فرحی نعیم
بہت ہی شوق رہا تیرے نام ہم لکھیں
محبتوں کے وہ قصے تمام ہم لکھیں
ستارے پھول ہوا مہرباں رہے سارے
تمہارے ساتھ گزاری تھی شام ہم لکھیں
ادبی محفلیں اور نشستیں ادب سے شغف رکھنے والوں کے لیے وہی نسبت رکھتی ہیں جو پھول کو خوشبو سے اور چاند کو چاندنی سے ہے۔ یہاں جس محفل کا احوال بیان کیا جارہا ہے وہ ہے ہماری ہر دل عزیز ڈاکٹر عزیزہ انجم کے شعری مجموعے ’’چاندنی اکیلی ہے‘‘ کی تقریبِ پزیرائی، جس کو ڈاکٹر صاحبہ کی ہونہار صاحبزادی جو کہ کینیڈا میں پریکٹس کرتی ہیں، ڈاکٹر جویریہ سعید، پریکٹسنگ فزیشن تو ہیں ہی، ساتھ ہی رائٹر، سوشل میڈیا ایکٹوسٹ کے علاوہ صدر اکنا کینیڈا ویسٹ ریجن اور وومن مینٹل ہیلتھ کیئر پرووائیڈر بھی ہیں۔
یہ تقریب جس کو ’’تقریبِ دوستاں‘‘ کا نام جویریہ نے دیا، یہ محفل جویریہ اور پیما کے ڈاکٹروں کی جانب سے سجائی گئی تھی جہاں محبت و خلوص کی چاشنی بھی موجود تھی وہیں سادگی اور اپنائیت بھی نمایاں تھی۔ ڈاکٹر صاحبہ کا شعری مجموعہ جس کا ان کے چاہنے والوں کو بڑی شدت سے انتظار تھا، آخرکار عید کے بعد منظرعام پر آ ہی گیا تھا۔ ’’فاران‘‘ میں مشہور شاعرہ محترمہ حجاب عباسی کے ہاتھوں رونمائی کے بعد اب دوستوں کے ساتھ اس محفل کو پی ای سی ایچ ایس کمیونٹی سینٹر میں دوسری منزل کے ہال میں سجایا گیا۔ یہاں بھی ڈاکٹر صاحبہ کے دوستوں، جن میں ڈاکٹرز نمایاں تھے، کے ساتھ ادبی حلقہ بھی موجود تھا، اور سب سے بڑھ کر محترمہ صائمہ اسما مدیرہ ’بتول‘ خاص طور پر ڈاکٹر صاحبہ کی اس تقریب میں شرکت کرنے لاہور سے تشریف لائیں اور محفل کو چار چاند لگا دیے۔
ڈاکٹر جویریہ اپنی کمپیئرنگ کے جوہر دکھا رہی تھیں، ان کا بے ساختہ انداز حاضرینِ محفل کے چہروں پر مسکراہٹ کے پھول کھلا رہا تھا۔ انہوں نے مہمانوں کو قیمتی پھولوں اور کلیوں سے تشبیہ دیتے ہوئے محفل کا آغاز کیا۔ نیر کاشف نے ڈاکٹر صاحبہ کے شعری مجموعے سے نعت سنائی۔ پیما کے ڈاکٹروں کے ساتھ ادبی حلقے سے حریم ادب کراچی کی صدر محترمہ عقیلہ اظہر صاحبہ بھی موجود تھیں۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ تحریر ایسی ہونی چاہیے جو دل پر اثر کرے اور جس کے اثرات پڑھنے والوں پر بھی نظر آئیں۔ محترمہ آسیہ بنتِ عبداللہ نے جو کہ ڈاکٹر صاحبہ کی دیرینہ ساتھی ہیں، اظہارِ خیال کرتے ہوئے کہا کہ میرا اور عزیزہ کا رشتہ کئی دہائیوں پر مبنی ہے۔ عزیزہ نے قلم کا حق ادا کردیا۔ ان کی شاعری میں سوز، محبت اور اللہ، رسولؐ سے عشق امڈا پڑتا ہے۔ مشہور کالمسٹ اور مصنفہ محترمہ غزالہ عزیز نے بھی ڈاکٹر صاحبہ کو نازک احساسات اور تخیلات کی شاعرہ قرار دیا اور کہا کہ شاعرہ کی زبان محبت کے علَم برداروں کی استقامت کا اظہار کرتی ہے کہ وہ کہتی ہیں
پھر زمانے نے پکارا ہے سوئے دار و رسن
ہم بڑی شان سے مقتل کو سجانے نکلے
محترمہ افشاں نوید نے بھی ڈاکٹر صاحبہ کی شاعری کو رنگوں سے تشبیہ دیتے ہوئے کہا کہ انہوں نے اپنے لفظوں سے ہمارے چہار طرف رنگ بکھیر دیے۔ آخر میں انہوں نے درخواست کرتے ہوئے کہا کہ اب اگلا مجموعہ بھی جلد ہی آجانا چاہیے۔
مدیرہ بتول نے جو بطورِ خاص ڈاکٹر صاحبہ کی دعوت پر تشریف لائی تھیں، ڈاکٹر صاحبہ کو مبارک باد دیتے ہوئے اپنی یہاں آمد پر خوشی کا اظہار کیا۔ ڈاکٹر صاحبہ کا شعری مجموعہ ’’چاندنی اکیلی ہے‘‘ نہ صرف کتاب کا عنوان نغمگی لیے ہوئے ہے بلکہ کتاب میں موضوعات کا پھیلائو موجود ہے۔ اس کی ہر غزل و نظم حساسیت لیے ہوئے ہے، لیکن اس نغمگی اور حساسیت میں بھی انہوں نے اپنے شعور کو کھونے نہ دیا۔
آخر میں ڈاکٹر عزیزہ انجم نے مہمانوں کی آمد کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ مجھے فخر ہے کہ میں اپنے ساتھیوں کی محبتوں سے مالامال ہوں۔ میری زندگی تین جہتوں میں ہی گھومتی رہی: ڈاکٹری، پیما اور شاعری۔ نہ صرف میں نے اپنا رشتہ کاغذ، قلم سے مضبوط رکھا بلکہ اپنی بیٹیوں کو بھی اس سے جوڑے رکھا۔ محفل میں ڈاکٹر صاحبہ کی ایک اور باصلاحیت صاحبزادی ڈاکٹر امیمہ بھی موجود تھیں۔
ڈاکٹر صاحبہ نے اپنے مجموعے سے دل کو چھو لینے والی نظم بھی بڑے ترنم سے سنائی:
ایسے بھی دن تھے
ہم نے گزارے
اپنے وطن میں
گویا چمن میں
ڈاکٹر صاحبہ لفظوں کی چاندنی پھیلا رہی تھیں اور حاضرین مسحور ہورہے تھے۔ تقریب کو رونق بخشنے کے لیے ادبی حلقے سے نصرت یوسف، نیر کاشف، طوبیٰ احسن، فائزہ مشتاق، اسما قیصر، شاہدہ اکرام اور راقم الحروف کے علاوہ بھی کئی چہرے موجود تھے۔ ایک طرف ڈاکٹرز تھے، دوسری طرف ادبِ عالیہ، اور تیسرا حلقہ ننھے مہمانوں کا بھی تھا جن کی شرکت تقریب میں ایک انہونا سماں باندھ رہی تھی۔ بچوں کی اس کثرت نے بھی محفل کا حسن ماند نہ پڑنے دیا۔ محبتوں اور چاہتوں کے یہ قصے ہمیشہ قائم و دائم رہیں۔ دعا کے بعد ڈاکٹر صاحبہ نے اپنے مہمانوں کے لیے بڑا ہی خاص دستر خوان سجایا اور ہم مزیدار چائے، سموسوں اور چھولوں سے لطف اندوز ہوکر ایک اور خوب صورت محفل کی یادیں دل میں سموئے واپسی کی سیڑھیاں اتر گئے۔