میں نے دیکھا ہے سمندر اک ندی میں گِرگیا

557

وقاص انجم جعفری
پہاڑوں اور پانیوں کی انسان سے نہ جانے کیا اُنسیت ہے کہ یہ ایک دوسرے سے جدا ہی نہیں ہوتے۔ پہاڑوں کی بلندیاں انسان کو نئے عزائم، چیلنجز کی طرف بلاتی ہیں اور پانیوں کا بہاو، زندگی کو ہر آن، نمو کی دعوت دیتا ہے۔ یہی پانی غضبناک ہوکر بستیوں کو کھا جاتا ہے لیکن انسانی آبادیاں اس سے وابستہ رہنے میں ہی اپنی بقا سمجھتی ہیں۔ پہاڑ انسانوں کو نگل لیتے ہیں مگر ان کی کشش، مقناطیس کی طرح لوگوں کو اپنی طرف کھینچتی ہے۔ بقا اور فنا، ہست اور نیست کا یہ سلسلہ نہ جانے کب سے جاری ہے اور کب تک جاری رہے گا۔پہاڑوں،پانیوں اور انسانوں کے اس میل جول میں ھمارے کتنے ہی محبوب زندگیاں لیکر اپنے پیاروں کے درمیان واپس نہ لوٹ سکے۔تسنیم عالم منظر،نصراللہ شجیع جیسے سجیلے جوانوں کے بعد ڈاکٹرحسن صہیب مراد،اس قبیلہ کے نئے فرد ہیں۔
علم اور حلم معاشرے میں ویسے ہی کمیاب ہیں اور ان دونوں کا امتزاج اس سے بھی محال۔۔۔ اکثر صورتوں میں عالم کو اپنے علم پر زعم ہوتا ہے جو کبر اور عُجب کی نجانے کون کون سی شکلیں تراش لیتا ہے۔ حلیم الطبع لوگ بلاشبہ معاشرے میں پائے جاتے ہیں مگر اکثر صورتوں میں وہ گہرائی اور گیرائی سے نا آشنا ہوتے ہیں ڈاکٹر حسن صہیب مراد کو اللہ نے نوازا اور اس طرح نوازا کہ لوگوں کے دلوں میں ان کی محبت گھول کر رکھ دی ۔حسن صہیب مراد کی موت پر ایک عالم ہے جو خود سے تعزیت کر رہا ہے ۔تعزیت کی جائے تو کس سے احمد مراد،فاروق مراد،ابراہیم مراد یا سید بلال یا پھر ہم سب کے روحانی بزرگ پروفیسر خورشید احمد صاحب سے!
ان کی حادثاتی اور ناگہانی موت پر ہر فرد اپنے آپ کو محروم سمجھ رہا ہے۔ اس فانی دنیا میں اس سے بڑھ کر اور کیا خوش قسمتی ہوسکتی ہے کہ ایک شخص یوں بے تحاشاسب کا محبوب بن جائے اور ہر فرد اپنے آپ کو اپنے ممدوح سے قریب ترین جانتا ہو، حسن بھائی کے پسماندگان میں کیا افراد،کیا ادارے سبھی شامل ہیں
دنیا با صلاحیت انسانوں سے کبھی خالی نہیں رہتی مگر ایسے انسان جو اپنے کام کو زندہ،فعال اور موثر اداروں کی شکل میں ڈھال دیں وہ ہمیشہ انگلیوں پر گنے جاسکتے ہیں۔

مت سہل ہمیں جانو، پھرتا ہے فلک برسوں
تب خاک کے پردے سے انسان نکلتے ہیں

۔ILM سے UMT، اسلامی نظامت تعلیم سے آفاق، انسٹیٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز سے آئی ایل ایم کالجز اور دی نالج اسکول تک اداروں کی کہکشاں ہے جن کا وجود حسن صہیب مراد صاحب کے دم قدم سے آباد ہے۔ خرم مرادؒ اپنی تحاریر میں جس ادارہ سازی (Institutionalization)
پر زور دیتے رہے ان کے قابل فخر صاحب زادے حسن صہیب مراد نے کیا ہی اچھے انداز میں تعبیر کا روپ دیا۔ چند کمروں سے شروع ہونے والا آئی ایل ایم آج ایکڑوں زمین اور ہزاروں طلبہ و طالبات پر مشتمل ان کے وژن کا عکاس ہے۔
آج UMT اور حسن صہیب مراد لازم و ملزوم ہیں۔ صاحب طرز ا دیب، مختار مسعود نے ایک استعارے میں علی گڑھ کو چھوٹا پاکستان اور پاکستان کو بڑا علی گڑھ قرار دیا ہے اور سر سید احمد خان کا اخلاص و محنت،علی گڑھ کی روح تپاں۔ آج تعلیمی اداروں کے شہر لاہور میں UMT، حسن صہیب مراد کے وژن کا عکاس ہے ۔کہا جاتا ہے کہ بڑے ادارے انسانوں کو کھا جاتے ہیں،انسان کنویں کی مانند اداروں میں اترتا ہے اور اپنے وجود کو اس میں بھلا بیٹھتا ہے۔لیکن اسی ادارے پر وہ تاریخی وقت بھی آیا جب حسن صہیب نے اپنی عمر بھر کی شناخت اور کریڈٹ کو دوسروں کے سپرد کردیا، لوگ اپنے بزنس، اداروں اور کامیابیوں کے حوالے سے اس قدر حق ملکیت کے خوگر (Possessive) ہوتے ہیں کہ جیتے جی اس کریڈٹ کو کسی کے شانے اور سر پر آویزاں نہیں ہونے دیتے۔ اس معاملے میں بھی حسن صہیب مراد منفرد ہیں کہ ایک سال قبل شائستگی، وقار اور باقاعدہ میکنزم کے تحت وہ دونوں ہاتھ جھاڑ کر اپنے محبوب ادارے سے باہر نکل آئے اور کامیابی کا یہ‘نشان حیدر’کسی اور کے کاندھے پر ٹانک دیا۔البتہ اب اس مطمئن روح اور قناعت پسند طبیعت کے سامنے مقابلے کے کچھ اور میدان موجود تھے ۔
ڈاکٹر حسن صہیب مراد سے پہلے میرا تعارف، وابستگی ان کے والد اورتحریک اسلامی کے فکری رہنما، محترم خرم مرادؒ مرحوم سے تھی جو ہندوستانی ریاست بھوپال کی شائستہ تہذیب کی علامت تھے۔ وہ ہمیشہ غیر جذباتی اور سائنسی انداز میں کام کرنے کے عادی تھے جن کی نظر مقاصد پر اور قدم کامیابی کی جانب مائل رہتے۔ 1996۔1995 میں ان سے استفادہ کا جو سلسلہ شروع ہوا وہ آج بھی جاری و ساری ہے۔ حج کا حالیہ سفر میں نے ان کے دروس اور تقاریر کے سہارے مکمل کیا،یوں خرم صاحب مکہ،منی،مزدلفہ،عرفات میں ہر جگہ میرے ساتھ تھے۔خرم مراد کثیر التصانیف آدمی ہیں مگر ان کی اصل تصانیف ادارے ہیں جو انہوں نے تشکیل دیے اوروہ اولاد ہے جن کی تربیت انہوں نے کی۔ محاورتاً نہیں حقیقتاً یہ خاندان‘‘ایں خانہ ہمہ آفتاب است’’تھا اور ہے۔احمد مراد (امریکہ) سے لے کر فاروق مراد (برطانیہ)تک، حسن صہیب مراد سے لے کر اویس طیب مراد تک اسلامک فاؤنڈیشن لیسٹر سے لے کر آئی ایل ایم تک اور ترجمان القران سے لے کر پیغام ڈائجسٹ تک۔۔۔
ھر ذرہ جس جگہ ہے،وہیں آفتاب ہے
خرم مراد مرحوم نے مکہ المکرمہ سے لیسٹر اور ڈھاکہ سے لاھور تک اپنے کام اور کاز سے عشق کیانمٹ نقوش چھوڑے ہیں۔ اب یہ فیض نہ جانے کتنے افراد اور اداروں کو اپنی آغوش میں لے چکا ہے۔
میراحسن صہیب مراد صاحب سے تعارف 1997 کے ابتدائی ایام میں ہوا۔ ان دنوں وہ اسلامی نظامت تعلیم کے سربراہ بنائے گئے،تھوڑے ہی عرصہ بعد وہ آفاق کی سربراہی کے منصب پر فائز ہوئے۔ یہ اتفاق، حسرت اور محرومی سب کچھ ہے کہ چند ماہ کی مختصر مدت میں‘آفاق’کے تین‘نجوم’اس مادی دنیا سے ہمیشہ باقی رہنے والی آخرت کی طرف مراجعت کرگئے۔ مئی میں شاہین رشید، چند روز قبل ڈاکٹر نعیم قریشی اور آج حسن صہیب مراد، کیا ہی خوبصورت تھی یہ کہکشاں جو اپنی چمک دمک ساتھ لے گئی۔ شاہین رشید، حسن صہیب مراد کے ہمقدم بھی تھے اور دمساز بھی۔ ملنسار، حلیم الطبع انسان جو گھاس میں لگے پانی کی طرح سرایت کرتا، اپنے ذمہ لگے کاموں کو خوبصورت انجام تک پہنچا دیتا۔ ڈاکٹر نعیم قریشی رِیڈ فاؤندیشن کی وساطت سے ‘آفاق’ کے افق پر اس طرح جگمگائے کہ یہ تعلق سانسوں کے ڈوبنے تک ان کے ساتھ رہا۔لاہور،کشمیر اور اسلام آباد کی جامعات میں تدریسی اور انتظامی فرائض کی بجاآوری کے باوجود ‘آفاق’کے ساتھ ڈاکٹر نعیم قریشی کی محبت مضبوط تر ہوتی گئی۔تین سال مسلسل کینسر سے نبردآزما ہونے کے بعد یہ متواضع اور ملنسار فرد 7ستمبر کو اپنے آخری سفر پر روانہ ہوگیا۔
یہ سب ڈاکٹر حسن صہیب مراد کے‘نظام شمسی’کے سیاّرے تھے ۔’آفاق’ کو حسن صہیب مراد کا وژن تو حاصل تھا ہی۔ ہم سب کی مشترکہ خواہش اور کوشش تھی کہ UMT کی طرح کی سرفروشی اور دُھن بھی ‘آفاق’ کو مل جائے۔ UMT کے آپریشنز سے سبکدوش ہونے کے بعد حسن صاحب اس کے لئے اپنا ذہن واضح کرچکے تھے۔ ‘آفاق’ کے نئے افق تلاش کرنے کے لیے ہم ابھی صف بندی کر ہی رہے تھے کہ دست قضا نے ہمارے قبیلہ کا سب سے زیادہ ‘آزمودہ’ اور ‘ہنر مند’ شاہ سوار واپس بلا لیا۔
ہر گزرنے والا دن نہ جانے کتنے انسانوں کو فنا کی بھینٹ چڑھا رہا ہے مگر خوش نصیب ہیں وہ لوگ جو اپنے پیچھے اداروں کی صورت میں روحانی اولادیں چھوڑ جائیں جو ان کے اجر کے ذخیروں کو آئے روز نیکیوں سے بھرتی چلی جائیں۔ دل غم سے اٹا ہوا ہے اور نگاہیں آنسوؤں سے پُرمگر مادّی بقا تو رسولوں کو بھی حاصل نہیں رہی ۔

جو زندہ ہے وہ موت کی تکلیف سہے گا
جب احمد مرسل نہ رہے، کون رہے گا

ہاں دوام ہے تو صرف پیام کو، اور اس پیام بر کو جو پیام کے لیے اپنی پوری زندگی تمام کردے۔

ایک سورج قبر کی تیرہ شبی میں گر گیا
میں نے دیکھا ہے سمندر، اِک ندی میں گر گیا
اِک ہمالہ، لوگ شانوں پر اٹھا کر لے گئے
اور میں وحشت زدہ حیرانگی میں گر گیا
اِک یقیں پر کچھ شکست و ریخت کے آثار ہیں
ایک زہریلا تذبذب زندگی میں گر گیا
خوشبوؤں کا ایک جھونکا تھا دماغوں میں رَچا
اِک جنازہ برگِ گُل کی پالکی میں گر گیا
وہ جو پڑھ لیتا تھا ذروّں سے ستاروں کے نصیب
کیوں عطارد سے الجھ کر مشتری میں گر گیا

حصہ