ابنِ عباس
’’کلثوم کلثوم… بائوجی،کلثوم کلثوم… بائو جی‘‘ کی آوازیں لگاتے نوازشریف کو کیا خبر تھی کہ زندگی بھر باؤجی باؤجی کہنے کا وعدہ کرنے والی کلثوم قیدِ تنہائی کاٹتے اپنے باؤ جی نوازشریف کو عمر بھر کے لیے تنہا چھوڑ کر اس جہانِ فانی سے ہمیشہ کے لیے کوچ کرجائیں گی۔ درازیٔ عمر اور جلد صحت یابی کی دعائیں دے کر قانون کا سامنا کرنے کے لیے پاکستان آنے والے نوازشریف کب جانتے تھے کہ اُن کی شریکِ حیات سے یہ ملاقات نہ صرف آخری ہوگی بلکہ دورانِ قید کلثوم نواز کے انتقال کی خبر کی صورت ان پر غم کا وہ پہاڑ آن گرے گا جس کا بوجھ اللہ تعالیٰ کی جانب سے دی گئی ہمت کے بغیر اٹھانا ناممکن ہوا کرتا ہے۔
تین بار پاکستان کی خاتونِ اول رہنے والی بیگم کلثوم نواز کینسر سے ایک سالہ طویل جنگ لڑنے کے بعد منگل کو لندن کے ایک نجی اسپتال میں انتقال کر گئیں۔ بیگم کلثوم نواز کی رحلت کی خبر سارے ہی پاکستان کو سوگوار کر گئی، پرنٹ میڈیا ہو یا الیکٹرنک میڈیا انتقال کی خبر ملتے ہی سب نے اپنے اپنے تئیںبیگم کلثوم نواز کی زندگی پر خصوصی نشریات شروع کر دیں۔ کلثوم نواز بنیادی طور پر ایک گھریلو خاتون تھیں وہ جتنا عرصہ بھی سیاست سے وابستہ رہیں سیاسی مخالفت رکھنے والے بھی انہیں قدر کی نگاہوں سے دیکھتے تھے ۔بعض کم ظرفوں نے ان کی بیماری کو بھی مشکوک بنانے کی ناکام کوششیں کیں، لیکن وہ علاج کے لیے لندن جانے کے بعد واپس نہ لوٹ پائیں۔ انہوں نے اپنی زندگی کی 68 بہاریں دیکھیں۔
شاید میاں محمد بخش نے ایسے ہی لوگوں کے لیے کہا ہو ؎
دشمن مرے تے خوشی نہ کریے
سجناں وی مر جاناں
بیگم کلثوم نواز انتہائی شفیق ماں اور ایک محبت کرنے والی بیوی کے ساتھ ساتھ دردِ دل رکھنے والی خاتون تھیں۔ انہوں نے ہر خوشی اور غم میں اپنے شوہر کا ساتھ دیا نواز شریف نے بھی اہلیہ کلثوم نواز سے خوب وفا داری نبھائی کلثوم نواز 48 سال نواز شریف کی شریکِ حیات رہیں وہ 1950ء میں ایک کشمیری گھرانے میں پیدا ہوئیں۔ ان کا تعلق معروف گاما پہلوان کے گھرانے سے تھا۔ ابتدائی تعلیم مدرسۃ البینات سے حاصل کی، اس کے بعد لیڈی گریفن اسکول سے میٹرک کیا، ایف ایس سی اسلامیہ کالج لاہور سے کیا۔ دورانِ تعلیم 1971ء میں میاں نوازشریف کے ساتھ شادی کے بندھن میں بندھ گئیں، بعدازاں پنجاب یونیورسٹی سے ایم اے اردو کی ڈگری حاصل کی۔ گھر کی چار دیواری میں رہنے والی کلثوم نواز اس وقت لوگوں کی توجہ کا مرکز بن گئیں جب 1999ء میں ایک فوجی بغاوت کے نتیجے میں اس وقت کی حکومت پر شب خون مارا گیا اور ان کے شوہر نواز شریف سمیت سارے ہی خاندان کو پابند سلاسل کر دیا گیاتجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ بیگم کلثوم نواز اگر سابق فوجی آمر پرویز مشرف کے مارشل لا دور میں احتجاجی سیاست نہ کررہی ہوتیں تو شاید نوازشریف کو ملک سے جانے کی اجازت نہ ملتی، اور نہ ہی مارشل لا حکومت پر کوئی دباؤ ہوتا۔ یہ وہ دور تھا جب مسلم لیگ کی حکومت کا تختہ الٹے جانے کے بعد میاں نوازشریف اور ان کے بھائی شہبازشریف جیل میں تھے۔ مارشل لا حکومت کی طرف سے ان کے کارکنان کی گرفتاریوں کا سلسلہ جاری تھا۔ ان کے کئی ساتھی ان کا ساتھ چھوڑ کر حکومتی لیگ کو پیارے ہوگئے تھے۔ اُس وقت بیگم کلثوم نواز نے احتجاجی سیاست کا آغاز کیا۔ انہوں نے اُس وقت کی دوسری بڑی سیاسی جماعت یعنی پاکستان پیپلز پارٹی کے ساتھ مل کر متحدہ اتحاد برائے بحالیٔ جمہورت یا اے آر ڈی کے قیام میں فعال کردار ادا کیا۔ وہ باقاعدگی سے اس کے اجلاسوں میں شریک ہوئیں۔ انہوں نے مسلم لیگ کے کارکنان اور جماعت کو متحد رکھنے کے لیے خاصی بھاگ دوڑ کی۔
جولائی 2000ء میں ان کی ایک تصویر سامنے آئی جو مزاحمت کی علامت بن گئی۔ لاہور میں جب ایک اجلاس میں شرکت سے روکنے کے لیے ان کی گاڑی کو پولیس نے روکا تو بیگم کلثوم نواز نے گاڑی اندر سے بند کرلی اور اترنے سے انکار کردیا۔ حتیٰ کہ ان کی گاڑی کو لفٹر کی مدد سے آگے سے اٹھا لیا گیا اور وہاں سے ہٹا دیا گیا، مگر وہ اپنے انکار پر قائم رہیں اور باہر نہیں آئیں۔ اس تصویر کے سامنے آنے سے مارشل لا حکومت سے مزاحمت کا ایک مضبوط پیغام گیا۔ یہ انتہائی اہم امر ہے کہ اپنی اس جدوجہد سے وہ اپنے شوہر اور ان کے خاندان کو بہ حفاظت ملک سے باہر لے گئیں۔ ان کی جدوجہد نہ ہوتی تو مارشل لا حکومت پر کوئی دباؤ نہ ہوتا۔ گزشتہ برس جب نوازشریف کی سیاست پر برا وقت آیا تو بیگم کلثوم نواز ایک مرتبہ پھر مزاحمت کا وہی کردار ادا کرنے کے لیے تیار تھیں۔ اسی لیے ان کو قومی اسمبلی کا الیکشن لڑوایا گیا۔ لیکن انہیں بیماری نے اتنی مہلت نہ دی کہ وہ آکر حلف اٹھا سکیں، یا سیاسی طور پر سرگرمِ عمل ہوسکیں۔
وہ خود کہتی تھیں کہ میں ہنگامی طور پر سیاست میں آئی ہوں۔ مگر سیاست میں زیادہ فعال نہ رہتے ہوئے بھی وہ سیاست پر بہت اثرانداز ہوئیں۔ نوازشریف روزانہ کئی گھنٹے ان سے بات چیت کرتے تھے۔ نوازشریف کی شخصیت میں حال ہی میں جو سیاسی اور نظریاتی تبدیلی نظر آئی اور جس کا وہ خود ذکر بھی کرتے تھے، اس میں بھی بیگم کلثوم نواز اور ان کی بیٹی مریم نواز کا بڑا کردار ہے۔ کلثوم نواز ملکی سیاست کی پیچیدگیوں کو سمجھتی تھیں۔ وہ 2017ء میں لاہور سے قومی اسمبلی کے ضمنی انتخاب میں کامیاب ہوئی تھیں، تاہم اس سے پہلے ہی انہیں بیماری نے آلیا۔
میاں نوازشریف کے عدالتِ عظمیٰ کی جانب سے نااہل قرار دیے جانے کے بعد وہ براہِ راست سیاست میں حصہ لیتی نظر آرہی تھیں اور یہ قیاس بھی کیا جارہا تھا کہ مسلم لیگ (ن) کی قیادت ان ہی کے پاس جائے گی۔ بیگم کلثوم نواز عمر میں نوازشریف سے ایک برس چھوٹی تھیں۔ ان کا خاندان کشمیر سے تعلق رکھتا تھا، جبکہ ان کی پیدائش لاہور میں ہوئی۔ ان کے چار بچے ہیں جن میں حسن نواز، حسین نواز، مریم نواز اور اسما نواز شامل ہیں۔ کلثوم نواز کا شریف خاندان کے تمام اہم فیصلوں میں بنیادی کردار رہا۔ بیگم کلثوم نواز کا سیاسی تجزیہ اور لوگوں کے بارے میں رائے ہمیشہ درست ثابت ہوتی تھی۔ کلثوم نواز نہ صرف ایک مثالی خاتون تھی بلکہ میاں شریف کی پسندیدہ بہو بھی تھیں شاید یہ قدرت کا فیصلہ تھا کہ ان کے تدفین شریف خاندان کے آبائی قبرستان جاتی امرا رائیونڈ میں میاں شریف کے پہلو میں کی گئی۔ کلثوم نواز کی نماز جنازہ شریف میڈیکل کمپلکس میں ادا کی گئی نماز جنازہ معروف عالمِ دین مولانا طارق جمیل نے پڑھائی اور لحد میں اتارنے کے بعد دعا کروائی اس موقع پر ہر آنکھ اشک بار تھی۔ بیگم کلثوم نواز کے جنازے میں جماعت اسلامی، اے این پی، پشتون خوا پارٹی سمیت وزیراعظم آزاد کشمیر راجہ محمد فاروق، خورشید شاہ، قمر زمان کاہرہ، راجہ پرویز اشرف، وزاعلیٰ گلگت بلتستان حافظ حفیظ الرحمن، ایم کیو ایم سے فاروق ستار، خالد مقبول صدیقی، عتیق الرحمن اور چودھری برادران اور مسلم لیگ (ن) کے کارکنان سمیت لوگوں کی بڑی تعداد نے شرکت کی۔ بیگم کلثوم کا دنیائے فانی سے کوچ کرجانا شریف فیملی کے لیے بڑا صدمہ ہے، اورنوازشریف کے لیے ذاتی طور پر اس صدمے سے باہر آنا آسان نہ ہوگا۔