زاہد عباس
گزشتہ ایک سال سے مشتاق کا معمول ہے کہ وہ ہر روز صبح سویرے اُٹھ کر گھر سے نکل جاتا ہے اور دن ڈھلنے کے ساتھ ہی واپس آتا ہے۔ روز صاف ستھرے کپڑے پہن کر جاتے ہوئے مشتاق کسی سرکاری بابو سے کم نہیں دِکھتا، لیکن ہر شام جب وہ گھر واپس آتا ہے تو اس کی حالت بھکاریوں جیسی لگتی ہے۔ ویسے تو وہ باتونی ہے لیکن گزشتہ کچھ عرصے سے اس کی طبیعت میں خاموشی میرے لیے باعثِ حیرت ہے۔ سب سے اہم بات تو یہ ہے کہ اس کا حلقۂ احباب اور رکھ رکھاؤ دیکھ کر نہیں لگتا کہ وہ کوئی ایسا کام کرسکے گا جو اس کی حالت کسی مزدور کی سی کر ڈالے۔ کسی شخص کی ذاتی زندگی میں دخل دینا اچھی بات نہیں، ہر فرد کو اپنی زندگی جینے کی مکمل آزادی ہوتی ہے۔ میرا تعلق چونکہ تھوڑا بہت لکھنے لکھانے سے ہے اس لیے میں کسی نہ کسی خبر کی تلاش میں لگا رہتا ہوں، شاید یہی وجہ ہے کہ اُس روز میں مشتاق کے کام کی کھوج لگانے اس کے پیچھے پیچھے چل پڑا۔ میں سائے کی طرح اس کے ساتھ ساتھ چل رہا تھا، دو سے تین کلومیٹر کی مسافت طے کرنے کے بعد مشتاق ایک ایسی جگہ داخل ہوا جہاں ہر طرف کچرے کے ڈھیر اور ٹوٹی ہوئی دیواروں کا ملبہ تھا۔ وہ جگہ کسی بھی صورت آثارِ قدیمہ سے کم نہ تھی۔ مشتاق کچرے کے ڈھیروں اور تعمیراتی ملبے کو پھلانگتا ایک چارپائی پر جابیٹھا۔ چاروں طرف سناٹا، اس پر اڑتی دھول کے درمیان بیٹھا مشتاق آخرکیا کررہا ہے؟ بس اسی سوال کا جواب لینے میں اُس کے قریب جا پہنچا۔ مجھے وہاں دیکھتے ہی اُس کے اوسان خطا ہوگئے۔ میرے چہرے پر گڑی اُس کی آنکھوں سے اُس کے دل کی کیفیت کا خوب اندازہ ہورہا تھا۔ اس سے پہلے کہ وہ مجھے کچھ کہتا، میں نے اس کے ذہن میں ابھرتے خیالات کا رخ موڑتے ہوئے کہا ’’یہاں سے گزر رہا تھا، تمہیں اس طرف جاتے دیکھ کر پریشان ہوگیا، سوچا کوئی مسئلہ تو نہیں! اسی لیے یہاں چلا آیا، خیریت تو ہے اس ویرانے میں کیوں آئے ہو؟ کوئی پریشانی وغیرہ تو نہیں، سب ٹھیک تو ہے ناں؟‘‘
’’نہیں نہیں کوئی مسئلہ نہیں، میں تو ہر روز ہی یہاں آتا ہوں، دراصل یہ جگہ ہماری ہے‘‘۔ مشتاق نے پُراعتماد انداز میں جواب دیا۔
’’تمہاری جگہ…! کیا مطلب؟‘‘
’’بھائی اس جگہ ہمارا شادی ہال تھا۔ حیرت ہے تمہیں خبر نہیں! یہ شادی ہال تو بہت مشہور تھا، اچھے خاصے چلتے ہوئے شادی ہال کو نام نہاد آپریشن کے دوران مسمار کردیا گیا ہے۔ بس اُسی دن سے زمین کا پہرہ دینے ہر روز آنا پڑتا ہے۔ میں دن میں ہوتا ہوں، جبکہ میرا پارٹنر یہاں رات گزارتا ہے۔‘‘
’’یہاں شادی ہال تھا یہ میرے علم میں ہے، لیکن تمہارا تھا یہ نہیں جانتا۔ مجھے تو اس بات پر حیرانی ہورہی ہے کہ یہ جگہ تمہاری ہے! جبکہ سامنے لگے بورڈ پر لکھی تحریر تو کچھ اور بتا رہی ہے، جس میں صاف طور پر متنبہ کیاگیا ہے کہ یہ زمین سرکار کی ملکیت ہے، اس پر کسی بھی قسم کی تعمیرات غیر قانونی ہے‘‘۔ میں نے مشتاق کو حقائق سے آگاہ کرتے ہوئے کہا۔
’’کون مانتا ہے اور کون سنتا ہے ایسے احکامات کو؟ جو اُن کا کام تھا انہوں نے کیا، جو ہمارا کام ہے ہم کررہے ہیں۔ وقت سدا ایک سا نہیں رہتا، صرف وقت بدلنے کا انتظار ہے، سب پہلے جیسا ہی ہوجائے گا۔ وقتی طور پر تعمیرات مسمار کرنے سے کیا حاصل کرلیا گیا! پورے شہر میں گرائے گئے شادی ہالوں کی زمینیں آج بھی ہم جیسوں کی ہی ملکیت ہیں، اور دوبارہ تعمیرات کے لیے کون سے ہل بیل جوتنے کی ضرورت ہوتی ہے! یہ تو فقط ایک سے دو راتوں کا ہی کام ہے۔ سپریم کورٹ کے حکم کی تعمیل کروانی تھی سو وہ ہوچکی، جہاں تک مستقل طور پر اس حکم کے نفاذ کا تعلق ہے تو اس کے لیے اتنا ہی کہوں گا کہ ہر جگہ کرپٹ لوگ ہوتے ہیں اور ان کی خواہش ہوتی ہے کہ غیر قانونی کام ہوتے رہیں، اس سے ہی ان کے گھروں کا دال دلیا چلتا ہے۔ ویسے بھی شہر کے اکثر مقامات پر یہ کام پھر سے شروع ہوچکا ہے۔ ہمیں سگنل کا انتظار ہے، ایک دیوار ہی تو کھڑی کرنی ہے، جب چاہیں گے کرلیں گے۔‘‘
مشتاق باتوں سے خاصا پُرامید دکھائی دے رہا تھا… اتنا خوداعتماد کہ ایک موقع پر وہ واقعی اس زمین کا مالک دکھائی دیا۔ میں جب تک وہاں رہا، میری خوب خاطر تواضع کی جاتی رہی۔ یوں اس ویرانے میں کئی گھنٹے گزارنے کے بعد میں گھر کی جانب چل پڑا۔
پہلے پہل تو میں بھی یہی سمجھتا رہاکہ غیر قانونی تعمیرات اور شادی ہالوں کے خلاف انتظامیہ کی جانب سے مشن امپوسیبل طرز پر کیا گیا آپریشن سپریم کورٹ کے فیصلے کی روح کے عین مطابق تھا، لیکن مشاق کی باتیں سننے اور عملی طور پر مشاہدہ کرنے کے بعد میرے سامنے کچھ ایسے حقائق آنے لگے جنہوں نے انتظامیہ کی جانب سے غیر قانونی تعمیرات کے خلاف کیے جانے والے اس آپریشن کی قلعی کھول کر رکھ دی۔ کہتے ہیں ’’قبضہ سچا، دعویٰ جھوٹا‘‘… بالکل یہی کچھ کراچی میں مسمار کیے گئے شادی ہالوں کے ساتھ بھی ہوا۔ بظاہر ان غیر قانونی شادی ہالوں کو گرا تو دیا گیا ہے، لیکن قابضین کے خلاف کسی بھی قسم کی کوئی قانونی کارروائی نہ کی گئی، اور نہ ہی قبضہ کی گئی جگہوں کو خالی کروانے کے بعد ایسے قوانین بنائے گئے جن کے تحت سرکاری زمینوں کو تحفظ فراہم کیا جاتا، یا کوئی ایسا اقدام جس کی بدولت یہ سرکاری پلاٹ عوام کے لیے مختص کیے جاتے۔ جب حکمرانوں کے اہداف میں بدنیتی شامل ہو تو اسی قسم کے نتائج برآمد ہوا کرتے ہیں، یعنی گرائی گئی دیواروں کے درمیان قبضہ گروپوں کو تمبو اور قناتیں لگاکر دوبارہ کام شروع کرنے کا پورا موقع فراہم کیا گیا ہے، جہاں پروگرام نہیں ہوسکتے اُن جگہوں کو ڈیکوریشن اور دوسرے سامان کی موجودگی کی آڑ میں انہی قابضین کے قبضے میں رہنے دیا گیا ہے۔ اتنا زیادہ شور شرابہ اور نتیجہ صفر… جو مالک تھے وہی مالک رہے۔ صرف سامنے کی دیوار توڑ کر جس کی تعمیر فقط ایک پروگرام کی آمدن کے عوض دوبارہ کی جاسکتی ہے، نام نہاد آپریشن کی کامیابی کے دعوے کرنے کے ساتھ ساتھ قبضہ گروپ کو دوبارہ کاروبار کرنے کی کھلی چھوٹ دے دی گئی ہے۔ عوام کے لیے سہولیات کا بندوبست اور حکومتی رٹ قائم کرنا حکمرانوں کی نیک نیتی سے منسوب ہوتا ہے، شہر کے کسی بھی علاقے میں جاکر مشاہدہ کرلیں، آپ کو تحریر کردہ صورتِ حال ہی دکھائی دے گی۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ مسمار کیے جانے والے شادی ہالوں کا ملبہ اُس جگہ سے اٹھاکر ان سرکاری زمینوں کو حکومت اپنے کنٹرول میں لے لیتی، یا پھر ان جگہوں کو فوری طور پر پارک یا کسی بھی فلاحی عمارت کا سنگِ بنیاد رکھ کر ہمیشہ کے لیے محفوظ کرلیا جاتا۔ بجائے اس عمل کے ان زمینوں پر ’’یہ زمین سرکار کی ملکیت ہے‘‘ کا بورڈ لگاکر دوبارہ قبضہ گروپوں کے رحم وکرم پر چھوڑ دیا گیا ہے۔
کراچی میں زمینوں پر قبضے کی تاریخ نئی نہیں، کبھی کچی آبادیوں کے نام پر، تو کبھی تھلّوں اور بھینسوں کے باڑوں کی صورت، ہمیشہ یہاں لینڈ مافیا سرگرم رہا ہے۔ لیکن ماضی میں جب جب کراچی کے میدانوں، محلّوں اور سروس روڈ کے کنارے دودھ فروشوں اور بلاک بنانے والوں کی جانب سے قبضے کیے گئے اُس وقت کی حکومتوں نے ان قبضہ گروپوں کو بھینس کالونی لانڈھی اور بلال کالونی کورنگی میں متبادل جگہیں دے کر نہ صرف سرکاری زمینوں سے قبضے ختم کروائے بلکہ واگزار کی گئی سرکاری زمینوں پر کھیلوں کے میدان اور پارک بناکر انہیں محفوظ بھی کیا، لیکن رفتہ رفتہ حالات بدلنے لگے، سرکاری اداروں میں سیاسی مداخلت بڑھنے لگی، سیاسی رشوت کے تحت اداروں میں نااہل اور کرپٹ افراد تعینات کیے جانے لگے، یوں محکمے ریاست سے زیادہ سیاسی جماعتوں کے وفادار بن گئے۔ حیرت کی بات تو یہ ہے کہ ماضیِ قریب میں یہ سارا کام نہ صرف سرکاری سرپرستی میں کیا جاتا رہا بلکہ قبضہ کی گئی زمینوں کو قانونی حیثیت دینے کے لیے قوانین بھی بنائے جاتے رہے، جس کے نتیجے میں اس مافیا کے حوصلے بلند ہوئے اور تھوڑے ہی عرصے کی خاموشی کے بعد یہ مافیا دوبارہ سرگرم دکھائی دینے لگا۔ اِس مرتبہ قبضہ مافیا کی جانب سے شروع ہونے والی سرگرمیاں صرف آبادیوں اور مرکزی شاہراہوں کے لیے ہی نہیں، بلکہ نیا پاکستان بنانے والوں کے لیے بھی بہت بڑا چیلنج ہیں جس سے سختی سے نمٹنا وفاقی حکومت خاص طور پر سندھ حکومت اور پولیس کی ذمے داری ہے۔ لیکن جس طرح لینڈ مافیا دوبارہ سرگرم ہوا ہے، حالات بتا رہے ہیں کہ یہ سلسلہ مزید آگے ہی بڑھے گا اور ہمیشہ کی طرح کچھ عرصے بعد پھر سے یہ گروہ قوت پکڑ لیں گے، جس سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ کراچی میں قانون کی عمل داری نہ ہونے کے برابر ہے۔ انتہائی دکھ کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ لینڈ مافیا و سرکاری زمینوں پر قبضے کے خلاف سپریم کورٹ کے حکم پرکیا جانے والا آپریشن بھی عوام کو کسی بھی قسم کی سہولت دینے اور سرکاری و رفاہی پلاٹوں پر قبضے جیسے پیچیدہ مسائل سے نکالنے میں ناکام ثابت ہوا ہے، جو اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ لینڈ مافیا کے پیچھے نہ صرف طاقتور لوگ ہیں بلکہ ایسے بڑے بڑے چہرے بھی چھپے ہوئے ہیں جن پر ہاتھ ڈالنا انتظامیہ کے بس کی بات نہیں، تاہم اگر ایکشن بلاامتیاز ہو اور کسی سے کوئی رعایت نہ برتی جائے تو اس مسئلے پر قابو پایا جاسکتا ہے۔ جرائم کسی بھی نوعیت کے ہوں جرائم پیشہ افراد کا آپسی رشتہ بڑا مضبوط ہوتا ہے۔ چونکہ شہر کے خراب حالات اور اسٹریٹ کرائمز جیسی بڑھتی وارداتیں پولیس اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے لیے چیلنج ہوا کرتی ہیں اور ان حالات میں انتظامیہ اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کی ساری توجہ شہر کے امن پر مرکوز ہوتی ہے اس لیے یہ صورتِ حال لینڈ مافیا کے لیے آئیڈیل ہوتی ہے۔ قبضہ گروپ چونکہ مالی طور پر بہت مضبوط ہوتے ہیں اس لیے یہ مافیا شہر بھر میں اسٹریٹ کرائمز میں ملوث جتھوں کو پیسے کے بل بوتے پر اپنے ساتھ ملا لیتا ہے جس کے نتیجے میں یہ سارے جرائم پیشہ افراد ایک ایسی ڈوری کا روپ دھار لیتے ہیں جو شہر کو ایک سرے سے دوسرے سرے تک اپنے حصار میں لے لیتی ہے۔ پھر یہ مافیا جب اور جہاں چاہے اسٹریٹ کرائم میں اضافے سمیت امن وامان کی صورت حال کو خراب کرکے انتظامیہ اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کا دھیان شہر کی بگڑتی ہوئی صورت حال کی جانب لگاکر اپنے اہداف حاصل کرنے لگتا ہے۔ یوں جرائم سے وابستہ افراد ایک شہر سے نکل کر صوبائی، یہاں تک کہ بین الاقوامی سطح پر کام کرنے والی تنظیموں اور ملک دشمن ایجنسیوں سے جا ملتے ہیں۔ کراچی میں لوٹ مار، فائرنگ اور سرکاری زمینوں پر قبضے جیسی وارداتوں میں تیزی سے ہوتا اضافہ اس بات کی طرف واضح اشارہ ہے کہ جرائم پیشہ افراد تازہ دم ہوکر ایک مرتبہ پھر نئی توانائیوں کے ساتھ میدانِ عمل میں آچکے ہیں۔ اس بدلتی ہوئی صورت حال میں ہمیں یہ بات یاد رکھنی ہوگی کہ جب جب شہر کے حالات خراب ہوئے یا کیے گئے، دشمن ملک کی ایجنسیوں نے ملکی حالات کو مزید خراب کرنے، دہشت گردی اور معاشی صورتِ حال کو بگاڑنے میں اپنا کردار ادا کرنے کے لیے درجنوں کلبھوشن پاکستان بھیجے۔ ویسے تو پاکستان کے حالات خراب کرنے میں دنیا بھر کی خفیہ ایجنسیاں ملوث رہی ہیں، لیکن اگر دیکھا جائے تو پاکستان کے اندرونی معاملات کی خرابی کے پیچھے بھارتی خفیہ ایجنسی ’را‘ کے ملوث ہونے میں کسی کو کوئی شبہ نہیں ہے۔ پاکستان کو دو ٹکڑے کرنے سے لے کر کالاباغ ڈیم کی مخالفت، فرقہ وارانہ لڑائی، بلوچستان میں علیحدگی پسندوں کی مدد کرنے کے علاوہ قتل وغارت گری، بدامنی اور دہشت گردی پھیلانے والوں کی سرپرستی بھی یہی تنظیم کرتی رہی ہے، اور یہ سلسلہ اب تک جاری ہے۔ ملک کا اہم ترین شہر ہونے کے باعث کراچی کے حالات پورے ملک پر اثرانداز ہوتے ہیں، اس لیے کراچی دہشت گردوں کا اوّلین ہدف بنا ہوا ہے۔ کراچی چونکہ ملک کی معاشی شہہ رگ بھی ہے، اس لیے دشمن قوتیں یہاں کے امن کو برباد کرکے ملک کی شہہ رگ کو کاٹنا چاہتی ہیں، جس کے لیے وہ کبھی سیاست و لسانیت کے نام پر بدامنی پھیلاتی ہیں، تو کبھی مذہب کا استعمال کرتی ہیں۔ ان کی ہمیشہ یہی کوشش رہتی ہے کہ یہاں کے حالات کسی بھی حوالے سے خراب ہوں تاکہ اس کا براہِ راست فائدہ پاکستان دشمن قوتوں کو ہو۔ اس لیے یہ قوتیں ہرگز نہیں چاہتیں کہ کراچی میں کیا جانے والا کوئی بھی آپریشن کامیاب ہو اور یہاں امن قائم ہو۔
دوسری طرف جب تک سندھ حکومت اور رینجرز نے مل کر آپریشن کو کامیاب بنانے کی کوشش کی، اُس وقت تک کراچی میں جرائم کا خاتمہ بہت تیزی کے ساتھ ہوا، لیکن اب ایک تاثر یہ پایا جاتا ہے کہ حکومت اور رینجرز کے مابین کئی معاملات میں ہم آہنگی نہیں پائی جاتی، بلکہ بعض معاملات میں تو یوں لگتا ہے کہ دونوں ایک دوسرے کے مدمقابل کھڑے ہیں۔ شاید یہی وجہ ہے کہ امن دشمن عناصر دونوں کے مابین پائے جانے والے اختلافات کا فائدہ اٹھارہے ہیں۔ کراچی کے امن کو ڈی ریل ہونے سے بچانے کے لیے حکومت اور رینجرز کو مل کر کام کرنا ہوگا، اورکراچی میں امن کا قیام ہی سب کی اوّلین ترجیح ہونی چاہیے۔ میں پہلے ہی تحریر کرچکا ہوں کہ لینڈ مافیا کے رابطے بھی انہی گروہوں سے ہوتے ہیں جو پاکستان میں امن نہیں چاہیتے۔ اس لیے حکومتِ سندھ کو آہنی ہاتھوں سے اس فتنے کو کچلنے کے لیے اقدامات کرنے ہوں گے، تبھی آنے والی نسلوں کو آزاد، خودمختار، پُرامن، خوشحال اور سرسبز پاکستان دیا جاسکتا ہے۔