متوازن غذا ہم سب کے لیے

1738

ڈاکٹر اسلم علیگ
ہرچند کہ انسان کا تعلق کھانے پینے سے روزِ ازل سے ہے، مگر اب بھی اکثر لوگ اپنے روز و شب کا زیادہ تر حصہ اس شش و پنج میں گزارتے ہیں اور یہی مقبولِ عام موضوع گفتگو ہے کہ کیا کھائیں، کیا نہ کھائیں، کس قدر کھائیں، کب کھائیں اور کس طرح کھائیں۔ درحقیقت خورونوش کی عادتیں بیسویں صدی کی مجلسی زندگی کا مرکزی نقطۂ نظر اور نقطۂ عمل بن گئی ہیں۔ وسیع پیمانے پر یہ بحث و مباحثہ ہے اور اس بات پر نمایاں اختلافِ رائے پایا جاتا ہے کہ بہترین غذا کیا ہے۔ اکثر لوگوں کی آرا ’’دو انتہائوں‘‘ پر ہیں جن میں اعتدال کی ضرورت ہے۔
متوازن غذا کا انتخاب کرنے کے لیے معلومات، سلیقہ اور تدابیر ضروری ہیں جو تقریباً ناپید ہیں۔ افسوس کہ صحیح غذا کھانے والے گھرانے شاذ و نادر ہوتے جارہے ہیں۔ اگر غذائیت کے متعلق علم ہو تو دنیا کے مختلف خطوں میں غذائی فرق کے باوجود غذا متوازن و مناسب ہوسکتی ہے، اور یہ دنیا بہت حد تک دکھوں سے خالی بھی۔
صحت و تندرستی کی خاطر غذائی معلومات کے لیے صرف بی اماں کی قدیم دانش یا سہیلیوں کے مشوروں پر اکتفا کرنا کافی اور صحیح نہیں، بلکہ جدید معتبر غذائی معلومات قابلِ اعتماد ذرائع سے حاصل کرنا، انہیں سمجھنا اور ان پر عمل کرنا ازبس ضروری ہے۔ دراصل اپنی اور اپنے پیاروں کی صحت و خوش حالی کا انحصار مقدور کے علاوہ مناسب علم و فکر اور تدابیر پر بھی ہے۔
اچھی غذائیت سوچ سمجھ کر کھانے اور انتخاب کرنے سے حاصل ہوتی ہے، بے سوچے سمجھے جو چیز سامنے آجائے اس کے کھانے سے مسئلہ حل نہیں ہوتا بلکہ پیچیدہ ہوجاتا ہے (یہ بات دلچسپ ہے کہ ایک جاپانی جو کچھ کھاتا ہے اُسے معلوم ہوتا ہے کہ وہ کیا اجزائے غذا کھا رہا ہے)، کیونکہ غذا لذتِ کام و دہن کے علاوہ بھی بہت کچھ ہے۔ افسوس فی زمانہ ہم جدید علم کی روشنی سے استفادہ نہیں کرتے اور ماکولات کو معقولات کے زیرنگیں نہیں کرتے۔ غذائی تعلیم سے نہ خواص بہرہ ور ہیں نہ عوام، نہ یہ طالبانِ طب کی تعلیم کا جزو ہے، بلکہ علاج کے ضمن میں جدید معالجوں کے مطب میں غذائی اصلاحی اقدامات کا ذکر تک نہیں ہوتا، حالانکہ نسخے سے شفایاب ہونے کے لیے دوا کے ساتھ غذا اور ورزش کے لیے بھی ہدایات ہوں جیسا کہ ہمارے اطبائے قدیم کا دستور تھا۔
غذا کے تفصیلی علم سے جسم پر غذا کے اثرات کا علم ہوتا ہے اور رہنمائی ملتی ہے۔ صحیح غذائی تدابیر سے جسم کی صحیح نشوونما ہوتی ہے اور کارکردگی برقرار رہتی ہے۔ قلتِ غذا کے خراب آثار نمودار نہیں ہوتے اور عمر کے ساتھ جو سال خوردگی آتی ہے وہ آہستہ آہستہ آتی ہے۔
غذا کے ضمن میں سلسلۂ تحقیق جاری ہے، کہ علم کا قدم رکتا نہیں جس سے فیض یاب ہوتے رہنا چاہیے۔ یہ تمام معلومات رفتہ رفتہ سال ہا سال کی تگ و دو کے بعد حاصل ہوئی ہیں اور مشاہدے و تجربے کی کسوٹی پر پوری اتری ہیں جن کو صدقِ دل سے سمجھنا اور عمل کرنا قرارِ صحت میں معاون ہوتا ہے۔
یہ بات خوش آئند ہے کہ گزشتہ چند برسوں میں غذا کے متعلق شعور و ادراک میں اضافہ ہوا ہے۔ لوگ کولیسٹرول، معمور چکنائی، خردعناصر غذا اور ریشے دار غذائوں کے متعلق معلومات حاصل کرنا چاہتے ہیں اور اس ضمن میں اقدامات بھی کررہے ہیں۔ اب گھی، مکھن اور بناسپتی گھی کی جگہ پتلے تیلوں کا رواج بڑھ رہا ہے۔ بہرحال گزشتہ صدی میں عوارضِ جدید کی کثرت نے لوگوں کو جو غذائی شعور دیا ہے اس کے باوجود غلط غذا اب بھی بعض سنگین امراض کا اہم سبب ہے، کیونکہ صحیح غذا کیا ہے یہ اب بھی اکثریت کے لیے سربستہ راز ہے، اور غذا کے معتلق معلومات سب لوگوں کی دسترس میں نہیں، حالانکہ جان داروں کو زندہ رہنے کے لیے ہوا اور پانی کے بعد صحیح غذا کی بھی ضرورت ہے۔
ہم وہ ہیں جو ہم کھاتے ہیں۔ آپ کے گھر والے بھی وہی ہوجائیں گے جیسی غذا اُن کو کھلائی جائے گی۔ غذا منبعِ قوت و حیات ہے، اگر سب گھر والوں کو اشتہا انگیز، غذائیت سے بھرپور غذا دی جائے گی تو وہ طاقتور، صحت مند و تندرست اور وزن کے لحاظ سے مناسب رہیں گے۔ صحیح اور متوازن غذا سے بھوک مٹتی ہے، یہ جسم کو ضروری مغزیات فراہم کرتی ہے۔ جسمانی نشوونما، عضلات و اعصاب وغیرہ کی ساخت، بافتوں کی ٹوٹ پھوٹ کی مرمت اور توانائی کے لیے ایندھن مہیا کرتی ہے۔ غذا سے جسمانی افعال و اعمال کو نظم ملتا ہے۔ یہ جسم کے پیچیدہ طریقوں کو برقرار رکھنے، چلانے، کام کرنے، کھیل کود اور جدوجہد میں حصہ لینے کے لیے ضروری ہے۔
صحت افزا غذا سے صحت مند زندگی حاصل ہوتی ہے۔ صحیح غذا سے جسم، دماغ اور ضمیر کی نشوونما ہوتی ہے۔ طولِ حیات کا حصول اور حسِ مزاح کی افزائش ہوتی ہے۔ معاشرتی، خاندانی امن و سکون اور اطمینانِ خاطر نصیب ہوتا ہے۔ گھر، دفتر اور کاروبار میں صلاحیتِ کار بڑھتی ہے، ملک و قوم کا نام دوبالا اور عالمی صورتِ حال میں بہتری ہوتی ہے۔ کھانے کے وقت دلچسپ گفتگو اور کیفیتِ انبساط سے باہمی تعلقات میں گرم جوشی اور آپس کی دوستیاں قائم ہوتی ہیں۔
غذا سے مراد صرف حرارہ شماری یا اشتہاری غذائوں یا طاقت کی ٹکیوں کا شوق و فروغ نہیں، اس سے یہ بھی مطلب نہیں کہ آپ ایسی اشیاء کا استعمال کریں جن کے متعلق کسی نے چلتے چلتے کہہ دیا کہ یہ آپ کے لیے مفید ہیں، ہرچند کہ وہ آپ کو پسند نہ ہوں۔ خاندانی صحت کے لیے غذا پر خرچ کرنا پیسہ لگانے کا سب سے احسن طریقہ ہے جس کے نتائج نہایت دوررس اور فائدہ مند ہوتے ہیں۔
متوازن غذا کے حصول کے لیے علمائے غذا نے غذا کو مندرجہ ذیل چار بنیادی غذائی زمروں میں تقسیم کیا ہے:
(1) روٹی، اناج وغیرہ:
کامل اناج جو بھوسی نکالے بغیر کھائے جائیں، یعنی بغیر چھنے آٹے کی روٹیاں، بادامی (برائون) چاول (مشینی چکی میں پسائی کے وقت اناج کا بیرونی چھلکا جس میں حیاتین و معدنیات ہوتے ہیں، ضائع ہوجاتا ہے)، یہ زمرۂ غذا کاربیدہ، لحمیات، اجزائے حیاتین ب مرکب (تھایامین اور رائبو فلیون)، فولاد اور توانائی کا انمول منبع ہے۔ اگر اناج مناسب مقدار میں شاملِ غذا نہیں ہوں گے تو ضروری مغزیات (غذائی اجزا) کی قلت ہوجائے گی۔ تین چار چپاتیاں یا چاول دو سے تین پیالی، پکا ہوا دلیا دو سے تین پیالی یا خشک دلیا 120 گرام۔
(2) ترکاریاں، سبزیاں اور پھل:
پودوں سے حاصل ہونے والی ترکاریاں اور پھل انسان کی قدرتی غذائیں ہیں۔ انسان اور پودے بعض لحاظ سے ایک دوسرے کے لیے جس طرح لازم و ملزوم ہوگئے ہیں وہ حیرت انگیز و دلچسپ ہے۔ یعنی کاربن ڈائی آکسائیڈ، فضلہ اور یوریا کا انسان سے اخراج اور پودے کے لیے مفید ہونا۔
تازہ ترکاریوں اور پھلوں میں وہ تمام حیاتین و معدنیات موجود ہیں جو جسم کی نشوونما اور افعال کے لیے ضروری ہیں۔ ترکاریوں سے کثیر مقدار میں فولاد، کیلشیم، حیاتین الف، تھایامین، رائبو فلیون، حیاتین ھ اور ریشہ ملتا ہے۔ پتوں والی سبزیاں حیاتین ب مرکب اور معدنیات کے لحاظ سے پُرثروت ہیں، ان سے وزن بھی نہیں بڑھتا۔ بعض غذائوں مثلاً نارنگی سے حیاتین ج، گاجروں سے حیاتین الف، شاخ گوبھی (بروکولی) سے حیاتین الف اور حیاتین ج خوب ملتی ہے۔ کچی بندگوبھی، سلاد، ٹماٹر سے حیاتین الف، حیاتین ج، کیلشیم اور فولاد ملتا ہے۔ سلاد حیاتین الف، حیاتین ب 1، حیاتین ب2 اور پوٹاشیم کا اچھا منبع ہے جس سے عفونتوں کی مزاحمت، جلد کی صحت بہتر اور دانتوں کی نشوونما اور احساسِ بہتری ہوتا ہے۔ ریشے کی مقدار سب ترکاریوں اور پھلوں میں مختلف ہوتی ہے۔ ریشے سے آنتوں کے فعل میں باقاعدگی ہوتی ہے۔
ترکاریاں، سبزیاں اور پھل مختلف بلکہ ہفت رنگ ہوں اور پتوں والی ایک کچی سبزی بھی روزانہ کھائی جائے۔ سبز اور زرد ترکاریاں ہر روز کھانے کا ضروری حصہ ہوں۔ سبز ترکاری، پتوں والی سبزیوں، سبز مرچوں، بند گوبھی، ٹماٹر اور لیمونی پھلوں سے حیاتین ج وغیرہ حاصل ہوتی ہے۔ زرد ترکاریوں، گاجروں، آم، پپیتے سے حیاتین الف ملتی ہے۔ ہر قسم کی ترکاریاں مثلاً شلجم، پالک، میتھی، مولی، کدو، چقندر، پیاز، لہسن، بینگن، کھیرا، ککڑی، بھنڈی، سبز پیاز، ٹنڈے، توری کھانا چاہئیں۔
آلو بھی ترکاریوں میں شامل ہے اور ایک اچھی غذا ہے جس میں حرارے کم ہوتے ہیں اور اس سے مختلف مغزیات مثلاً حیاتین ج، حیاتین ب1، پوٹاشیم، لحمیات اور کاربیدہ حاصل ہوتے ہیں۔ آلو ابلی ہوئی، سنکی ہوئی صورت میں کھایا جائے تو بہتر ہے۔ تلے ہوئے آلو کے قتلوں میں حرارے زیادہ اور بقیہ مغزیات کم ہوسکتے ہیں۔ فعال بچوں اور بڑوں کے لیے روزانہ ایک آلو ضروری ہے۔ شکرقندی بھی آلو کی طرح ہے۔ سبزیاں ترکاریاں تازہ ہوں جن کو چبانے میں وقت نہ لگے۔ بعض پھلوں کو بھی ترکاریوں کی طرح پکایا جاسکتا ہے۔ ترکاریوں کو کترا جاسکتا ہے، بھرتا بنایا جاسکتا ہے۔ ترکاریاں کچی، پکی ہوئی، ڈبابند اور یخ بستہ کیفیت میں کھائی جاسکتی ہیں۔ ترکاریاں ہلکی آنچ پر پکائی جائیں، نمک نہ ڈالا جائے۔
پھل غذا کا ذائقے دار اور مفید حصہ ہیں، ہر قسم کے پھل سیب، انگور، آم، ناشپاتی، آڑو، لیمونی پھل، انار، انناس، کیلے، تربوز، خربوزے کھائے جائیں۔ شکرقندی، کھجور، گنے، سنگھاڑے، بیر، کشمش اور پھوٹ کا شمار پھلوں میں نہیں ہوتا مگر ان کو بھی کھانا چاہیے۔ تازہ پھل بہتر ہیں مگر یہ دستیاب نہ ہوں تو خشک یا ڈبوں میں بند استعمال کیے جائیں، مگر ان میں شامل سفید چینی سے احتراز کیا جائے۔ پھلوں میں قدرتی شکر، حیاتین (خصوصاً ج)، معدنیات (خصوصاً پوٹاشیم) ہوتے ہیں۔
خشک میوے اخروٹ، بادام، چلغوزے وغیرہ بھی کھانے چاہئیں، ان سے کاربیدہ روغنیات اور حیاتین حاصل ہوتے ہیں۔ گو ان میں کولیسٹرول نہیں ہوتی مگر روغنیات کی مقدار کثیر ہے، اس لیے کم مقدار میں کھائے جائیں۔ جو افراد گوشت، دودھ اور انڈے استعمال نہیں کرتے اُن کے لیے خشک میوے کھانا ضروری ہے۔ پھلوں اور ترکاریوں سے زیادہ حرارے حاصل نہیں ہوتے، اس لیے یہ وزن کم کرنے والوں کے لیے مقبول غذائیں ہیں۔ نہایت شیریں پھل مثلاً آم، شریفہ، کھجور، شہتوت میں شکر کی مقدار کثیر ہوتی ہے اور ان کے کھانے سے وزن بڑھ سکتا ہے، اس لیے یہ ہاتھ روک کر کھائیں۔ سبزی خوری سے بھوک زیادہ لگتی ہے اور ابتداً کمزوری کا احساس ہوتا ہے، مگر یہ عارضی ہوتی ہے۔ ترکاریاں دو پیالی یا آلو چار، پھل دو پیالی، چکوترہ ایک یا نصف، یا نارنگی چار عدد، تقریباً 400 سے 600 گرام ہفت رنگ ترکاریاں اور پھل۔
(3) دودھ دہی، پنیر (شیرخانے کی اشیاء):
اس زمرۂ غذا سے کیلشیم، حیاتین ب مرکب کے بعض اجزا (رائبو فلیون، حیاتین ب12)، میگنیزیم، حیاتین الف د، بعض اعلیٰ قسم کی لحمیات، شکر شیر (لیکوز) حاصل ہوتے ہیں۔ ایک پیالی دودھ میں خاصا کیلشیم (332 ملی گرام)، حیاتین الف، حیاتین د، حیاتین ب 12، رائبو فلیون، تین چمچی لیکٹوز اور لحمیات (روزانہ کی ضرورت کا پانچواں حصہ) حاصل ہوجاتی ہیں، توانائی بھی حاصل ہوتی ہے۔ یہ تو سب کو علم ہے کہ بچوں کے لیے دودھ وغیرہ کا کوئی بدل نہیں، مگر بالغ انسانوں میں بھی ہڈیوں کی صحت کے لیے دودھ ضروری ہے۔ دودھ کے بجائے دہی، پنیر، لسی بھی استعمال کیے جاسکتے ہیں۔ ڈبے کا خشک دودھ بھی پانی ملا کر استعمال کیا جاسکتا ہے۔ ایک بچے کو تین چار پیالی اور ایک بڑے آدمی کو روزانہ ایک دو پیالی دودھ چاہیے۔ بستہ (کنڈینسڈ) دودھ اور برف ملائی میں ضرورت سے زیادہ شکر ہوسکتی ہے۔
ہرچند کہ دودھ، دہی وغیرہ میں کولیسٹرول ہوتی ہے، مگر کم چکنائی دار دودھ یا اس سے بنائے گئے دہی اور گھریلو پنیر میں چربی اور کولیسٹرول کم ہوتی ہے اور اس سے توانائی و مغزیات بھی خوب حاصل ہوجاتے ہیں۔ اگر دودھ میں چکنائی ایک سے دو فیصد ہے تو درست ہے۔ بعض ایشیائی، افریقی افراد دودھ کو برداشت نہیں کرسکتے مگر دہی لے سکتے ہیں۔ اگر اس زمرۂ غذا کو استعمال نہ کیا جائے گا تو کیلشیم کے حصول کے لیے عطار (کیمسٹ) کی دکان سے کیلشیم کی ٹکیاں لینا پڑیں گی جو ظاہر ہے غریب بدل ہے، کہ دودھ سے کیلشیم کے علاوہ دیگر مغزیات بھی ملتے ہیں۔
دودھ دو پیالی (نصف لیٹر) یا دہی دو پیالی، یا گھریلو پنیر چار پیالی، یا برف ملائی تین پیالی۔ بچے اور حاملہ رضاعی خواتین اس مقدار سے زیادہ لے سکتے ہیں۔
(4) گوشت، مرغی، مچھلی، انڈے، دالیں، پھلیاں:
گوشت، مرغی، مچھلی نہ صرف لحمیات و روغنیات کا اہم منبع ہیں بلکہ ان سے فولاد، حیاتین ب1، (تھایامین)، نایاسین اور فاسفورس ملتے ہیں۔ عضوی گوشت (کلیجی، گردے، مغز، تلی، دل) میں معمور چکنائی، کولیسٹرول اور یورک تیزاب کثیر مقدار میں ہوتے ہیں۔ قدرے گوشت کھانے میں کوئی مضائقہ نہیں۔ فی زمانہ پرندوں اور مچھلی کے روکھے سفید گوشت کو ترجیح دی جاتی ہے۔ پرندوں کے گوشت میں چکنائی کم ہوتی ہے، مچھلی کی چکنائی نہایت مفید ہے۔
مچھلی میں لحمیات، حیاتین د، غیر معمور چکنائی، ضروری اومیگا 3 روغنی تیزاب ہیں (جو تحفظِ قلب میں مفید ہیں)۔ انڈے مختلف النوع مغزیات کا منبع ہیں۔ ایک انڈے میں 7 گرام لحمیات ہوتی ہیں۔ زردی میں کولیسٹرول 240 گرام ہے (ان کی کثرتِ استعمال خون میں افراطِ کولیسٹرول کرکے عارضۂ رگِ دل کا باعث ہوسکتی ہے)۔ عام صحت مند بالغ آدمی ہفتے میں دو انڈے کھا سکتا ہے اور سفیدیاں حسبِ خواہش۔ جو افراد عارضۂ رگِ دل میں مبتلا ہیں وہ انڈوں کی زردی استعمال نہ کریں۔
لحمیات کے لیے گوشت کا متبادل دالیں اور پھلیاں ہیں جن سے کاربیدہ، معدنیات (فولاد، پوٹاشیم وغیرہ) اور حیاتین (تھایامین وغیرہ) بھی مل جاتے ہیں۔ مونگ، ماش، مسور کی دالیں اورت مٹر شوق سے کھائے جائیں۔ دالوں، پھلیوں کو روٹی یا چاول کے ساتھ کھانا چاہیے تاکہ لحمیات کے امینو ترشے کامل حالت میں حاصل ہوجائیں۔ جو لوگ مطلق سبزی خور ہیں وہ دالیں، پھلیاں، مٹر، سویابین اور مونگ پھلی کے مکھن کے ساتھ دودھ، دہی، پنیر لیں گے تو ضروری امینوترشے حاصل ہوجائیں گے اور لحمیاتی قلت نہیں ہوگی۔ ایک پیالی پھلیوں یا تین چوتھائی پیالی پنیر سے روزانہ کے گوشت کی کمی پوری ہوسکتی ہے۔ گوشت 120 سے 180 گرام، یا اس کے متبادل انڈے 4 سے 6 تک، یا دالیں وغیرہ 3 پیالی پکی ہوئی، یا بیج ایک پیالی، خشک میوے ڈیڑھ پیالی۔
مختصر یہ کہ غذا حراروں کے لحاظ سے درست اور لحمیات کاربیدہ، روغنیات حیاتین و معدنیات کے اعتبار سے مناسب ہو۔ اس میں ریشہ اور پانی بھی بہ کفایت ہو۔ ماضی میں حراروں کے درج ذیل فیصد تجویز کیے جاتے تھے: کاربیدہ 45 فیصد، روغنیات 43 فیصد (معمور چکنائی کی کثیر مقدار)، لحمیات 12 فیصد (زیادہ تر حیوانی منابع سے)، کولیسٹرول 400 ملی گرام روزانہ (جس کی غالباً ضرورت نہیں)۔
یہ ترکیبِ غذا اب درست نہیں سمجھی جاتی۔ آج کل کاربیدہ 65 سے 70 فیصد، روغنیات 10 سے 20 فیصد (زیادہ تر غیر معمور پتلے، سبزی جاتی تیل جس میں خصوصاً واحد غیر معمور روغنِ کینولا یا روغنِ زیتون ضرور ہو)، لحمیات 10 سے 15 فیصد (جن میں حیوانی پر سبزیجاتی منابع غالب ہوں اور حیوانی لحمیات میں مچھلی اور پرندوں کو ترجیح دی جائے)۔ غذا میں کولیسٹرول کی ضرورت نہیں کہ اندرونِ جسم ضرورت سے زیادہ (ایک گرام روزانہ) ساخت ہوجاتی ہے، اور نہ معمور چکنائی، کہ یہ بھی ضرورت سے زیادہ اندرون جسم پیدا ہوتی ہے، ریشہ 35 سے 40 گرام روزانہ ہو۔

حصہ