مریم صدیقی
وہ تھکی ہاری شام کے 4 بجے آفس سے نکلی، 4:30 بجے گھر میں قدم رکھا تو لمحہ بھر کے لیے اس کے قدم تھم گئے لگتا تھا مہینوں سے گھر کی صفائی نہیں ہوئی۔ گھر کے مکینوں کی لاپرواہی گھر کے درو دیوار سے جھلک رہی تھی۔ کوئی پرسان حال نہ تھا۔ وہ گھر اور ملازمت کے درمیان بری طرح پھنس چکی تھی۔ ایک سال قبل ایک بینک میں نوکری کا اشتہار دیکھ کر شوقیہ جاب کی لیے اپلائی کردیا۔خوش قسمتی سے عیشا کو یہ جاب مل گئی لیکن وہ گھر اور ملازمت میں توازن قائم نہ رکھ سکی، گھر کی ذمہ داریوں کو پس پشت ڈال کر وہ سارا وقت اپنے کام کو دیتی اور گھر آکر لمبی تان کر سوجاتی۔ شروع شروع میں شوہر اور بچوں نے خاموشی کا مظاہرہ کیا لیکن بالآخر انہیں عیشا کو اس کی ذمہ داریوں کا احساس دلانا پڑا۔ احساس کیا ہونا تھا وہ اپنی ہی مصروفیات کا رونا روتی لڑنے جھگڑنے لگی۔ جب یہ لڑائیاں طول پکڑنے لگیں تو عیشا روٹھ کر اپنے میکے چلی گئی۔ ایسی کئی کہانیاں ہمارے ارد گرد بکھری پڑی ہیں۔
عورت نہ صرف ایک ماں ہے بلکہ بہن، بیوی اور بیٹی بھی ہے۔ عورت کی کئی ذمہ داریوں میں سے اہم ترین ذمہ داری ایک نسل کی تربیت کرنا اور اسے پروان چڑھانا ہے اگر وہ اپنے اس فریضے سے غافل ہوجائے تو ایک نسل تباہی کے دہانے پر آکھڑی ہوتی ہے اور اگر عورت اپنے اس فرض کو بخوبی انجام دے ایک نسل ایک بہترین قوم کی صورت میں سامنے آتی ہے۔ اللہ تبارک و تعالی نے کسب معاش کی ذمہ داری مرد کے سپرد کی ہے اور امور خانہ داری عورت کے ذمے ہے۔ للہ نے مرد کو خاندان کا کفیل بنایا ہے اور عورت کو اسکی کفالت میں دیا ہے۔ عورت کا نان نفقہ مرد کی ذمہ داری ہے، اللہ نے مرد کے معاش میں خیر و برکت رکھی ہے لیکن موجودہ دور میں مہنگائی کو مد نظر رکھتے ہوئے ہم میں سے کئی عورتیں مجبوراً ملازمت کے لیے قدم گھر سے باہر نکالتی ہیں۔
آج سے چند سال قبل عورت کے ملازمت کرنے کو معیوب سمجھا جاتا تھا، بحالت مجبوری گھر سے نکلنے والی خواتین کو بیک وقت کئی محاذوں کا سامنا تھا۔ خاندان اور معاشرہ اس کے ملازمت کرنے کو قبول نہ کرتا، تو کہیں ملازمت پیشہ خواتین میں سے بیشتر کو دفتری اوقات میں اپنے مرد افسران اورہم منصب مردوں کی جانب سے جنسی طورپر ہراساں کیے جانے جیسے مسائل کا سامنا تھا۔ بدلتے وقت کے ساتھ لوگوں کی سوچ میں بھی مثبت تبدیلی آئی ہے اور اب عورتوں کا ملازمت کرنا معیوب خیال نہیں کیا جاتا اب عورتیں ہر عہدے پر مرد کے شانہ بشانہ کام کرتی نظر آتی ہیں اب ملازمت کو اعلی تعلیم کے تصرف کا ذریعہ خیال کیا جاتا ہے۔ہمارا دین اسلام بھی اس معاملے میں عورت پر کوئی قدغن نہیں لگاتا۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ اور اسلام کی خاتون اوّل حضرت سیدنا خدیجہ رضی اللہ عنہا اسلام کی پہلی متمول خاتون تھیں۔ آپ رضی اللہ عنہا کی شخصیت مسلمان خواتین کے لیے مشعلِ راہ ہے۔
ملازمت پیشہ خواتین کو درپیش مسائل:
بیشتر ملازمت پیشہ خواتین کو دہری ذمے داری نبھانے میں کافی مشکلات کا سامنا ہے۔ ملازمت کی وجہ سے گھر اور بچے نظر انداز ہوجاتے ہیں۔ وہ اپنی ملازمت اور ذاتی زندگی میں توازن قائم نہیں رکھ پاتیں۔ اکثر خواتین بچوں کی تعلیم و تربیت پر بھی توجہ نہیں دے پاتیں حالانکہ یہ ان کی اوّلین ذمے داری ہے۔ اس کے نتیجے میں بچوں کی تعلیمی کارکردگی متاثر ہونے کے ساتھ بہتر ماحول اور توجہ نہ ملنے کے سبب ان میں دیگر خراب عادتیں پیدا ہوجاتی ہیں۔ ملازمت پیشہ خواتین کی گھریلو زندگی پس منظر میں چلی جاتی ہے۔ جس کے باعث گھریلو ناچاقیاں جنم لیتی ہیں۔گھر اور اہل خانہ ہمیشہ عورت کی توجہ کے محتاج رہتے ہیں۔ رشتے بھی پودوں کی طرح ہوتے ہیں اگر ان کی نگہداشت نہ کی جائے تو یہ بھی مرجھا جاتے ہیں۔
وقت کی کمی کے باعث ملازمت پیشہ خواتین کی سماجی زندگی بھی تقریباً ختم ہوجاتی ہے۔ لوگوں سے ملنا جلنا کم ہوتے ہوتے بالآخر ختم ہوجاتا ہے۔ زندگی کی دوڑ میں ہر ایک فرد اس قدر مصروف ہوچکا ہے کہ لوگوں سے ملنے جلنے، سیرو تفریح تک کے لیے وقت نہیں۔ آج کے مشینی دور میں مرد و خواتین نفسا نفسی کا شکار ہیں۔ معاشرے پر نظر ڈالیں تو ہر دوسرا شخص تنہائی اور ڈپریشن کا شکار ہے۔ ہر فرد وقت کی کمی کا رونا روتا نظر آتا ہے۔
سد باب:
ملازمت پیشہ خواتین کو درپیش مسائل کا مستقل طور پر سد باب کرنے کی ضرورت ہے تاکہ گھر میں خوشگوار ماحول قائم ہوسکے۔ اس کے لیے ان کو چاہیے کہ اپنے وقت کا مناسب استعمال کریں گھر پر جتنا وقت رہیں، گھروالوں کے ساتھ گزاریں۔ اپنے تمام تر کاموں کی درجہ بندی اس انداز سے کریں کہ نہ گھر کا کوئی کام متاثر ہو اور نہ ہی دفتری اوقات میں کسی قسم کی مشکل کا سامنا ہو۔ چھٹی کا دن زیادہ تر وقت گھر والوں اور بچوں کے ساتھ گزاریں۔ ان کے ساتھ کھیل کھیلیں تاکہ وہ آپ کی توجہ کے عادی ہوں۔ بچوں کو ان کی عمر کے حساب سے ان کے کام انھیں خود کرنے کی عادت ڈالیں۔ چھوٹے موٹے کام ان سے لیتی رہیں تاکہ انھیں آپ کا ہاتھ بٹانے کی عادت پڑے اور احساس ذمے داری پیدا ہو۔ کھیل کود اور کام کے دوران بچوں کی اخلاقی تربیت کرتی رہیں۔ ان سے مختلف موضوعات پر گفتگو کریں ان کی باتیں سنیں، ان کے ساتھ زیادہ سے زیادہ وقت گزاریں۔اس سے آپ بھی تازہ دم محسوس کریں گی۔
بچوں کے ساتھ سیر و تفریح کے لیے جائیں کہ اس سے ذہن اور جسم کو سکون ملتا ہے اور فرحت کا احساس ہوتا ہے۔ اپنا جدول اس انداز تیار کرلیںکہ تمام کاموں کی فہرست بنا کر ان کے اوقات مقرر کرلیں۔ اب اس کے مطابق روز مرہ کے کام سر انجام دیں۔ تمام تر کاموں کی درجہ بندی اگر احسن انداز سے کرلی جائے تو کافی مسائل سے بچا جاسکتا ہے۔ ہفتہ‘ اتوار کی چھٹی میں ہفتے بھر کے کاموں کو ترتیب دے لیں۔ اسی طرح باورچی خانے کے کچھ کام چھٹی کے روز نمٹالیں اور ہر پندرہ دن بعدگھر کی مکمل صفائی کرلیں۔
ہر ہفتے چھٹی کے دن گھر کی مکمل صفائی کرلی جائے تو روزانہ کی صفائی میں بہت آسانی ہو جائے گی۔ اسی طرح ایک دن منتخب کرکے ایک ہفتے کے کپڑے استری کرلیں تو سارا ہفتہ آ رام و سکون سے گزر سکتا ہے۔ گھر کے چھوٹے موٹے کام بچوں کے ذمے لگا دیں جسے وہ بہ خوشی انجام دیں۔ اس سے ان کے اندر اپنا کام خود کرنے کی عادت اور احساسِ ذمے داری پیدا ہوگا۔ ان کے چھوٹے چھوٹے کاموں کی تعریف کریں، ان کی حوصلہ افزائی کریں، غلطی پر ڈانٹنے اور غصہ ہونے کے بجائے ان کی اصلاح کریں تاکہ وہ آئندہ بھی دل چسپی سے وہ کام کریں۔
اپنے گھر میں رنگ عورت اپنے مزاج سے بھرتی ہے۔ بعض خواتین کام کی زیادتی اور ذہنی دباؤ کی وجہ سے چڑچڑے پن اور ڈپریشن کا شکار ہوجاتی ہیں جس کا اثر ان کی ذاتی زندگی پر پڑتا ہے۔ کسی بھی کام کو کرنے کا احسن طریقہ اس کی ترتیب ہے اگر کام کو وقت کی مناسبت سے ترتیب دے دیا جائے اور ہر کام کو وقتِ مقررہ پر انجام دیا جائے توکام کی زیادتی اور وقت کی کمی جیسے مسائل سے نجات مل سکتی ہے۔ اگر آپ زندگی کی خوب صورتی سے لطف اندوز ہونا چاہتی ہیں تو رشتوں کی اہمیت کو سمجھیں اور انھیں وقت دیں جو آپ کے منتظر ہیں۔ یہ وقت گزرگیا تو لوٹ کر نہیں آئے گا۔