وہ شخص اب یہاں نہیں ملے گا

665

ڈاکٹر تنویر زبیری
بھوپال کی ریاست متحدہ ہندوستان میں اپنے تاریخی، تہذیبی و ثقافتی ورثے پر بجا طور پہ نازاں تھی، کہ اس زرخیز خطہ سرزمیں نے بہت سی نابغہ روزگار شخصیات کو جنم دیا۔ خرم جاہ مراد ان میں سے ایک انتہائی غیر معمولی انسان تھے۔ پیشہ کے اعتبار سے لائق سول انجینئر۔ امریکی یونی ورسٹی اف مینی سوٹا سے سند یافتہ۔ مگر دنیا میں ان کی پہچان کا حوالہ جدید ذہن کو اسلام کے قریب لانے اور داعی الی اللہ کی تھی۔ ان کے چاہنے والوں کی تعداد بلا مبالغہ لاکھوں سے متجاوز تھی۔ ان کی نیک طینت اہلیہ ”سیدہ لمعت النور” کا تعلق بھی بھو پال سے تھا۔ جن کی آغوش میں ایک ایسے ہیرے نے پرورش پائی کہ جس کی تابناکی آج بھی آنکھوں کو خیرہ کیے دیتی ہے۔
ننھے حسن صہیب مراد کو گھٹی ہی ”قال اللہ وقال الرسول” کی ملی۔ جناب خرم مراد زمانہ طالب علمی میں پہلے پاکستان اور پھر امریکہ کے طلبہ میں دعوت دین کی تنظیم و تربیت سے وابستہ رہے – عملی زندگی میں مشرق وسطی’ منتقل ہوئے۔ انجئنیرنگ کمپنی میں خدمات انجام دیتے ہوئے، بڑے پیمانے پر دعوتی، تربیتی اور سیاسی میدان میں گہرے نقش چھوڑے۔ پھر 1976ء سے اسلامک فاونڈیشن برطانیہ کے کاموں اور منصوبوں میں بڑی وسعت پیدا کی۔ اسی طرح سقوط ڈھاکہ کے عینی شاہد تھے۔ جنگی قیدی کی حیثیت سے عزیمت اور صبر سے قید کاٹی۔قید و بند کے اس زمانے میں لمعت خالہ بچوں کو ماں کے ساتھ باپ بن کر بھی بہترین دینی و دنیاوی تربیت سے آراستہ کرتی رہیں۔میاں کے شانہ بشانہ چلتی رہیں۔
حسن مراد نے دور طالب علمی میں ہی اپنا منفرد انداز اور مقام پیدا کرلیا۔ میرا ان سے تعارف 1970ء کے عشرے میں ہوا۔ تب وہ اسلا می جمعیت طلبہ کے رکن تھے۔ جب ہم دونوں مجلس شوری’ کے رکن بنے تو گاڑھی چھننے لگی۔ ذوق مطالعہ،ادب دوستی، بذلہ سنجی ہماری دوستی کی بنیادیں تھیں۔ میں جب کراچی جا تا۔ کسی بہانے سے کھانے گھر پر لے جاتے۔ کبھی ہم برنس روڈ پر لسی پینے جاتے یا برابر میں۔” انڈہ گھوٹالہ ” پر ہاتھ صاف کرتے۔ ان کی ہونڈا سیونٹی پر ایک مرتبہ ہم دونوں کراچی جمعیت کی کسی شب بیداری میں شریک ہوئے۔ واپسی پر بارش نے آن لیا۔ ہم راستہ بھر بھیگتے آئے۔ سندھ اسلامیہ کالج کے سامنے کڑک چائے کے کھوکھے پر بیٹھ کر گرم گرم چائے کا لطف اور ذائقہ آج بھی مجھے یاد ہے۔
وہ نظریاتی دور تھا۔ کیمونسٹ تحریک اپنے زوروں پر تھی۔ مقابلے میں جمعیت طلبہ تھی۔ جسکی تنظیم بہت منظم اور فعال تھی۔ ہر سال یونین کے انتخابات منعقد ہوتے۔ طلبہ کی اکثریت جمعیت طلبہ کو پسند کرتی اور اسکی ہمنوا بنتی۔ پاکستان کے سیاسی، تعلیمی اور صحافتی افق کے بہت سے نمایاں نام اسی شجر سایہ دار کی شاخیں ہیں۔ 1981 میں حسن بھائی کراچی جمعیت اور میں لاہور جمعیت کا ناظم منتخب ہوا۔ کراچی میں جمعیت کا دعوتی اور تربیتی پروگرام بہت منظم تھا۔ میں اکثر معاملات میں ان سے رہنمائی لیتا۔ سیاسی کشمکش میں لاہور اور پنجاب یونیورسٹی جمعیت کو برتری حاصل ہوتی۔ مگر حسن بھائی کے دور میں کراچی جمعیت کو انتخابات میں فقیدالمثال کامیابی ملی۔ 1983 میں ہم دونوں کی تعلیم اختتام پذیر ہو رہی تھی۔ تب کے ناظم اعلی’ معراج الدین مرحوم کا اصرار تھا کہ ہم انتخابات تک رک جائیں۔ سرحد اور پنجاب کے طلبہ انجمن کے انتخابات میں جمعیت طلبہ نے clean sweep کیا۔ لاہور میں 95% یونینز ہم جیت گئے۔ مارشل لا دور تھا۔ ضیاء الحق اپنے اقتدار کو طول دینے کے لیے غیر جماعتی بنیاد پر الیکشن کروانا چاہتے تھے۔ دینی جماعتوں کی جانب انکا جھکاؤ محض افغان جنگ میں انکی ہمدردیاں سمیٹے اور نوجوان مجاہدین کی کمک بھرتی کرنے تک محدودتھا۔ سیاسی پنڈتوں نے انہیں خبردار کیا کہ جمعیت طلبہ آئندہ سال کے انتخابات میں موثر ثابت ہو سکتی ہے۔ یونین انتخابات کے انعقاد کے محض دو ہفتے کے اندر جنرل فضل حق اور جنرل جیلانی نے یونینز پر بلا جواز پابندی عائد کر دی۔ جمعیت نے جماعت اسلامی اور دیگر بہی خواہوں کے مشورے کے علی الرغم بھر پور مزاحمتی تحریک کا آغاز کردیا۔ فوج سے براہ راست ٹکرانے کا انجام ہمیں معلوم تھا۔ MRD کی احتجاجی تحریک بیسیوں جانوں کا نذرانہ پیش کرنے کے باوجود آخری ہچکیاں لے رہی تھی۔ جماعت کی مجلس عاملہ نے صورت حال کی سنگینی کے پیش نظر اپنا ہنگامی اجلاس طلب کر لیا۔ جمعیت کی شوری’ نے جامعہ پنجاب کی یونین کے صدر امیرالعظیم، حسن مراد اور مجھے مذاکرات کے لیے منتخب کیا اور فیصلے کااختیار دیا۔ صبح سے شام تک ہمیں دلائل، پند و نصائح سے قائل کرنے کی پر اخلاص کوشش کی گئی۔ مگر ہم تینوں کا یکساں موقف تھا کہ مارشل لاء حکومت کے آمرانہ اور ناجائز فیصلہ کو تسلیم نہیں کرسکتے۔ ہم لوگوں نے قید وبند اور آزمائش کے راستے کو اختیار کرنے کا فیصلہ کیا۔ حسن مراد کے تاریخی الفاظ مجھے آج بھی یاد ہیں۔ کہ ہمارے اسلاف نے مصلحت کوشی اور اصولوں پر سمجھوتا سکھایا ہی نہیں۔ اپنے جمہوری حق کے لیے قید تو کیا ہم اپنا کیرئیر بھی قربان کرنے پہ آمادہ ہیں۔ ان ساتھیوں کا جوان جذبہ فوجی آمروں کو تو نہ جھکا سکا۔ مگر نوجوانوں کی عزیمت اور قربانی کی ایک ناقابل فراموش داستان رقم کر گیا۔
عملی زندگی کی بھول بھلیوں میں کھو جانے، کار سرکار اختیار کرنے اور سیاست کو خیر باد کہنے کے باوجود ان سے کسی بہانے ملاقات ہو جاتی۔ حسن مراد بلا کے ذہین، حد درجہ محنتی، اخلاص، انہماک اور ایمان کی طاقت سے مالامال بے لوث شخصیت تھے۔ امریکہ اور برطانیہ سے ماسٹرز اور ڈاکٹریٹ کی ڈگری اعزاز سے حاصل کی۔ شروع میں Descon اور چند بڑے اداروں میں کام کیا۔ مگر خواب گر حسن بھائی کوئی بڑا کام کرنے کے خواہاں تھے۔معروف درسگاہ ILM کی بنا ڈالی۔ جو آج ایک کامیاب یونیورسٹی کا روپ دھار چکی ہے۔ سیکڑوں ادارے اس سے منسلک ہیں۔ HECکی رینکنگ میں یونیورسٹی آف مینجمنٹ اینڈ ٹیکنالوجی (UMT)کا شمار ملک کے جند ممتاز تعلیمی اداروں میں ہوتا ہے۔ ہزاروں ضرورت مند طالبعلموں کی مالی معاونت اور وظائف کا خاموشی سے اہتمام کیا۔ عجب وائس چانسلر تھے ڈاکٹریٹ کی کلاس لینے کے بعد نماز جمعہ کے خطبہ کے لیے منبر رسول پہ متمکن۔انتہائی خوش الحانی سے قرآن کی تلاوت کرتے اور تفسیر بیان کرتے۔ میں نے انہیں ہمیشہ مسکراتے ہوئے پایا۔ کبھی غصہ میں نہیں دیکھا۔ ان کا دھیما انداز سب کو گرویدہ بنا لیتا تھا۔
برطانیہ کے مسلمانوں کی سب سے بڑی اور منظم فلاحی تنظیم مسلم ایڈ کا دائرہ کار دنیا بھرمیں پھیلا ہوا ہے۔ قدرتی آفات اور انسانی فلاح۔ غربت کے خاتمے کے لیے اس تنظیم کی خدمات کو دنیا بھر میں قدر کی نظر سے دیکھا جاتا ہے۔ آج سے تقریبا ” دس سال قبل پاکستان میں بھی اس کی سرگرمیوں کا آغاز کیا گیا۔ ڈاکٹر حسن مراد اسکے بانی چیئرمین مقرر ہوئے اور مجھے اسکا جنرل سیکریٹری نامزد کیا گیا۔ اس حوالے سے ان سے تجدید تعلق ہوا۔ تنظیم کو خوش اسلوبی سے چلانے۔اسکے معیار کار کو بلندیوں پر پہنچانے میں انکی شبانہ کوششوں کا گہرا دخل ہے۔ اس دوران ان کے ہمراہ سفروحضر کے مواقع میسر آتے۔ میں ہر ملاقات میں ان سے فیض یاب ہوتا۔ ان سے دوستی میرے لیے سدا کا افتخار اور اعزاز تھا۔
ڈاکٹر نوشابہ حسن انکی اہلیہ،کراچی کے معروف ڈاکٹر اظہر کی صاحبزادی ہیں۔ ڈاو میڈیکل کالج سے طب کا امتحان اعزاز سے پاس کیا۔ شادی کے بعد لاہور آنا پڑا۔ گھر داری۔ مہمان نوازی اور بچوں کی تعلیم و تربیت میں ایسے منہمک ہوئیں کہ اہنے شعبہ پر توجہ نہ دے پائیں۔ اس کا حسن بھائی کو قلق تھا۔ 2005 میں مجھے یاد کیا اور دیر تک انکی اسپیشلائزیشن کے بارے میں مشورہ کرتے رہے۔ ڈاکٹر صاحبہ نے میری نگرانی میں MSc الٹراساونڈ مکمل کی۔ اور بہترین طالبعلم کا اعزاز حاصل کیا اور اپنی پریکٹس کا آغاز کردیا۔حسن بھائی انکی کامیابی پر بہت مسرور تھے۔ وہ ان کے لیے ایک اسپتال بنانے کے بھی خواہاں تھے۔ ڈاکٹر نوشابہ نے اپنے دونوں بچوں۔ ابراہیم اور مریم کی بہترین اسلوب پر تربیت کی۔ دونوں نے بیرون ملک کی نامور یونیورسٹیز سے اعلی’ تعلیم حاصل کی۔دونوں میاں بیوی۔محبت اور احترام کے مثالی تعلق کا نمونہ تھے۔ اکثر معاملات۔کسی عزیز یا دوست کی بیماری کے بارے مجھ سے ضرور مشورہ کرتے۔ میں بھی اہم امور میں ان سے رہنمائی لیتا۔ ہمیشہ اپنے نپے تلے انداز میں صائب مشورہ دیا کرتے۔ مجھے یہ اعزاز حاصل ہے کہ میں ان کے والدین اور ان کے اہل خانہ کے معالجوں میں شامل رہا۔
شیریں زبان۔ خوش الحان۔ سوز دل و سود زیاں سے خود آگاہی کے سفر پہ رواں۔ محفلوں کی جان۔ دوستوں پر مہربان۔ نرم دم گفتگو۔ گرم دم جستجو۔ رزم ہو کہ بزم ہو ۔ پاک دل و پاک باز۔ کم ہی دوستوں کو علم ہو گا کہ حسن بھائی نے گذشتہ چند سالوں میں نصف قرآن مجید کے حفظ کی سعادت حاصل کی۔ سچے موحد اور پکے عاشق رسول۔
مجھے ان کے ایکسیڈنٹ کی اطلاع کراچی کے معروف کارڈیالوجسٹ ڈاکٹر شجاعت کے ذریعے ہوئی۔تب میں جہاز میں سوار عازم لاہور تھا۔ میرا وجود پہلے تو چکرا گیا اور اگلے لمحے کرچی کرچی ہوگیا۔بھادوں کے آخری دن آنکھوں میں ساون اتر آیا۔ زندگی کی بے ثباتی اور عجب سے خوف نے مجھے ماوف کردیا۔ ہر روز رات کو خواب میں اور دن کو خیالوں میں ماضی کی خوشگوار یادیں آن گھیرتی ییں۔ انکا ہنستا مسکراتا چہرہ چشم تخیل میں وارد ہو جاتا ہے۔ مگر قضا کے مسافر کب لوٹ کے آتے ہیں۔ اب تو ان سے ملنے خود برزخ جانا ہو گا۔ دیکھیں کب باری آتی ہے۔
موت اک ایسا گنجلک معمہ ہے جو نہ سمجھنے اور نہ سمجھانے کا۔ انسانی ذہن نے موت کے فسوںکے گرد اڑتے غبار میں بے طرح ہاتھ پیر مارے۔ مگر اس ظالم نے کسی کی نہ چلنے دی۔ ان کے صاحبزادے ابراہیم مراد آخری لمحات کی دلخراش داستان سناتے ہوئے بولے کہ حادثہ کے بعد جب وہ انکی جانب متوجہ ہوا تو انکی زبان پر ذکر الٰہی تھا اور شہادت کی انگلی اٹھی ہوئی تھی۔ یوں وہ شہادت کی مراد پاگئے۔ اللہ سبحان کا نام باقی رہ گیا۔
مالک دو جہاں سے میری دعا ہے کہ وہ مرحوم کی مغفرت کرے اوراعلی’ علیین میں شامل فرمائے۔ ان کے اہل خانہ اور احباب کو صبر جمیل عطا فرمائے۔ آمین۔

حصہ