ایم سعد
گزشتہ رات آندھی کے ساتھ طوفانی بارش کا جو سلسلہ شروع ہوا وہ رکنے کا نام ہی نہیں لے رہا تھا دوسرے روز بھی بارش کا سلسلہ جاری رہا کئی علاقوں میں بارش کا پانی داخل ہو رہا تھا کئی گائوں زیر آب آچکے تھے ٹی وی مسلسل تباہ کاریوں کی اطلاع دے رہا تھا سیٹھ احمد علی ٹی وی پر خبریں دیکھنے میں مشغول تھے۔ جوں جوں شہر کے گرد نواح کی اطلاعات آ رہی تھیں ان کے کرب میں اضافہ ہو رہا تھا وہ غریب متاثرین کے دکھ کو محسوس کر رہے تھے اور کیوں نہ کرتے ان پر بھی یہ وقت گزرا تھا خبریں دیکھتے دیکھتے وہ ماضی کی طرف لوٹ گئے انہیں گائوں کا احمد علی یاد آگیا۔ ایک صبح احمد علی گھر سے اسکول کے لیے نکلا موسم ابر آلود تھا ہلکی ہلکی پھوار سی پڑ رہی تھی، موسم سرما کا آغاز تھا فضا میںخنکی بڑھ رہی تھی وہ اپنے دوستوں کے ہمراہ اسکول کی طرف رواں دواں تھا اسکول کا فاصلہ خاصا تھا درمیان میں کئی گائوں آتے تھے راستہ بھی ناہموار دشوار گزار مگر طلبِ علم میں وہ منزل کی طرف گامزن۔
انٹرویل کے بعد پھوار نے طوفانی بارش کا روپ ڈھال لیا ابتدا میں بچے بارش سے لطف اندوز ہوتے رہے بارش نے ایسا سما باندھا کہ بچے کیا بڑوں کے دل میں بھی خوف پیدا ہونے لگا اسکول کی چھٹی کر دی گئی مگر طالبِ علم کیا اساتذہ بھی گھروں کو روانہ ہونے کی ہمت نہیں کر پا رہے تھے گزرتے وقت کے ساتھ خوف بڑھتا ہی جا رہا تھا اسکول کے ہیڈ ماسٹر بھی متفکر تھے انہوں نے بچوں اور اساتذہ کو گھروں کی طرف روانہ کرنے کا اہتمام کیا۔
احمد علی گائوں میں داخل ہوا تو وہاں کی فضا ہی بدلی ہوئی تھی اس کا گھر ہی نہیں پورا گائوں ہی زیر آب تھا آج صبح ہی وہ اپنا ہنستا بستا گھر ہی نہیں گائوں چھوڑ کر گیا تھا لیکن سب خس و خاشاک کے مانند بہہ گیا، کھیت کھلیان تباہ جانور ہلاک بڑی تعداد میں انسانی جانوں کے نقصان کے بعد بچے کچے افراد کو قریبی ایک وڈیرے کی اوطاق میں ٹھیرایا گیا تھا وہ صرف احمد علی کے گائوں کے افراد ہی نہیں بلکہ قرب و جوار کے کئی گائوں کے افراد رہائش پذیر تھے احمد علی بھی ہمت سے کام لے کر اوطاق پہنچا وہ ہر چہرے پر نظر ڈالتا ہوا آگے بڑھ رہا تھا اسے تلاش تھی اپنے بابا، ماں اور چھوٹے بھائی بہنوں کی مگر وہاں ان میں کوئی نہیں بلکہ اس کے گائوں کا کوئی فرد نہیں تھا اہمد علی کو بتایا کہ تمہارے گائوں سندر پور کا کوئی فرد نہیں بچا گائوں نشیب میں ہونے کے باعث سب سے پہلے یہ ہی گائوں زیر آب آیا اور یہاں سب سے زیادہ تباہی ہوئی۔ کوئی فرد زندہ نہ بچ سکا۔
احمد علی اس طوفانی بارش میں اپنا سب کچھ گنوا چکا تھا سب کچھ ہار چکا تھا مگر حوصلہ نہیں ہارا۔ نہ رویا نہ چیخا جب ماں باپ بھائی بہن نہیں رہے تو مال موشی کا ماتم کیسا نہ فریاد کی نہ امداد قبول کی گائوں چھوڑ دیا۔ شہر کو ٹھکانا بنایا۔ ملازمت تلاش کی، در بدر خاک چھانی کوئی نو عمر بچے کو کام دینے کو تیار نہیں، جھڑکیاں سہیں، ہمت نہ ہاری چھوٹے موٹے کام کرتے ہوئے زندگی کا سفر جاری رکھا تعلیمی سفر کا بھی آغاز کیا محنتوں اور مشقتوں کا سفر جاری رہا، نشیب و فراز آئے مگر ہمیشہ حوصلے سے کام لیا اور آج وہ شہر کا ایک بڑا کاروباری فرد ہے۔ سیٹھ احمد علی کے روپ میں کاروباری حلقوں میں حکمرانی کر رہا ہے آج کا یہ احمد علی اپنا کل نہیں بھولا۔ بادل دیکھ کر زخم تازہ ہو جاتے ہیں۔
وہ اس کرب کو نہیں بھول سکتا اور نہ ہی بھولنا چاہتا ہے یہ کرب ہی اس کی متاع حیات ہے اور اس متاع کو عبادت میں تبدیل کر دیا ہے سیٹھ احمد علی بارش، طوفان اور حادثات میں ہونے والے نقصانات کے ازالے، افراد کی بہود میں اپنا سرمائے اور وقت ساتھ مصروفِ عمل ہیں۔
پھل اور غذائیت
پھل قدرت کا ایک عظیم تحفہ۔ جو غذائیت کا خزانہ اپنے اندر سموئے ہوئے ہوتے ہیں۔ موسم کے پھلوں کی بات ہی کیا ہے اس کے بے شمار فوائد ہیں پھلوں میں وہ تمام قدرتی اجزا موجود ہوتے ہیں جو انسانی جسم کے لیے ضروری ہیں۔
سیب
یہ ایک توانائی بخش اور لذیز پھل ہے سیب میں فاسفورس، پوٹاشیم، کیلثیم کی وافر مقدار ہوتی ہے اس کے چھلکوں میں وٹامن سی پایا جاتا ہے اپنی غذائیت کے لحاظ سے ایک مقبول پھل ہے، دماغ کے لیے ایک موثر غذا ہے۔
انگور
انگور کا شمار غذائیت سے بھرپور پھلوں میں ہوتا ہے جسامت اور رنگت کے لحاظ سے مختلف اقسام کے ہوتے ہیں چھوٹا انگور کو خشک کرکے کشمش بناتے ہیں اس پھل میں وٹامن اے 80 فیصد جبکہ دیگر اجزا کاربوہائیڈرٹس، پروٹین، کیلثیم، آئرن پایا جاتا ہے یہ خون بکثرت پیدا کرتا ہے، دل، دماغ معدہ اور پھیپھڑوں کے لیے مفید ہے۔