بڑھ کر ہمارے ماضی کو دیکھتے ہوئے کہا جاسکتا ہے کہ پانی کی کمی کے سلسلے میں ڈیم بنانے کا معاملہ ہو یا موسمی تبدیلیوں کو شکست دینے کے لیے شجرکاری مہم… ہر محاذ پر پاکستانی عوام ضرور سرخرو ہوں گے، یوں ہم تو اپنی ذمے داریاں نبھاتے رہے ہیں، نبھا رہے ہیں اور نبھاتے رہیں گے، لیکن یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس ملک کے حکمرانوں اور ریاستی اداروں کو اپنی ذمے داریوں کا احساس آخر کب ہوگا؟ بار بار عوام سے مدد مانگنے والے آخر کب عوام کے لیے بھی اُن بنیادی سہولیات کا بندوبست کریں گے جن کی راہ وہ گزشتہ 70 برسوں سے تک رہے ہیں۔ چونکہ میرا موضوع اِس وقت پاکستان میں چلائی جانے والی شجرکاری مہم ہے، اس لیے صرف یہیں تک محدود رہتے ہوئے یہ کہنے کی جسارت کروں گا کہ یہ صورتِ حال یک دم خراب نہیں ہوئی۔ سوچنے کی بات تو یہ ہے کہ جب ہرے بھرے جنگل کاٹے جارہے تھے تو محکمہ جنگلات اور ماحولیات والے کون سا ستّو پی کر سورہے تھے؟ جب ہر روز گھنے جنگلوں سے شعلے اٹھ رہے تھے جس کی آڑ میں ٹمبر مافیا کروڑوں روپے کے درخت چوری کرنے میں مصروف تھا اُس وقت متعلقہ اداروں کے اعلیٰ افسران کہاں اعتکاف میں جابیٹھے تھے؟ جب ڈویلپمنٹ کے نام پر شہروں میں لگے ہزاروں درختوں کو نئی ہاؤسنگ اسکیموں کی بھینٹ چڑھایا جارہا تھا اُس وقت محکمہ باغات اور محکمہ بلدیات کے اربابِ اختیار نے کس حجرے میں پناہ لے رکھی تھی؟ ادارے ریاست کے ملازم ہوا کرتے ہیں، اس لیے جب سڑکوں کے کنارے سرکاری نمبر لگے درختوں پر کلہاڑیاں برسائی جارہی تھیں تب ہائی وے پولیس کے جوانوں نے ریاست کی اس ملکیت کو کیوں نہ بچایا؟ ہر سال فائلوں تک محدود شجرکاری کے نام پر اربوں روپے کا ڈاکا مارنے والوں نے متعلقہ اداروں کو آخر کون سی ایسی بُوٹی سُنگھائی جس سے انہیں ہر طرف ہریالی ہی ہریالی دکھائی دینے لگی؟ جب کراچی کی گلیوں، محلوں اور مرکزی شاہراہوں کے کنارے آباد پارکوں پر لینڈ مافیا کی جانب سے چائنا کٹنگ کی جارہی تھی اُس وقت کراچی بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی کن ٹھنڈے کمروں میں خوابِ خرگوش کے مزے لوٹ رہی تھی؟
اب نیا پاکستان بنانے والے برسراقتدار ہیں، اس لیے پرانے پاکستان کی ان تلخ یادوں کو بھلاتے ہوئے آگے کی جانب بڑھتے ہیں، جو ہوا اُس پر مٹی ڈالتے ہیں اور یہ امید رکھتے ہیں کہ نیا پاکستان بنانے والے کرپشن سے متعلق عوام کے سامنے پیش کردہ اپنے اُس ایجنڈے پر ضرور عمل کریں گے جس کے مطابق قومی دولت لوٹنے والوں سمیت نااہل افسران کو بھی جواب دینا پڑے گا۔ ہم امید رکھتے ہیں کہ ضرور ان لوگوں کے خلاف بھی کارروائی کی جائے گی جنہوں نے ماضی میں شجرکاری کے نام پر قوم کو اربوں روپے کا ٹیکہ لگایا۔ ایسے قوانین بنانے ہوں گے جن کے تحت ٹمبر مافیا کو لگام دی جاسکے۔ ایسے قوانین، جن کے تحت ہر ادارہ شجرکاری کا پابند ہو۔ ایشیا کے سب سے بڑے صنعتی زون کورنگی انڈسٹریل ایریا سمیت تمام ہی کاروباری یونٹس کے مالکان اور انتظامیہ پر لازم ہو کہ ہر فیکٹری اپنے رقبے اور مرکزی دروازے کے سامنے والے حصے کو سرسبز کرے۔ درختوں پر نمبر لگاکر ایک ایک درخت کا ریکارڈ محفوظ کیا جائے۔ اسکولوں اور کالجوں کی سطح پر ماحولیاتی آلودگی اور گرین پاکستان جیسے موضوعات کو نصاب کا حصہ بنایا جائے۔
ریاستی جنگلات کو زبردستی قبضہ کرنے والوں کی گرفت سے آزاد کرایا جائے، اور جنگلات کاری کے لیے مستقل بنیادوں پر مہم چلائی جائے۔ اگر تمام ادارے عملی طور پر غاصبانہ قبضہ کرنے والوں کے خلاف اپنے قدرتی خزانے کو محفوظ کرنے کے لیے متحد ہوجائیں اور حکومت مؤثر پالیسیاں نافذکرے تو نہ صرف پاکستان کے جنگلات کے رقبے میں اضافہ ہوسکتاہے، بلکہ پاکستان خوش حالی کی جانب بھی بڑھ سکتا ہے۔