ہردل عزیز۔۔۔ عزیز جبران

587

ظہیر خان
(عزیز جبران کی کتاب ’’جبران سے ملیے‘‘ کی تقریبِ رونمائی میں پڑھا گیا… بر مکان شجاع الدین غوری)
قصّۂ لیلہ و مجنوں تو سنا ہنس ہنس کر
اب جگر تھام کے بیٹھو کہ مری باری آئی
معزّز خواتین و حضرات… آج کی اس بزم میں جو احباب یہاں موجود ہیں سب اہلِ علم ہیں یعنی یہ اہلِ علم و دانش کی محفل ہے۔ میں ابھی طفلِ مکتب ہوں لہٰذا آپ حضرات کے سامنے لب کُشائی کرنے میں تھوڑی سی گھبراہٹ محسوس کررہا ہوں۔ آپ حضرات سے درخواست ہے کہ میرے لیے لہجے میں تھوڑی سی نرماہٹ اور چہرے پر تھوڑی سی مسکراہٹ رکھیں تاکہ میری گھبراہٹ دور ہوسکے… بہت شکریہ…
عزیز جبران صاحب کا حکم ہے کہ اس پر وقار تقریب کے موقع پر میں کچھ پڑھوں…میرے لیے مشکل یہ درپیش ہے کہ میں کیا پڑھوں اور کس طرح پڑھوں کے بات آپ حضرات کو بھلی لگے…بقول شاعر…
اندازِ بیاں گرچہ مرا خوب نہیں ہے
شاید کہ ترے دل میں اتر جائے مری بات
بہرحال کچھ کہنے کے لیے کچھ لکھنا تو پڑتا ہے لہٰذا کسی طرح کوئی سلسلہ جوڑتا ہوں بات سے بات پیدا کرتا ہوں اور بات کا آغاز اس طرح کرتا ہوں کہ…
ناموں کا ذکر اگر کیا جائے تو کچھ نام ایسے بھی ہوتے ہیں جو بظاہر بڑے عجیب سے لگتے ہیں مگر ان ناموں سے اس شخص کا ذریعۂ معاش یا اس کے آبا و اجداد کے ذریعۂ معاش کی نشان دہی بخوبی ہوتی ہے بھلے بعد کی نسل اپنا ذریعۂ معاش تبدیل ہی کیوں نہ کرلے مگر یہ سلسلہ نسل در نسل چلتا ہے اور یہی ان کے ناموں کا ٹریڈ مارک بن جاتا ہے۔
اس طرح کے کچھ نام حاضرِ خدمت ہیں…عبد الجبّار بھائی چاندی والا، عبد الغفّار بھائی بجنوری تانبے والا یا صدر الدّین بدر الدّین موتی والا وغیرہ وغیرہ… اسی طرز کے ناموں میں ایک نئے نام کا اضافہ یا یوں کہا جائے کہ ہمارے اور آپ سب کے دوست شجاع الدین غوری کی نئی دریافت…’’ستّاربھائی بے لاگ والا‘‘ یہ ستّار بھائی کون ہیں آپ سب کے علم میں بخوبی ہے ان کا بے لاگ سے کیا رشتہ ہے میں آپ سب کے گوش گزار کرتا ہوں۔ دراصل بے لاگ ستّار بھائی کی محبوب ترین محبوبہ ہے بقول سعید آغا’’یہ میری concealed wife ہے ذراسمجھا کرو‘‘۔ بظاہر تو یہ ایک سہ ماہی ادبی رسالہ ہے مگر ستّار بھائی کی جان ہے جو اس رسالہ میں ہر دم اٹکی رہتی ہے۔
ستّار بھائی بیمار ہوں، کتنے ہی بے قرار ہوں یا کتنے ہی قرض دار ہوں… بے لاگ ہرتین ماہ بعد اپنے وقت پر طلوع ہوتا ہے اور ہر سو اپنا جلوہ دکھاتا ہے‘ اہلِ علم اور اہلِ ذوق کے ہاتھوں میں پہنچ کر ان سے اپنے حسن و جمال اور نیرنگئی خیال کی داد ضرور وصول کرتا ہے۔
ستّار بھائی المعروف عزیز جبران انصاری کی کتاب ’’جبران سے ملیے‘‘ کی آج تقریبِ رونمائی ہے… یہ بھی سُن گُن ہے کہ بعد ازاں گرم گرم نہاری کھلا کر مہمانوں کی عزّت افزائی ہے۔ اس کتاب میں مختلف احباب کی آراء ان کے مضامین کی شکل میں ہیں۔ مجھ جیسے نا اہل اور ناکارہ کا بھی ایک مضمون اس میں شامل کر کے جو عزّت مجھے بخشی گئی ہے میں اس کے لیے مرتّبین کا ممنون ہوں۔ کتاب میں کیا ہے بقول انور مسعود ’’کنویں میں کیا ہے کنویں میں اُتر کے دیکھتے ہیں‘‘ اس میں ذکر ہے ’’مدھو متی ‘‘ کا۔ معاف کیجیے گا اس میں ذکر ہے ’’پھول متی‘‘ کا یعنی عزیز جبران کی پہلی نوخیز محبوبہ… جس نے عزیز جبران کو عشق سے روشناس کرایا… اور آگے چل کر یہ عشق خوب پھولا پھلا… موصوف ایک جگہ فرماتے ہیں کہ کئی ہستیوں نے مجھے ٹوٹ کر چاہا… اب اس ٹوٹ کر چاہنے میں تھوڑا سا complication یعنی اُلجھائو ہے کہ یہ محاورے والا ٹوٹنا ہے یا پھر دورانِ عشق جو توڑ پھوڑ ہوتی ہے۔ مثلاً ہاتھ پیر یا سر کا ٹوٹنا وغیرہ… بہرحال مصنّف سے پوچھ کر ہم ان کے ماضی کے زخموں کو تازہ نہیںکرنا چاہتے…
اسی تسلسل میں آگے رقم طراز ہیں کہ ہر راہِ عشق میں جلد ہی واپس ہوتا رہا‘ جب کبھی عشق میں شدّت آتی تو شعور آڑے آتا اور وہاں سے پلٹ آتا… اب کتنی جلدی اور کتنے فاصلے سے موصوف پلٹتے تھے اس کا ذکر کہیں نہیں ہے… یہاں بیان میں ڈنڈی ماری گئی ہے۔
اب آگے چلتے ہیں اور دیکھتے ہیں کہ اس کتاب میں اور کیا ہے اس میں ذکر ہے اﷲ میاں کی گائے گا… ویسے بھی بقرعید قریب آنے والی ہے۔ اس میں ذکر ہے ایک ایسے بندۂ خدا کا جس نے مرزا غالب جیسے شاعر کو مسجد میں باقاعدہ باجماعت نماز پڑھوا دی… اس میں ذکر ہے ایک ایسے داناں دشمن کا جس کی دانائی سے خود ذاکر بہت مرعوب ہوا ہے… اس میں ذکر ہے ایک ایسے استاد شاعر کا جس نے اپنی کتاب ’’رموزِ شاعری‘‘ کے ذریعے کتنے شاعروں کی اصلاح کر ڈالی…
غرضیکہ اس کتاب میں بہت کچھ ہے عزیز جبران سے ملاقات کے لیے۔ مگر یہ ملاقات اس وقت تک ادھوری ہے جب تک بندہ عزیز جبران سے بالمشافہ ملاقات نہ کرلے اور ان کی دلفریب اور دیدہ زیب مسکراہٹ اور ان کے پُرخلوص طرزِ تکلّم سے محظوظ نہ ہولے۔ عزیز جبران ایک اچھے شاعر ادیب افسانہ نگار اور ایک بہترین استاد ہونے کے ساتھ ایک بہت اچھے اور نیک انسان بھی ہیں۔ پنڈت برج نارائن چکبست نے عزیز جبران جیسے احباب کے لیے ہی شاید یہ شعر کہا ہے۔
دردِ دل پاسِ وفا جذبۂ ایماں ہونا
آدمیّت ہے یہی اور یہی انساں ہونا
چکبست کے اس شعر کے ساتھ میں اپنی بات ختم کرنا چاہوں گا، اس دعا کے ساتھ کہ اﷲ تعالیٰ عزیز جبران بھائی کو طویل عمر عطا فرمائے کیونکہ ’’عزیز جبران‘‘ نام ہے اس علمی اور ادبی خزانے کا جس سے لاتعداد افراد فیضیاب ہوچکے ہیں اور ہورہے ہیں۔ اﷲ تعالیٰ عزیز بھائی کا سایہ ان کی محبوب ترین اور عزیز ترین محبوبہ ’’بے لاگ‘‘ پر تا دیر قائم رکھے… آمین!

غزلیں

ڈاکٹر اورنگ زیب رہبر

تماشا دیکھنے والے، تماشے اور دیکھیں گے!
فقط نظروں کا دھوکا ہے ،نہ بدلے ہیں، نہ بدلیں گے!
یہی قانونِ فطرت ہے،یہی دستورِ دنیا ہے
جو بویا ہے وہ کاٹیں گے،جوکاٹا ہے سمیٹیں گے !
نگاہِ یار جب اْٹھے،جہاں اپنا بدل جائے
بھلا طوفان آندھی میں بھی، کیا اِس در سے اْٹھیں گے ؟
دیا یونہی جلانا ہے،قدم آگے بڑھانا ہے
فضا میں خوشبوئے زلفِ رخِ یاراں بکھیریں گے
دکھوں کا گر مداوا ہو تو رہبر کی مسیحائی
کوئی ہرگز نہ بھولے گا ،ہمیشہ یاد رکھیں گے

سبیلہؔانعام صدیقی

کسی تصویر میں گم ہو کے اْلفت کی کہانی میں
عقیدت سے اْسے چوما محبت کی کہانی میں
ؒؒتْمہی بس دل میں رہتے ہو تْمہی کو سوچتے ہیں ہم
نہیں اب غیر کی شرکت عنایت کی کہانی میں
ؒترقی کے سمندر میں مشینی زندگی ہے سب
ہْوئے جذبات بھی مفقود جدّت کی کہانی میں
ہْجوم ِ دوستاں بھی کم نہ کر پایا اداسی کو
ہے پنہاں دشت آشفتہ طبیعت کی کہانی میں
رعونت تاج کی مٹی میں آخر مل گئی ساری
مکافات ِ عمل ہونا تھا عبرت کی کہانی میں
فقط اک نام کی خاطر خودی کو جو مٹاتے ہیں
کبھی عزت نہیں پاتے وہ شہرت کی کہانی میں
دَرونِ ذات سے نکلے سبیلہؔ شعر یہ میرے
کئی منظر دکھاتے ہیں ریاضت کی کہانی میں

حصہ