اکادمی ادبیات پاکستان کراچی کا مذاکرہ و مشاعرہ

676

ڈاکٹر نثار احمد نثار
کادمی ادبیات پاکستان کراچی کے زیر اہتمام پنجابی زبان کے شاعر حضرت بابا بلّھے شاہ کی یاد میں خصوصی لیکچر اور مشاعرہ منعقد ہوا جس کی صدارت ابو ظہبی سے تشریف لائے ہوئے صحافی و شاعر ظہورالسلام جاوید نے کی۔ وحید محسن مہمان خصوصی تھے نظامت کے فرائض قادر بخش سومرو نے ادا کیے۔ صاحب صدر نے اپنے صدارتی خطاب میں کہا کہ بابا بلھے شاہ نے ظلم و بربریت کے خلاف آواز بلند کی خاص طور پر مغلیہ سلطنت کے عالمگیر دور میں انہوں نے مزاحمتی شاعروں کے ذریعے عوام الناس میں ایک نیا جوش و جذبہ بیدار کیا جس نے آگے چل کر مغلیہ سلطنت کے زوال میں اہم کردار ادا کیا۔ بابا بلّھے شاہ‘ قادری مکتبِ فکر سے تعلق رکھتے تھے‘ وہ تصوف کے عظیم المرتبت عہدے پر فائز تھے‘ آپ کا اصل نام عبداللہ شاہ تھا‘ آپ 1680 میں پیدا ہوئے‘ آپ نے عشقِِ مجازی اور عشق حقیقی کے مضامین کے ساتھ ساتھ حاکم وقت کے مظالم بھی نظم کیے۔ صاحب صدر نے مزید کہا کہ اکادمی ادبیات پاکستان کراچی کے ریزیڈینٹ ڈائریکٹر قادر بخش سومرو ایک علم دوست انسان ہیں انہوں نے اپنے دفتر میں شعر و ادب کا جو سلسلہ شروع کر رکھا ہے وہ قابل ستائش ہے۔ ہر مہینے میں چا ر مشاعرے کرانا ایک مشکل کام ہے لیکن یہ بہت عمدگی سے زبان و ادب کے معاملات کو آگے بڑھا رہے ہیں‘ ان کے مشاعرے وقت پر شروع ہو جاتے ہیں اور کامیاب ہوتے ہیں یہ خود بھی شاعر ہیں‘ یہ سندھی‘ اردو اور پنجابی زبانوں میں اشعار کہتے ہیں اور کراچی کی ادبی تقریبات میں بھی شرکت کرتے ہیں۔ میری دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ انہیں مزید ہمت و استقامت عطا فرمائے اور یہ اسی طرح شعر و ادب کی خدمت کرتے رہیں۔ مہمان خصوصی نے کہا کہ بابا بلّھے شاہ ایک عظیم صوفی بزرگ شاعر تھے‘ ان کے کلام میں وحدت الوجود بہت نظر آتی ہے۔ ان کی شاعری انسان دوستی سے عبارت ہے‘ وہ اپنے اشعار کے ذریعے اصلاحِ نفس اور اصلاحِ معاشرہ کے فرائض انجام دے رہے تھے‘ اگرچہ وہ اب ہم میں موجود نہیں ہیں لیکن وہ ہمارے دلوں میں زندہ ہیں‘ ان کی تعلیمات ہمارے لیے مشعل راہ ہے۔ قادر بخش سومرو نے کہا کہ ادکادمی ادبیات پاکستان کا منشور یہ ہے کہ ہر زبان و ادب کی ترقی میں اپنا کردار ادا کرے ہم اس ادارے کے تحت علم کی روشنی پھیلا رہے ہیں۔ شاعری فنون لطیفہ کی ایک اہم شاخ ہے‘ ہم اس تناظر میں مشاعرے کراتے ہیں تاکہ ہمارا کلچر نوجوان نسل تک منتقل ہو سکے۔ انہوں نے بابا بلّھے شاہ کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے کہا کہ وہ اپنے وقت کے بہت بڑے انسان تھے انہوں نے اصولوں پر سودے بازی نہیں کی۔ انہوں نے سچائیاں رقم کیں۔ انہوں نے مخلوق خدا کو سیدھی راہ دکھائی‘ وہ اسلام کے مبلغ تھے‘ بادشاہِ وقت کے غلط فیصلوں پر مزاحمتی شاعری کرتے تھے‘ ایسے انسان صدیوں میں پیدا ہوتے ہیں۔ اس پروگرام کے دوسرے دور میں مشاعرہ ہوا جس میں کراچی کے متعدد شعرا نے اپنا کلام پیش کیا۔

کربلا ہمارے لیے مشعل راہ ہے‘ ظہورالاسلام جاوید

۔61 ہجری دس محرم الحرام کو کربلا کے میدان میں نواسۂ رسول حضرت امام حسینؓ اور ان کے 72 رفقائے کار نے اسلام کی سر بلندی کے لیے اپنی جانیں قربان کرکے ایک روشن باب لکھا۔ انہوں نے بتایا کہ حاکمیتِ الٰہی اور شریعت محمدیؐ کا تحفظ دین اسلام کا اہم عنوان ہے۔ انہوں نے یزید کی بیعت سے انکار کرتے ہوئے حق و صداقت کے لیے اپنے سر قلم کروائے‘ یزیدی لشکر نے خانوادۂ رسول پر پانی بند کر دیا اور بے تحاشا مظالم ڈھائے‘ حضرت امام حسینؓ اور ان کے ساتھیوں نے تمام ظلم و تشدد برداشت کیے لیکن باطل کے سامنے سرنگوں نہیں ہوئے۔ ان خیالات کا اظہار ممتاز شاعر و صحافی ظہورالاسلام جاوید نے مہتاب شاہ ویلفیئر سوسائٹی کے تحت ہونے والی مجلس مسالمہ میں اپنے صدارتی خطاب میں کیا۔ انہوں نے مزید کہا کہ کربلا رثائی ادب کا محور ہے۔ مرثیہ گوئی کا رواج واقعۂ کربلا سے پہلے بھی موجود تھا لیکن امام حسینؓ کی شہادت کے بعد سلام و مرثیہ کو نئے انداز سے ترتیب دیا گیا اس میں واقعۂ کربلا‘ یزیدی فوج کے مظالم اور بعداز کربلا کے واقعات نظم کیے گئے۔ فلسفۂ شہادتِ امام حسینؓ اسلامی تعلیمات کا اہم موضوع ہے‘ شاعری میں مرثیے کو جو مقبولیت حاصل ہوئی وہ کسی اور صنفِ سخن کو نصیب نہیں۔ برصغیر پاک و ہند میں اردو مرثیہ کا آغاز حیدرآباد دکن میں ہوا۔ سلطنت گولکنڈہ کے حکمراں قلی قطب شاہ کو اردو کا پہلا صاحبِ دیوان شاعر قرار دیا جاتا ہے ان کے دیوان میں پانچ مرثیے بھی شامل تھے۔ دکن میں مرثیے کی روایت اس حد تک مضبوط ہوئی کہ یہ صنف شمالی ہند اوردلی تک جا پہنچی۔ یہ صنف چونکہ پاکیزہ اور امام حسینؓ کی قربانیوں سے مربوط ہے لہٰذا شعرا نے مرثیے میں نئے نئے استعارے و الفاظ سجا کر امام حسینؓ کو خراج عقیدت پیش کیا۔ کراچی میں اب مرثیہ گوئی عزاداری کی مجلسوں تک محدود ہوگئی ہے جب کہ ضروری ہے کہ ہم اس صنفِ سخن کو آگے بڑھائیں کیونکہ حضرت امام حسینؓ کا ذکر کرنا عین اسلام ہے‘ آپ کے بارے میں ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ حسین مجھ سے ہے اور میں حسین سے ہوں۔ آلِ رسول سے محبت ہماری نجات کا ذریعہ ہے۔ اس مسالمہ کی نظامت راقم الحروف نے کی جب کہ ظہورالاسلام جاوید‘ نثار احمد‘ مہتاب شاہ جمالی‘ آمنہ فردوس‘ ذوالفقار علی‘ امام الدین ضیائی‘ شکیل احمد‘ عبداللہ شیدائی اور دیگر نے امام عالی مقامؓ کو خراجِ عقیدت پیش کیا اس موقع پر مہتاب شاہ جمالی نے کہا کہ ہماری تنظیم‘ اسلامی تعلیمات کی ترویج و اشاعت کے ساتھ ساتھ اردو ادب کے فروغ میں بھی سرگرم عمل ہے‘ ہم مشاعرے بھی منعقد کراتے ہیں اور مجلس مسلمہ بھی‘ ہماری تنظیم سماجی کاموں میں بھی حصہ لیتی ہے‘ ہم اپنی بساط کے مطابق خدمتِ خلق کر رہے ہیں ہمیں ستائش کی پروا نہیں ہے‘ ہم خلوصِ نیت سے کام کر رہے ہیں۔

نسجم انجم کے ناول کی تقریب اجرا

قائد اعظم رائٹرز گلڈ پاکستان کے زیر اہتمام بھوپال ہائوس کراچی میں ممتاز ناول نگار نسیم انجم کے پانچویں ناول ’’سرِ بازار رقصاں‘‘ کی تقریب اجرا منعقد ہوئی اس موقع پر محمود شام نے اپنے صدارتی خطاب میں کہا کہ نسیم انجم بہت صاف گو ناول نگار ہیں اور زمینی حقائق بیان کرنے میں نہیں ڈرتیں‘ ان کے افسانے زندگی سے بھرپور ہوتے ہیں‘ ان کے یہاں معاشرتی مسائل زیر بحث آتے ہیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ ان کا پانچواں ناول ’’سرِ بازار رقصاں‘‘ اردو ادب میں گراں قدر اضافہ ہے۔ مہمان خصوصی ڈاکٹر شاداب احسانی نے کہا کہ نسیم انجم کے کردار جان دار ہیں انہوں نے بڑی خوب صورتی سے ناول میں صوفیانہ رنگ سمویا ہے ان کے جملوںکی کاٹ قاری کے دل میں اتر جاتی ہے۔ نسیم انجم کو لفظیات کی نشست و برخواست پر دسترس حاصل ہے۔ پروفیسر شہناز پروین نے کہا کہ نسیم انجم کے ناول میں تسلسل ہے‘ ایک لفظ دوسرے لفظ سے مربوط ہے‘ کہانی کا انجام اچھا ہے‘ یہ ناول زندگی کے روّیوں کی عکاسی کر رہا ہے۔ پروفیسر سعید قادری نے کہا کہ نسیم انجم نے اپنے کرداروںکے ساتھ انصاف کیا ہے۔ ناول کا پلاٹ اثر انگیز ہے یہ چھوٹے چھوٹے جملوں میں بڑی اہم بات کرنے کا فن جانتی ہیں۔ عثمان دمولی نے کہا کہ نسیم انجم نے اپنے اس ناول میں معاشرے کو جگانے کی کوشش کی ہے خاص طور پر اسٹیبلشمنٹ پر تنقید کی ہے۔ وسیم بھوپالی نے کہا کہ نسیم انجم ایک بہترین ناول نگار کے طور پر اپنی شناخت رکھتی ہیں‘ ان کی ترقی کا سفر جاری ہے امید ہے کہ یہ مزید عزت و شہرت پائیں گی۔ خلیل احمد خلیل اور شاہین حبیب نے نسیم انجم کو منظوم خراج تحسین پیش کیا۔ تقریب کی نظامت شازیہ ناز عروج نے کی۔ حذیفہ حماد نے تلاوت کلام مجید کی سعادت حاصل کی۔ صغیر احمد جعفری نے نعت رسولؐ پیش کی۔ اس تقریب میں اربابِ علم و ادب کی بڑی تعداد موجود تھی۔ نسیم انجم نے کلماتِ تشکر ادا کرتے ہوئے کہا کہ وہ اردو ادب کی طالبہ ہیں وہ اپنے اردگرد کے ماحول کو اپنے افسانوں میں عیاں کرنے کے ساتھ ساتھ ناول کی ٹیکنیکل ضروریات کا خیال بھی رکھتی ہیں ان کی کوشش ہوتی ہے کہ ان کے افسانوں میں کوئی پیغام ہو‘ کوئی نصیحت ہو تاکہ معاشرتی روّیوں میں مثبت تبدیلیاں ممکن ہوں۔

بزمِ تقدیس ادب کا مشاعرہ

کراچی کی اہم ادبی تنظیموں میں شامل بزمِ تقدیس ادب ہر ماہ ایک مشاعرہ ترتیب دیتی ہے‘ اس حوالے سے 9 ستمبر 2018ء کو احمد سعید خان کی رہائش گاہ پر نکہت بریلوی کی صدارت میں مشاعرہ ہوا جس میں رونق حیات مہمان خصوصی تھے۔ اس موقع پر صاحب صدر‘ مہمان خصوصی اور ناظم مشاعرہ (احمد سعید خاں) کے علاوہ سید آصف رضا رضوی سید علی اوسط جعفری‘ سید فیاض علی فیاض‘ عبیداللہ ساگر‘ غلام علی وفا‘ عظمیٰ جون‘ حجاب عباسی‘ سید نسیم کاظمی‘ حامد علی سید‘ کشور عدیل جعفری‘ عبدالوحید تاج‘ رضی عظیم آبادی‘ سخاوت علی نادر‘ رفیق مغل‘ طاہر حسین‘ عبدالمجید محور‘ سیف الرحمن سیفی‘ نشاط غوری‘ پرویز نقوی‘ شکیل وحید‘ آسی سلطانی‘ سعدالدین سعد‘ خالد میر‘ سجاد ہاشمی‘ تنویر سخن‘ شفیع محسن‘ اسد ظفر‘ ابراہیم خلیل‘ اقبال افسر غوری‘ درپن مرادآبادی‘ زاہد علی سید‘ اسحاق خاں اسحاق ‘ صدیق راز‘ شاہدہ عروج‘ یاسر سعید صدیقی اور چاند خان نے اپنا اپنا کلام پیس کیا۔ اس محفل میں سامعین بھی تھے جو ہر عمدہ شعر پر خوب داد دے رہے تھے۔ صاحبِ صدر نے اپنے اشعار سنانے سے قبل بزمِ تقدیس ادب کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ آج کی محفل میں بہت اچھی شاعری سامنے آئی ہے اس کا کریڈٹ بزم تقدیس ادب کو جاتا ہے کہ وہ شعر و سخن کی آبیاری میں مصروف ہیں۔ مہمان خصوصی نے کہا کہ وہ قلم کاروں کے مسائل لے کر حکومتی اداروں سے رابطے کر رہے ہیں کیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ قلم کاروں کا استحصال ہو رہا ہے۔ ہمیں ہمارے حقوق دیے جائیں‘ ہم معاشرے کے اہم لوگ ہیں۔ جن اداروں کو قلم کاروں کی فلاح و بہبود کے لیے قائم کیا گیا ہے وہ اپنے فرائض منصبی میں کوتاہی کے مرتکب ہو رہے ہیں۔ ہمیں چاہیے کہ ہم ایک سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن جائیں تاکہ کوئی شخص ہمارے حقوق غضب نہ کرے۔

حصہ