قسط نمبر154
(بارہواں حصہ)
انتخابات میں شیخ مجیب الرحمن کی کامیابی میں جتنا ہاتھ اُس کی مقبولیت کا تھا، کم و بیش اتنا ہی دھونس، دھاندلی کا بھی تھا۔ عالم یہ تھا کہ جیسے ہی عام انتخابات کا اعلان ہوا، عوامی لیگی کارکنان نے حزبِ مخالف کی تمام جماعتوں کو نشانے پر رکھ لیا۔ جنوری1970ء میں جماعت اسلامی کے امیر مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی مشرقی پاکستان کے دورے پر تھے، پلٹن میدان میں ہونے والے جلسے کو درہم برہم کیا گیا۔ عین جلسے سے چند گھنٹے قبل جلسہ گاہ جانے والے تمام راستوں کو بلاک کیا گیا۔ کسی بھی کارکن کو وہاں جانے کی اجازت نہیں تھی۔ دو گھنٹے تک کارکنانِ جماعت اسلامی رکاوٹوں کو ہٹانے کی کوشش کرتے رہے۔ اس اثنا میں مسلح عوامی لیگی غنڈوں نے تیز دھار برچھیوں اور چھریوں سے کارکنان پر دھاوا بول دیا، جس کے نتیجے میں دو کارکنان موقع پر ہی شہید ہوگئے، جبکہ 26 کو اغوا کرکے نامعلوم مقام پر لے جاکر بدترین تشدد کا نشانہ بنایا گیا، اور 115 کارکنانِ جماعت اسلامی شدید زخمی حالت میں اسپتال پہنچائے گئے۔ جلسہ گاہ میں شامیانوں کو آگ لگادی گئی۔ دوسری جانب اپنی جان پولیس نے یہ کہہ کر چھڑائی کہ ہمیں آگاہ نہیں کیا گیا تھا، جس کی جماعت اسلامی نے فوری تردید بھی کی۔ مگر انتظامیہ اپنی جھوٹی وضاحت پر قائم رہی۔
اس دوران دیگر جماعتوں کے جلسوں میں بھی رکاوٹیں ڈالی جاتی رہیں۔ فروری میں پاکستان ڈیموکریٹک پارٹی کا جلسہ بھی نہیں ہونے دیا گیا۔ 28 فروری کو ڈھاکا، چٹاگانگ اور مارچ میں سید پور کے جلسے بھی نہیں ہونے دیے گئے۔ انتخابات سے پہلے ہی ایک ہولناک قسم کا ماحول پیدا کردیا گیا تھا جس کا مقصد صرف اور صرف یہ تھا کہ پاکستان کو متحد دیکھنے والی جماعتیں مشرقی پاکستان کی سیاست میں اپنا کوئی کردار ادا کرنے کی پوزیشن میں نہ رہیں۔
مغربی پاکستان کی جانب سے متعین کردہ انتظامی مشنری اور مارشل لا حکام کی حیثیت کٹھ پتلی سے زیادہ نہ تھی۔ صدیق سالک شہید اپنی کتاب ’’میں نے ڈھاکا ڈوبتے دیکھا‘‘ میں لکھا:
’’گورنر ایڈمرل احسن کو صدر کا اعتماد حاصل تھا اور عسکری حلقوں کی آشیرواد بھی حاصل تھی۔ ان کا عالم یہ تھا کہ ہر معاملے میں انہیں اپنے بنگالی چیف منسٹر شفیع الاعظم کا سہارا لینا پڑتا تھا۔ یہ بنگالی بیوروکریٹ بڑے کائیاں تھے‘‘۔
وہ مزید لکھتے ہیں کہ ’’اس صورتِ حال کا نتیجہ یہ نکلا کہ مشرقی پاکستان پر انتظامیہ کی گرفت ڈھیلی پڑ گئی اور مارشل لا عام قانون سے بھی زیادہ غیر مؤثر ہوکر رہ گیا۔ انتظامیہ کی کمزوری اور شیخ مجیب کی بڑھتی ہوئی قوت کے اثرات جلد ہی ظاہر ہونے لگے۔ امن و امان کی صورت حال ابتر، اور صنعتی، تجارتی و تعلیمی زندگی تلپٹ ہوکر رہ گئی۔ آدم جی جوٹ مل، نشتر جوٹ مل، چٹاگانگ اسٹیل مل، وکرم اسٹیل مل اور پیپر مل جیسے ادارے طویل عرصے کے لیے بند رہتے، اور جب بھی کبھی کھلتے تو میدانِ کارزار بن جاتے۔ مارشل لا انتظامیہ حسبِ توفیق چیدہ چیدہ شرپسندوں کو جیل میں ڈالتی رہی مگر اس سے کچھ افاقہ نہ ہوا بلکہ الٹا اشتعال پھیلا۔ نوبت یہاں تک پہنچی کہ 29 اور 30 مئی کو تقریباً دس ہزار مزدوروں نے کھلنا جیل کے دروازے توڑکر اپنے مقید ساتھیوں کو رہا کروانے کی کوشش کی‘‘۔ ’’انتظامی بدنظمی، انتشار اور دہشت گردی نے بے یقینی کی فضا پیدا کردی تھی۔ امن پسند شہری گھروں میں رہنا زیادہ پسند کرتے تھے، کیونکہ گلیاں رات کو موت کے کوچے بن جاتے تھے۔‘‘
’’ستمبر تک تو حالت یہ ہوچکی تھی کہ عوامی لیگ کا دبدبہ پورے عروج پر تھا۔ پہلے غیر بنگالیوں کے گھر محفوظ تھے، مگر اب ایسا نہیں تھا۔ اب بنگالی اور غیر بنگالی محب وطن دونوں ہی عوامی لیگ کے حملوں کا شکار ہورہے تھے۔ غیر بنگالی آبادیوں میں چن چن کر افراد کو قتل کیا جارہا تھا۔ ان کے گھروں کو جلا دیا جاتا، اور دیسی ساختہ بم گھروں میں پھینکنے کی وارداتیں اپنے عروج پر جا پہنچی تھیں۔ یہ تھی وہ صورتِ حال جس میں شیخ مجیب نے اپنی دہشت کے جھنڈے گاڑے، اور سوائے دو نشستوں کے مشرقی پاکستان کی تمام سیٹوں پر کامیابی حاصل کی۔‘‘
صدیق سالک شہید نے ایک نہایت اہم بات لکھی ہے۔ شیخ مجیب الرحمن کی کامیابی کے بعد ایک اہم عسکری ذمے دار کے سامنے سوال رکھا کہ ’’ایسی صورتِ حال میں افواجِ پاکستان کا کیا کردار ہوگا؟ کیا وہ باعزت طریقے سے اقتدار سے الگ ہوکر ملک کی قسمت عوامی لیگ کو سونپ دیں گی؟‘‘ جواب ملا کہ ’’آپ فکر نہ کریں۔ ہم ان کالے حرامیوں کو اپنے اوپر ہرگز حکومت نہیں کرنے دیں گے۔‘‘
(“witness to surrender” …’’میں نے ڈھاکا ڈوبتے دیکھا‘‘۔ صفحہ نمبر 38: صدیق سالک)
قوم پرستی کے اس بے ہنگم جنون میں اسلام پسند اور محب وطن چاہے بنگالی ہوں یا غیر بنگالی، سبھی متاثر ہورہے تھے۔ ایسے میں جماعت اسلامی نے آگے بڑھ کر محلوں میں امن کمیٹیاں بناکر امن و امان بحال کرنے کی کوشش جاری رکھی، جس کی پاداش میں سیکڑوں کارکنان قتل ہوئے اور بے شمار زخمی ہوکر گرفتار کرلیے گئے۔ جماعت اسلامی کے دفاتر پر حملے شروع ہوگئے، دفتروں پر دستی بموں سے حملے کیے گئے۔
(جہد ِمسلسل۔ تاریخ جماعت اسلامی حصہ اول)
مشرقی پاکستان میں افتراق و انتشار کی فضا تو بہت پہلے ہی قائم ہوچکی تھی… معاشی ناہمواری اور علیحدہ نظم معاشیات جس کا مطلب علیحدہ کرنسی تھا… اس بے چینی کو دور کرنے کے لیے ایوب خان نے مشرقی پاکستان کے تعلیمی ماہرین اور اخبارات کے مدیران کے ساتھ ایک نشست کی، جس کا احوال قدرت اللہ شہاب نے بیا ن کیا۔ انہوں نے’’شہاب نامہ‘‘ میں لکھا ہے کہ ’’ایوب خان نے مشرقی پاکستان کے 30، 35 سیاست دانوں، اخبار نویسوں اور اکابرین کے ساتھ مشورہ کرنے کے لیے ایک میٹنگ بلائی۔ شیخ مجیب کو بھی اس میں مدعو کیا گیا تھا، مگر شیخ مجیب الرحمن نے شرکت کرنے سے معذرت کرلی۔ میٹنگ میں صدر ایوب خان نے گزشتہ روز ڈھاکا یونیورسٹی کے اساتذہ کے ساتھ ہونے والی گفتگو کے تاثرات بیان کیے (وہ ایک دن قبل ملاقات میں مغربی اور مشرقی حصوں کی معاشیات کو الگ الگ فروغ دینے کی تجویز کے تناظر میں اپنا خیال پیش کررہے تھے)۔ ایوب خان نے ایک طویل جذباتی تقریر کے اختتام پر کہا ’’اگر آپ نے مغربی پاکستان سے الگ ہونے کا عزم کر ہی لیا ہے تو باہمی زور آزمائی، الزام تراشی اور سر پھٹول کی ضرورت نہیں، ہم سب کو بھائیوں کی طرح ایک میز کے گرد بیٹھ کر خوش اسلوبی اور خیرسگالی سے الگ ہونے کا فیصلہ کرلینا چاہیے‘‘۔ محفل میں چند لمحے بالکل سناٹا چھایا رہا۔ اس کے بعد مسٹر نورالامین اور’’اتفاق‘‘ کے ایڈیٹر مسٹر تفضل حسین عرف مانک میاں سمیت کئی حاضرین نے بیک آواز کہا ’’ہرگز نہیں… ہرگز نہیں!‘‘ (Never Never, We do not even dream of it)
مانک میاں کے روزنامہ اتفاق کی روش ایوب خان کی فوجی حکومت اور اُن کے نئے آئین کے خلاف رہا کرتی تھی، انہوں نے خاص طور پر ایوب خان کو مخاطب کرکے کہا ’’مسٹر پریذیڈنٹ! خیالات آپ کی حکومت کے خلاف ہیں، اپنے ملک کے خلاف نہیں۔ میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ جب تک میری نسل کے لوگوں کا کچھ اثر رسوخ باقی ہے، پاکستان کی سالمیتپر کوئی ضرب نہیں آسکتی، لیکن ہمارے بعد کیا ہوگا؟ اس پر ہم بھی فکرمند ہیں‘‘۔ اس کے بعد باہمی اتفاق، اتحاد، تعاون اور خیرسگالی پر بہت سی تقاریر ہوئیں۔ کئی مقررین کے گلے رندھے ہوئے تھے۔‘‘
(شہاب نامہ۔ قدرت اللہ شہاب۔ صفحہ نمبر۔ 810)
ہم نے خاصی تفصیل کے ساتھ مشرقی پاکستان کے مخصوص حالات کو بیان کیا ہے، اور اس کے ساتھ ہی ساتھ دورانِ مطالعہ حکومتی ذمے داران کا مائنڈسیٹ بھی سمجھنے کی کوشش کی ہے، کہ ہمارے حکمران اور مارشل لا حکام بیرونی سازش کے آلۂ کار بن کر حالات کو سقوط کی دہلیز تک لے کر آئے۔ ڈھاکا یونیورسٹی کے سابق وائس چانسلر ڈاکٹر پروفیسر سجاد حسین نے یہ سب کچھ نہ صرف دیکھا بلکہ متحدہ پاکستان کی وکالت کے جرم میں تشدد بھی سہا اور بنگالی حکومت کی قید میں بھی رہے۔ ڈاکٹر پروفیسر سجاد حسین لکھتے ہیں کہ ’’دشمن کی سازشوں، عوامی لیگ کی کاوشوں اور ناموافق حالات کے باعث بنگالی قوم پرستی کا بت پروان چڑھتا چلا گیا۔
مشرقی اور مغربی پاکستان کے درمیان ایک ہزار میل کے فاصلے نے بھی ملک کے خلاف بھڑکنے والے جذبات کو ہوا دینے میں اہم کردار ادا کیا۔ دوسری طرف مرکزی حکومت بنگالی قوم پرستی کے بارے میں درست اندازے قائم کرکے بروقت اقدام کرنے میں ناکام رہی۔ مغربی پاکستان کے سیاست دانوں کو زچ کرنے اور مشرقی پاکستانیوں کو تحقیر کی نظر سے دیکھنے کی عادت عام تھی۔ اگر وہ اس عادت پر قابو پالیتے اور بنگالیوں کو ضروری احترام دیتے تو حالات میں کچھ نہ کچھ فرق ضرور پڑسکتا تھا۔ آخری بات یہ کہ اعلیٰ ترین مناصب پر بیٹھے لوگ ملک کے خلاف بین الاقوامی سطح پر کی جانے والی سازشوں کا ادرک ہی نہیں کرسکے۔‘‘
(حوالہ: The Wastes of Time (شکستِ آرزو)… ڈاکٹر پروفیسر سجاد حسین۔ صفحہ نمبر 210)
(جاری ہے)