شریکِ مطالعہ

1121

نعیم الرحمن
شمیم حنفی بھارت کے مشہور ادیب ،نقاد، کالم نگار، ڈراما نگار اور مترجم ہیں۔ شمیم حنفی 1938ء میں سلطان پور یوپی میں پیدا ہوئے۔ الٰہ آباد یونیورسٹی سے انہوں نے ایم اے اردو اور ڈاکٹریٹ کی سند حاصل کی۔ فراق گھورکھپوری، احتشام حسین، اعجاز حسین اور ستیش چندردیب جیسے صاحبانِِ علم وفضل ان کے اساتذہ میں شامل رہے۔ چھ سال علی گڑھ یونیورسٹی میں تعلیم و تدریس سے منسلک رہنے کے بعد شمیم حنفی جامعہ ملیہ اسلامیہ سے وابستہ ہوگئے جہاں 2003ء میں ریٹائرمنٹ تک پڑھاتے رہے۔ اس کے بعد اسی ادارے سے پرفیسر ایمریطس کی حیثیت سے اب تک منسلک ہیں۔ شمیم حنفی نے تنقید کے ساتھ خاکے، ڈرامے اور کالم بھی لکھے۔ تراجم کیے اورکئی کتب مرتب بھی کیا۔ ان کا شمار اردو کے نامور نقادوں میں کیا جاتا ہے۔ کتاب انتہائی خوب صورت اور عمدہ کاغذ پر چھپی ہے۔ 270 صفحات کی صوری و معنوی حسن سے آراستہ کتاب کی قیمت 695 روپے ہے۔
شمیم حنفی کے لہجے کی شائستگی آج کے دور میں ایک الگ کیفیت رکھتی ہے۔ ان کی ادبی ترجیحات متنوع ہیں۔ وہ نقاد بھی ہیں، شاعربھی، ڈراما نگار بھی اور خاکہ نویس بھی۔ بدلتے سماج کے نبض شناس بھی۔ ’’ہم نفسوں کی بزم میں‘‘ ان کے ایسے مضامین کا مجموعہ ہے جنہیں بیسویں صدی کی ادبی شخصیتوں کے خاکے بھی قرار دیا جا سکتا ہے اور ان کی ادبی کاوشوں اور میلانات کا ناقدانہ جائزہ بھی۔ ان کی نثر بڑی جچی تلی ہے، نہ مستعار لیے ہوئے ادبی نظریوں اور اصطلاحوں سے بوجھل، نہ مجض رنگیں بیانی کا کھوکھلا سہارا لیتی ہوئی۔ شمیم حنفی نے بالعموم ان فن کاروں کے بارے میں لکھا ہے جن سے وہ بار بار یا کبھی کبھار مل چکے ہیں۔ اس طویل یا مختصر ہم دمی کا احساس اس کتاب کو زندگی کی آب و تاب عطا کرتا ہے۔ راجندر سنگھ بیدی، فراق گورکھپوری، آل احمد سرور، احتشام حسین، انتظار حسین، احمد مشتاق، ظفر اقبال، خالدہ حسین، خلیل الرحمٰن اعظمی، صلاح الدین محمود، زاہد ڈار، بلراج مین را اور کے علاوہ بہت سوں سے شمیم حنفی کی وساطت سے اس کتاب میں ملاقات ہوسکتی ہے ۔’’ہم نفسوں کی بزم میں‘‘ بیسویں صدی کی بہت سی دل پذیر اور سرگرم ادبی شخصیات کاباغ و بہارمرقع ہے۔
انتظار حسین کا ان کے بارے میں کہنا ہے کہ ’’شمیم حنفی کی تنقیدکے ساتھ ایک دقت یہ ہے کہ وہ نخالص ادبی تنقید نہیں ہوتی۔ خیر ترقی پسند نقاد تو اس نظریے کے ساتھ اپنے مطالعہ کا آغاز کرتا ہے کہ ادب کو عصری حقیقتوں کی کسوٹی پر پرکھ کر دیکھنا چاہیے۔ سو اس تنقید میں عصری حقیقتیں، جیسا اس نے انہیں سمجھا تھا، غالب نظر آتی تھیں۔ ادبی معیارکا حوالہ آیا آیا نہ آیا نہ آیا۔ شمیم حنفی نے ایسا کوئی نظریہ اپنی تنقیدکے لیے وضع نہیں کیا مگر ہوتا یوں ہے کہ جب وہ ادبی مطالعہ کرنے بیٹھتے ہیں تو بہت سی عصری حقیقتیں، کچھ تاریخ، کچھ تہذیب، غرض بہت سے معاملات و مسائل اس مطالعہ میں لپٹے چلے آتے ہیں۔‘‘
’’ہم نفسوں کی بزم میں‘‘ کے دو حصے ہیں۔ ’’رفتیدولے نہ ازدلِ ما‘‘ کے زیر عنوان پہلے حصے میں بائیس رفتگان کا ذکرِ خیر ہے جن میں سید معین الدین احمد قادری، فراق گورکھپوری، احتشام حسین کی تنقیدی شخصیت، آل احمد سرورصاحب، عابد صاحب کی یاد میں، پروفیسر محمد مجیب، مالک رام صاحب، ڈاکٹر آفتاب احمد، راجندر سنگھ بیدی، خواجہ احمد عباس، دیوندرستیارتھی، ذوقی صاحب، اظہر علی فاروقی، تاباں صاحب، میکش اکبر آبادی، شکیب جلالی، خلیل الرحمن اعظمی، وحید اختر، صلاح الدین محمود، سریندر پرکاش، غیاث احمد گدی اور میں ’’اک کرن تھا شبِ تار سے نکل آیا‘‘ کے نام سے بھارتی شاعر عرفان صدیقی کے خاکے شامل ہیں۔
’’شامِ دوستاں آباد‘‘ کے نام سے دوسرے حصے میں گیارہ ہم عصر ادیبوں اور شاعروں کا ذکر کیا گیا ہے جن میں سے بعض اب عالمِ جاوداں کوچ کر چکے ہیں۔ اس حصے میں انتظار حسین، دیوندراسر، زاہد ڈار، احمد مشتاق، احمد فراز، ظفر اقبال،چودھری محمد نعیم، خالدہ حسین، اختر احسن، بلراج مین را اور رام چندرن کے بھرپور خاکے تحریر کیے ہیں۔
’’اے ہم نفسانِ ما‘‘ کے زیرِ عنوان پیش لفظ میں شمیم حنفی لکھتے ہیں کہ ’’ہم سفروں کے درمیان‘‘ کے بعد معاصرین کے بارے میں شخصی، تاثراتی، نیم تنقیدی قسم کی تحریروں کا یہ دوسرا مجموعہ ہے۔ اس کتاب کا آغاز ان خاکہ نما تحریروں سے ہوتا ہے جو زیادہ تر ’’کتاب نما‘‘ کے مدیر شاہد علی خان کی فرمائش پر لکھی گئیں۔ ان کی اشاعت کا سلسلہ اب سے تقریباً پچیس سال پہلے کچھ تک جاری رہا پھر میری مصروفیتوں کے باعث ختم ہوگیا۔ اس وقت تین‘ چار کو چھوڑ ک، ہماری انجمن میں یہ لوگ موجود تھے اور ان کی دَم سے بڑی رونق تھی۔ افسوس ایک ایک کر کے یہ رخصت ہوگئے۔ مجھے خیالوں کی طرح انسانوں سے بھی گہری دل چسپی رہی ہے۔ یہ تحریریں، بالعموم اسی دل چسپی کا نتیجہ ہیں۔ اخباروں کے لیے میں نے بہت سے معروف اور گم نام لوگوں کے بارے میں سو سے زیادہ کالم لکھے۔ کچھ ہندی میں، بیشتر اردو میں۔ یہ کالم الگ ہیں اور اس کتاب میں شامل نہیں کیے گئے۔ ’’ہم نفسوںکی بزم میں‘‘ کا دوسرا حصہ ’’شامِ دوستاں آباد‘‘ ان ہم عصر ادیبوں سے متعلق ہے جن کا ذہنی اور تخلیقی سفر ابھی جاری ہے۔ اس حصے میں بہت کم مضامین آسکے۔ لہٰذا اس سلسلے کا ایک تیسرا مجموعہ بھی ابھی زیرِ ترتیب ہے۔ ’’شیشہ گروں کے شہر میں‘‘ کے عنوان سے۔
کتاب کا پہلا خاکہ شمیم حنفی کے استاد سید معین الدین احمد قادری پر ہے۔ لکھتے ہیں ’’میرے استاد، سید معین الدین احمد قادری بھی اس راستے سے روزگزرنے والوں میں تھے۔ لانبا قد، اپنی درازی کے سبب قدرے جھکا ہوا، سر پر لمبے سیاہ بال، ترشی ہوئی داڑھی، سپید رنگت زردی کی طرف مائل، حیدرآبادی شیروانی اور چوڑے پائیچے کے پاجامے میں ملبوس، سویرے سے رات تک وہ اس راستے سے کئی بار گزرتے۔ سر جھکائے اپنے آپ سے باتیں کرتے۔ ان کی رہائش اسی سڑک سے ملحق ایک گلی میں تھی اورگھر سے اسکول تک جانے کا یہی راستہ تھا۔ ان دنوں ہر شام میونسپلٹی کی گاڑی سڑک پرچھڑکاؤ کرتی گزرتی تھی۔ مغرب کی اذان سے پہلے امام دین نامی شخص کاندھے پر بانس کی سیڑھی سنبھالے، ہاتھ میں مٹی کے تیل کا کنستر اور چمنی صاف کرنے کا کپڑا لیے آتا اور سڑک کنارے ستونوں پر رکھی لالٹینیں جلاتا۔ کمزور پیلی روشنی راستہ دکھانے کے لیے کافی تھی۔ پھر اس روشنی میں رات کا وقار بھی قائم رہتا۔ وقفے وقفے سے کسی گشتی خوانچہ فروش یا کبابیے کی صدا، ایک معینہ وقت پر حلوے کے تھال کو کفگیر سے کھنکاتی ہوئی گت پر بوڑھے پنچم کی پاٹ دار آواز‘ جسے سنتے ہی بچوں کے چہرے کھِل اٹھتے تھے‘ باقی سناٹا۔ تھوڑی بہت رونق بس اس گھڑی دکھائی دیتی جب فیض آباد اور الہٰ آبادکی ریل گاڑی سے اترتی سواریاں یکوں پر گزرتیں۔ گھوڑوں کی ٹاپیں اور ان کی گردنوں سے لٹکی گھنٹیوں کی گونج بھی اس سڑک کے خاموش وجود کا حصہ محسوس ہوتی تھی۔
کیا دل کش انداز سے قادری صاحب کا سراپا اور اس دور کے پورے ماحول کو شمیم حنفی صاحب نے بیان کیا ہے کہ قاری کی نظر میں تصویر سی کھنچ جاتی ہے۔ ان کی دل کش اور پُر اثر نثر پر شاعری کا گمان ہوتا ہے۔ اکثر خاکوں کا آغازکیا خوب نثری شاعری میں کیا ہے۔آل احمد سرور کا ابتدائیہ دیکھیں۔
’’برف باری دیر سے ہو رہی تھی‘ جہاں تک نگاہ جاتی تھی آسمان سے سفید پتیاں سی گرتی دکھائی دیتی تھیں۔ لوگ گھروں میں ٹھٹھرے سمٹے بیٹھے تھے۔ دور اور پاس کے سارے پربتوں پر ایک دھند سی چھائی ہوئی۔ سامنے سڑک پر اِکا دُکا راہگیر چھتری سنبھالے، فرن میں ملفوف تیز تیز قدموں سے چلتا، پل بھرکے لیے نظر آتا پھر گُم ہو جاتا۔ کمرے میں بخاری جل رہی تھی۔ اندر باہرکے درجہ حرارت میں فرق کا اندازہ اس وقت ہوا جب ہم برآمدے میں آئے۔ سرور صاحب نے سوٹ پر اُوور کوٹ چڑھایا اور گھڑی دیکھتے ہوئے بولے ’’اب چلنا چاہیے۔‘‘ اقبال انسٹی ٹیوٹ کی طرف سے یومِ فانی کی تقریب تھی‘ میں نے دبی زبان سے بس اتناکہا ’’اس موسم میں کتنے لوگ آئے ہوں گے؟‘‘ سرور صاحب مسکرائے، بڑی نفاست کے ساتھ پان کی گلوری منہ میں رکھی‘ ایک اچٹتی سی نظر آسمان پر، پھر اسی طمانیت کے ساتھ تقاضا کہ ’’اب چلنا چاہیے۔ ہم تو وقت پر وہاں موجود ہوں۔‘‘
کس خوب صورتی سے ارد گرد کا ماحول، موسم اور مجموعی صورت حال پیش کی۔ اور ان حالات میں بھی سرورصاحب کی اصول پرستی اور اپنی ذمے داری کے احساس کو اجاگر کر دیا۔ اس پیرا گراف میں ان کی شخصیت کا عطر قاری کے سامنے آگیا۔ آگے کا باقی خاکہ اسی کی تفصیلات پرمبنی ہے۔عابد حسین کے خاکے ’’عابد صاحب کی یاد میں‘‘ کا آغاز کچھ اس طرح ہوتا ہے۔
’’کسی کھوئے ہوئے لمحے یا تجربے کی یاد، ایک طرح کی بازیافت ہے۔ پھر اگر اس لمحے یا تجربے کا حصار کسی ایسے فرد کے گرد پھیلا ہوا ہو، جس سے بچھڑنے کا احساس آپ کی اپنی ذات کے ایک حصے سے محرومی کا احساس بن جائے تو ایسی صورت حال میں اسے یاد کرنا اپنے آپ کو پانے کے مترادف ہے۔ اور اپنا توحال یہ ہے کہ یادوں ہی کے وسیلے سے مجھ پر اپنے حال کا، یااس وقت کا جس نے مجھے گھیر رکھا ہے، ظہور ہوتا ہے۔ آنکھوں میں بسے ہوئے کتنے منظر اجڑے اورکتنی بستیاں تاراج ہوئیں، مگر یادوں کا شہر جوں کا توںآباد ہے۔ اس آبادی میں مجھے کھوئے ہوؤں کا سراغ بھی ملتا ہے اور اپنا بھی کہ میرے لیے آپ اپنا وجود عبارت ہے ان لمحوں اور تجربوں اور موسموں اور چہروں سے جو گزر گئے پھر بھی سامنے ہیں۔ عابد صاحب کی یاد کے ساتھ دل میں اس احساس کا در آنا ایک لحاظ سے آپ بیتی کا بیان ہے۔ اور آدمی جب دوسروں کی بات کرتا ہے تو اس بات کا مفہوم بہر حال اس کے اپنے شخصی رابطے ہی کے حوالے سے متعین ہوتا ہے۔ میرے لیے جگ بیتی اور آپ بیتی میں کبھی وہ فاصلے حائل نہ رہے جو بظاہر دکھائی دیتے ہیں۔‘‘
اس ایک پیراگراف میں شمیم حنفی نے عابدصاحب سے اپنا تعلقِ خاطر اور دلی جذبات بیان کردیے ہیں ساتھ ہی اپنے احساسات بھی واضح کیے ہیں۔ یہ دل کش اندازِ بیان پوری کتاب میںموجود ہے۔ جس کی وجہ سے قاری کی توجہ ہٹ نہیں پاتی اور وہ ایک کے بعد دوسرے خاکے میں گُم ہو جاتا ہے۔ عابد صاحب کے خاکے ہی میں وہ لکھتے ہیں۔
’’عابد صاحب سے پہلے، ہندوستان کے مسلم دانشوروں نے جو عظیم الشان خدمتیں انجام دیں اور قومی سطح پر ان کی شخصیتیں جس بے مثال درد مندی اور اخلاص سے عبارت رہیں، وہ مسلم ہیں۔ عابد صاحب ان کے معترف اور مداح بھی تھے اورعارف بھی۔ لیکن کسی بھی گمشدہ شبِ چراغ کی تلاش اور دریافت انہوں نے اس طرح نہیں کی کہ اسے اپنے سفرکی اکیلی متاع سمجھ بیٹھیں۔ ہرروشنی بس تھوڑی دور تک ان کے ساتھ رہی کہ اس کا دائرہ کسی نہ کسی سطح پر ایک حد کا پابند اور حقیقت کے ایک ایک نہ ایک طور سے مشروط تھا۔ کسی کے لیے ماضی صرف ماضی تھا، کسی کے لیے حال کی گم گشتہ توانائی کا مخزن یا محرک۔ سرسید، حالی، اقبال، ابوالکلام ان میں سے ہر بزرگ اپنی قوم کا مخلص بھی تھا اور معمار بھی اور ان سب نے اپنی تاریخ کے حوالے سے اپنی قوم اور معاشرے کے مسائل پر نظر کی۔ لیکن ان میں سے کوئی بھی اس نفسیاتی خوف سے آزاد نظرنہیں آتا جس کی بنیاد دوسری قوموں کے مقابلے میں مسلمانوںکی پسماندگی تھی۔ چنانچہ اپنے غیرمعمولی اثرات کے باوجود، ان سب کی فکر ایک طرح کی عجلت پسندی کا شکار رہی اور ان کے رویے اپنے اپنے عہدکی دانشوری کے تئیں زبردست مرعوبیت کے زائیدہ رہے۔ اقبال نے اس مرعوبیت سے رہائی کی کوشش حقیقت کی سطح پرکم اور جذبات کی سر زمین پر زیادہ کی۔ اپنی تمام تر فکری گریزیدگی، عظمت اور شاعرانہ کمال کے باوجود جذبے کی سطح پر اقبال کی شاعری سے ان کی قوم کو جو نقصان پہنچا اب ہمیں اس کے اعتراف میں جھجک نہیں ہونی چاہیے۔ انہوں نے حقائق کی دنیا میں محرومیوں کی تلافی کا سامان اکثر جذبات کے ذخیروں میں ڈھونڈا۔ فکر کی اس رو کا آہنگ بنیادی طور پر جذبہ فروشانہ تھا۔ چنانچہ اس میں لطف اور توانائی اور تابندگی تو ہے مگر وہ استحکام اور صلابت نہیں جو زمانے کی سختیوں کو سہار سکے۔ دل چسپ بات یہ ہے کہ اقبال یہاں‘ خاص طور پر ان کی نثری تحریروں میں، جہاں صداقت آموزہ جذبات پر فکر کی صلابت اور سخت کوشی کا رنگ غالب ہے، بعض مقتدرعلما کو گم رہی اور خرابی کی صورتیں دکھائی دیں۔ مولانا ابوالحسن علی ندوی نے اس موہوم اور بعداز وقت آرزو کا اظہارکیا کہ کاش اقبال نے فکرِ اسلامی کی تشکیل جدیدکے خطبات نہ دیے ہوتے۔‘‘
اس طویل اقتباس سے واضح ہے کہ شمیم حنفی بزرگوں سے فکری اختلاف کے قائل ہیں لیکن اس کے لیے شائستگی اور دلیل کی ضرورت پر بھی زور دیتے ہیں۔ عابد صاحب کے اقبال کی فکر پر اختلافی رائے میں شائستگی اور مولانا ابوالحسن علی ندوی کی رائے کی صورت میں دلیل بھی موجود ہے۔
راجندر سنگھ بیدی کے خاکے کا یہ اقتباس ملاحظہ کریں ’’اس رات بیدی صاحب خود بھی جاگتے رہے، دوسروں کو بھی جگائے رکھا۔ جامعہ ملیہ اسلامیہ سے ذرا دور، جمنا کنارے، حکومت اتر پردیش کے ایک مہمان خانے سے قہقہوں کا شور امڈتا رہا۔ باقر مہدی، وارث علوی، ساقی فاروقی، محمود ہاشمی، دور دراز کے شہروں سے آئے ہوئے بہت سے ادیب، نقاد، اساتذہ حلقہ جمائے بیٹھے ہوئے تھے۔ بیدی صاحب کی حیثیت وہاں میرِ محفل کی تھی۔ ایک لطیفے کے بعد دوسرا لطیفہ، ایک قہقہے کے بعد دوسرا قہقہہ۔ ان لطیفوں میں ایسے لطیفے بھی تھے جن کا نشانہ بیدی صاحب کی اپنی ذات تھی۔ دنیا پر ہنسنے کے ساتھ وہ اپنے آپ پر بھی جی کھول کر ہنسنے کا حوصلہ رکھتے تھے۔ سنجیدہ حقیقتوں کی عکاسی کرنے والا اس رات مستقل ہنس رہا تھا اور ہنسا رہا تھا، اس حد تک کہ ڈر سا محسوس ہوا۔‘‘
معاشرے کے تلخ حقائق کو اپنے افسانوں میں بیان کرنے والے راجندر سنگھ بیدی کی باغ و بہار شخصیت کا یہ جائزہ اور اس انداز میں چھپے خوف کا اظہار شمیم حنفی نے خوب کیا ہے پھر ذوقی صاحب کے سراپے کا ذکر دیکھیے۔ ’’شیش محل میں شوکت تھانوی نے ذوقی صاحب کا جو خاکہ کھینچا تھا، اس سے گمان ہوتا تھا خاصے صاحب آدمی ہوں گے۔ ملاقات ہوئی تو ٹھیٹ مشرقی نکلے۔ علی گڑھ کاٹ کا پاجامہ، ململ کا کڑھا ہوا لکھنوی کرتا‘ جس کی آستینیں بڑی نفاست سے چنی گئی تھیں‘ پیروں میں نہایت نازک مخملیں جوتیاں، ہونٹوں پر پان کا لاکھا۔‘‘
’’شامِ دوستاں آباد‘‘ کا پہلا خاکہ پاکستان کا صاحبِ طرز افسانہ نگار انتظار حسین کا ہے جس کا آغازکچھ یوں ہوا ہے:
’’جنگل میں ایک درویش کو میں نے دیکھا جو ایک کیکر کے درخت کے نیچے سخت جگہ تکلیف سے بیٹھا ہوا تھا۔ میں نے اس کو کہا ’’اے بھائی! تجھے اس جگہ کس چیز نے بٹھایا ہے جو ایسے توقف سے اس سخت جگہ بیٹھا ہے۔‘‘جواب آیا ’’مجھے ایک وقت حاصل تھا جس کو اس جگہ میں نے گم کیا۔ اب اس جگہ بیٹھا ہوں اور غم کھا رہا ہوں۔‘‘ شیخ علی ہجویری کے واسطے سے کہانی آگے یہ بتاتی ہے کہ ایک روز اس بزرگ کی دُعا سے درویش بالآخر اپنی مراد کو پہنچا۔ گم کیا ہوا وقت اسے مل گیا۔ اس پر بھی درویش وہیں ڈٹا رہا۔ ہٹ دھرمی کا سبب پوچھا گیا تو جواب میں پلٹ کر سوال کیا ’’کیایہ روا ہے کہ ایسی جگہ کو، جہاں میں نے گم کیا ہوا سرمایہ پھر حاصل کیا اور میری محبت کا محل ہے چھوڑدوں؟‘‘ پھربولا ’’اے شیخ! میں اپنی خاک کو اس جگہ خاک میں ملاؤں گا تاکہ قیامت کے دن اس خاک سے سر نکالوں کہ جو میری محبت اور سرورکا محل ہے۔‘‘
اس مختصر اقتباس میں کیا شمیم حنفی نے انتظار حسین کا پورا نظریہ فن پیش نہیں کردیا؟
دلچسپ کتاب میں قارئین کو اپنے پسندیدہ ادیبوں اور شعرا کے بارے میں بے لاگ رائے جاننے کا موقع ملتاہے۔ ہر طویل اور مختصر خاکہ قاری کی دل چسپی میں اضافہ کرتاہے۔

حصہ