مریم صدیقی
مغربی ثقافت میں جہاں عوام الناس کو زندگی کے ہر شعبے میں بے جا آزادی حاصل ہے وہیں مغربی معاشرہ انہیں آزادی اظہارِ رائے کا حق بھی مہیا کرتا ہے۔ پھر چاہے اس کا استعمال وہ مثبت انداز میں کریں یا جارحانہ انداز بیاں اختیار کریں چوں کہ وہ اس حق کے استعمال میں آزاد ہیں تو جواب طلبی سے مستثنی ہیں۔ مغربی معاشرے کے افراد جہاں زندگی کے تمام شعبوں میں آزادی پسند واقع ہوئے ہیںوہیں اپنی رائے کے بے دھڑک، بے محل اور بے جا استعمال کو بھی وہ آزادی اظہار میں شمار کرتے ہیں اس بات سے قطعی طور پر بے بہرہ کے ان کی یہ آزادی کس کس کے جذبات مجروح کرنے کا سبب بن رہی ہے۔
ہم نے جہاں مغربی ثقافت کی اندھا دھند تقلید میں بے شمار چیزیں ان کی ثقافت سے متاثر ہو کر مستعار لی ہوئی ہیں ان میں سے ایک اظہارِ آزادی رائے بھی ہے۔ آج معاشرے میں جس طرف نظر دوڑائی جائے ہر دوسرا شخص اس کا سہارا لے کر لوگوں کے بخیے ادھیڑتا اور تنقید، عیب جوئی اور غیبت کو آزادی اظہارِ رائے کے پیراہن میں ڈھال کر پیش کرتا نظر آتا ہے۔ دوسروں کی شخصیت، کردار و لباس یہاں تک کہ ذاتی زندگی کو بھی تنقید کا نشانہ بنانا ہم نے اپنا قومی فریضہ سمجھ لیا ہے اور اس کے لیے سوشل میڈیا کی صورت میں بہترین پلیٹ فارم بھی میسر ہے۔ جہاں جب ،جس وقت، جس کا دل چاہے کسی کی بھی شخص کی ذات کو کرید کر تنقید کا نشانہ بنا سکتا ہے۔ اس کی ذات کے تاریک پہلوؤں پر روشنی ڈال کرانہیں تضحیک کا نشانہ بنا سکتا ہے۔
مغرب کی اندھی تقلید میں ہم اپنے مذہب، اپنے دین کی تعلیمات کو بھی یکسر فراموش کر چکے ہیں۔ ہم یہ بات بھی بھول گئے ہیں کہ ہمارا مذہب ہمیں عیب چھپانے کا حکم دیتا ہے۔ تنقید برائے اصلاح بھی تنہائی میں کرنے اور دل آزاری سے بچنے کا حکم دیتا ہے۔ ہم یہ بھی بھول گئے کہ اپنی زبان سے دوسروں کو ایذا دینے والا مومن نہیں ہوتا،ہمارا مذہب اسلام ہمیں زبان کی حفاظت کا درس دیتا ہے لیکن آج ہم محفل میں بیٹھ کر لوگوں کی عیب جوئی کرنے کو آزادی اظہارِ رائے خیال کرتے ہیں۔کہیں محفل میں کسی کی ذات پر اس کے سامنے ہی تنقید شروع کردیتے ہیں اور خود کو صاف گو اور حق پر سمجھتے ہیں، تو کہیں پیٹھ پیچھے تنقید کرکے غیبت جیسے گناہ کبیرہ میں مبتلا ہوجاتے ہیں لیکن اپنے اس عمل کو حق بجانب گمان کرتے ہیں۔
اپنی خرابیوں کو پسِ پشت ڈال کر
ہر شخص کہہ رہا ہے زمانہ خراب ہے
سوچنے کی بات یہ ہے کہ ہم آزادی اظہار رائے کے لیے منفی رویہ ہی کیوں اختیار کرتے ہیں، مثبت رویہ کیوں اختیار نہیں کرتے؟ ہم لوگوں کے عیوب کا چرچا کرنے کے بجائے ان کی صلاحیتوں اور ان کی ذات میں موجود خوبیوں کو کیوں نہیں تلاشتے، ہماری نظر کیوں ایک صحیح بات کو چھوڑ چار غلط باتوں تک جاتی ہے۔ہمیں کیوں دوسروں کی ذاتی زندگی کی فکر ہے؟کون کیا کر رہا ہے اس کا حساب کرنے والے ہم کون ہیں؟ کبھی اس بات پر غور کریں تو ہمیں اندازہ ہوگا کہ ہم کس جانب رواں دواں ہیں. ہماری سوچ، ہمارا نظریہ، ہمارا انداز سب منفی ہوچکا ہے۔ ہم اچھائی سننا اور دیکھنا پسند نہیں کرتے، دوسروں کی صلاحیتیں ہماری آنکھوں میں کانٹا بن کر چبھتی ہیں۔
ہم دوسروں کے معاملے میں کبھی وکیل صفائی کا کردار نہیں ادا کرتے دوسروں کے لیے ہم ہمیشہ اپنی زبان اور عمل سے دو دھاری تلوار کا کردار نبھاتے ہیں۔ آزادی اظہار رائے کا مقصد زبان کو شتر بے مہار کی طرح کھلا چھوڑ دینا نہیں۔ آزادی اظہار کے وقت تہذیب کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوٹنا چاہیے کیوں کہ حضور شمار تو ہمارا اور آپ کا بھی ملائکہ میں نہیں ہوتا، آج جو زبر ہے وہ کل زیر بھی ہوسکتا ہے۔ جن لاتعداد خامیوں کی نشاندہی ہم دوسروں کی ذات ان کے کردار میں کرتے ہیں گر اسی ایک نظر سے ہم اپنی ذات میں موجود خامیوں کو تلاشیں تو یقیناً فائدہ ہی ہوگا۔
نہ تھی حال کی جب ہمیں اپنی خبر،
رہے دیکھتے اوروں کے عیب و ہنر
پڑی اپنی برائیوں پر جو نظر
تو نگاہ میں کوئی بر ا نہ رہا
اظہارِ آزادی رائے غلط نہیں اس کا کثرت سے منفی استعمال غلط ہے۔ دوسروں کی خامیاں تلاشتے تلاشتے ہماری سوچ منفی ہوجاتی ہے، ہمارا موضوع کلام فقط دوسروں کی ذات اور اس میں موجود خامیاں ہی رہ جاتی ہیں جس سے نقصان ہماری ہی ذات کو پہنچ رہا ہے۔ جس زاویے سے دیکھیں یہ عمل ہمارے ہی نقصان کا باعث ہے۔ لمحہ فکریہ ہے ہمارے لیے کہ ہم نسل نو میں کیا طرزِ زندگی منتقل کر رہے ہیں؟ آج جو نفرت کے بیج ہم بو رہے ہیں اپنے منفی رویوں سے، آنے والی نسلوں کو وہ نفرت تناور درخت کی صورت میں ورثے میں ملے گی۔ ذرا سوچیے۔