۔Hygienاور Nutritionکے درمیان

519

عقیلہ اظہر
ریحانہ 1970ء کی دہائی میں شادی ہوکر لندن آئیں۔ سکھیاں انہیں حسرت بھری نگاہوں سے دیکھتی رہ گئیں۔ پھر وہاں کی طرزِِِ رہائش، اصول، قاعدوں کی ایسی مداح ہوئیں کہ اگر ملک یاد بھی آتا تو کبھی لندن کے قاعدے قانون، تو کبھی علاج معالجہ کی سہولتیں پائوں میں لپٹ جاتیں، پھر کبھی وہاں کی ایمان داری بھا جاتی، سڑکیں اور باغات جنت کے لگتے۔ کچھ عرصے کے بعد ایک بیٹا پیدا ہوا اور وہاں رہنے کی وجہ سے انگلستان کی قیمتی شہریت بھی حاصل ہوئی۔ بات بے بات منہ سے نکل جاتا Born Citizen ہیں، ہم نے اور ہمارے بچے نے الٹے سیدھے طریقوں سے شہریت نہیں لی۔ ایسا کہتے ہوئے ان کی گردن تھوڑی سی بلند ہوجاتی۔ اب انہیں کون یاد دلاتا کہ ان کے شوہر الٹے سیدھے طریقے اختیار کرکے شہریت لے چکے تھے، ریحانہ دوسری بیوی تھیں۔ جس گوری کی وجہ سے شہریت ملی تھی، اُن کے شوہر نے پاسپورٹ ہاتھ میں آتے ہی اسے دھکا دے دیا تھا۔ بچے تو انہوں نے ہونے نہیں دیے۔ وہ اب بھی پاکستانیوں اور اسلام کو کہیں پڑی کوستی ہوگی۔
لندن سے وہ برطانوی پاسپورٹ لے کر پاکستان آگئے۔ اب سے تیس سال پہلے یہ بڑی بات ہوا کرتی تھی، اس لیے جہاں رشتہ دیکھنے جاتے ان کی یا وہ بہانے بہانے شہریت کا ذکر کردیتے، لیکن احتیاط کی خاطر اُس گوری کا ذکر گول کرجاتے جس کو وہ بھاڑ میں جھونک چکے تھے۔ بعد میں بیوی کو معلوم ہو تو کیا بگاڑ لے گی! بیوی بھی وہاں کی رنگینیوں میں محو ہوکر اس لغو بات کو کیوں اہمیت دے گی، وہ بھی لندن جیسے شہر میں! جب بچے کی شادی کی باری آئی تو قلب میں باقی تھوڑی سی پاکستانیت اور اسلام زبان پر آگئے۔
’’شادی ہوگی تو مسلمان سے۔‘‘ ریحانہ نے بیٹے کو اپنا فیصلہ سناتے ہوئے کہا۔
’’امی یہاں تو شادی پسند کی ہوتی ہے، پہلے افیئر ہوتا ہے، وہ بھی بلا ارادہ۔ یہ تو مشکل ہے، آپ اسے تو رہنے دیجیے، ممکن نہیں۔‘‘
’’تمہارے بچپن سے لے کر اب تک میں نے تم سے صرف ایک ہی خواہش کی، اسے بھی نہیں مان سکتے؟‘‘ ان کا لہجہ دھیما تھا۔ آپ کو معلوم ہے کہ اگر بچے شکایت کردیں تو پھر تھانے کی ہوا کھانی پڑتی ہے۔
وہ خوب جانتی تھیں کہ اگر انہوں نے سختی کی تو ایک اولڈ ہوم ان کے بڑھاپے کا حصہ ہوگا۔
’’میرے سارے دوست شادی کرچکے ہیں، اس پانچ سال کے عرصے میں 6 دوستوں کی شادیاں ہوئی ہیں، میری شادی میں تاخیر ہورہی ہے، گرل فرینڈ تو ہوچکیں۔‘‘ بیٹا جواب دیتا۔
’’دوستوں کا زیادہ ذکر نہ کرو، ان میں سے چار کی طلاق ہوچکی ہیں۔‘‘ وہ اپنے لہجے کی لجاجت کا خیال رکھتیں۔
’’تو کیا ہوا امی، اتنا لمبا عرصہ آپ کے زمانے کے لوگ ہی ساتھ رہتے تھے، اب کوئی کسی کا دستِ نگر نہیں، سب اپنے پائوں پر کھڑے ہیں۔ آپ کو معلوم ہے کہ زیادہ طلاقیں عورتوں کے مطالبے پر ہوتی ہیں۔ آپ کے اسلام نے تو اس بات کی اجازت دی ہے ناں۔‘‘ بیٹے کا لہجہ درشت ہوجاتا۔
’’ناں بیٹا ایسے خیالات نہ رکھو۔‘‘
’’امی اس میں حرج ہی کیا ہے! آپ کو اپنی سوچ بدلنے کی بہت ضرورت ہے۔‘‘
ایک دن بیٹے نے انہیں خوش خبری سنائی کہ ان دنوں ایک مسلمان لڑکی سے دوستی ہوگئی ہے اور شادی کا ارادہ بھی کرلیا ہے۔ ریحانہ خوش ہوگئیں۔
سوالات ذہن میں اترنے لگے… شکل و صورت کیسی ہے، باپ کیا کرتا ہے، بہن بھائی کتنے ہیں؟ وہ روایتی پاکستانی ماں تھیں۔
’’باپ کی Wine کی دکان ہے، ماں بھی Help کرتی ہے۔‘‘
’’اور لڑکی…؟‘‘ انہوں نے اپنے اتھل پتھل ہوتے ہوئے دل کو سنبھالنے کی کوشش کرتے ہوئے کہا۔
’’وہ Nutritionist ہے۔ آپ نے نام نہیں پوچھا، بتا دیتا ہوں، بہت پیارا نام ہے جولی۔‘‘
بیٹے نے گھر کا بندوبست پہلے ہی کررکھا تھا۔ شادی کے بعد وہ دونوں وہاںشفٹ ہوگئے۔
وہ دونوں بیٹے کے گھر جانا چاہتے تھے لیکن دونوں میاں بیوی مصروف رہتے۔ کوئی ویک اینڈ آتا تو وہ دور کہیں نکل جاتے۔ عام دنوں میں نائٹ کلب یا دوستوں کی پارٹی ہوجاتی۔ جب وہ گھر میں ہوتی تو کوئی ڈش تیار کرلیتی۔
اس وقت جولی Nutritionist اور اس کی تیاری کے دوران Hygiene کا خاص خیال رکھتی۔ اس میدان میں ماہر جو تھی۔ دونوں میاں بیوی نے ایک دن مشورہ کرکے والدین کو بلا لیا۔ ریحانہ کی طبیعت اس دن گری گری تھی لیکن وہ اس موقع کو ہاتھ سے جانے نہیں دینا چاہتی تھی، فوراً ہامی بھر لی۔ راستے میں پھول اور کیک لیا اور بیٹے کے گھر پہنچ گئے۔
جولی نے میز پر بلایا۔ بہت خوب صورتی سے سجی میز پر سلاد بہت سلیقے سے رکھی تھی اور Cookies جسے ہم پہلے بسکٹ کہا کرتے تھے۔ ’’امی دیکھیں کتنا اچھا کھانا ہے، آپ کے پاکستانی کھانے…‘‘ یہ کہتے ہوئے اس نے اپنی ہنسی کو روکنے کی بھرپور کوشش کی۔
ریحانہ نے بسکٹ کی طرف ہاتھ بڑھائے تو جولی بولی ’’آپ نے ہاتھ نہیں دھوئے، ادھر باتھ روم میں دھو لیجیے۔‘‘ انہوں نے ہاتھ میں اٹھایا بسکٹ پلیٹ میں واپس رکھ دیا۔
واپس آکر بسکٹ اور سلاد جو ان کے حلق میں اٹک رہا تھا، کھایا اور واپس آنے لگے۔ جولی نے کیک انہیں واپس کرتے ہوئے کہا ’’یہ کیک ایک پاکستانی بیکری کا ہے، وہ صفائی کا خیال نہیں رکھتے…‘‘
انہوں نے کیک واپس اٹھا لیا۔ کیک اتنا بھاری نہیں تھا لیکن ان کو پتا نہ کیوں اتنا بھاری لگ رہا تھا کہ اٹھانا مشکل ہوگیا۔

حصہ