خوش فہمی

1114

حذیفہ عبداللہ
ایک جنگل میں جو کہ جانوروں کا مسکن ہوتا ہے بہت سارے جانوروں کے درمیان ایک خرگوش اور کچھوا بھی رہائش پذیر تھے مزاج، عادات و اطوار کے فرق کے باوجود ان میں گہری دوستی تھی اور ساتھ رہتے، ساتھ ہی گھومتے پھرتے تفریح کرتے۔ خرگوش ایک خوبصورت جانور ہے اس کی پھرتی کا بھی جواب نہیں، تیز رفتاری میں کمال حاصل ہے جبکہ کچھوا ایک بد شکل سست اور کاہل، جہاں رفتار کی بات ہے تو اس کی تو مثال دی جاتی ہے جب کوئی سستی سے قدم اٹھائے آہستہ آہستہ چلے تو کہا جاتا ہے کہ کیا کچھوے کی چال چل رہے۔
ایک دن دونوں دوست نہر کے کنارے بیٹھے ہوئے تھے نہ جانے خرگوش کے دماغ میں کیا آیا وہ بولا میاں کچھوے تم میں تو کوئی خوبی بھی نہیں تم تو بہت آہستہ چلتے ہو جس کے باعث مجھے بھی تمہارے ساتھ آہستہ چلنا پڑھتا ہے جس کے سبب ہم زیادہ دور نہیں جا سکتے اور دوسرے جانور بھی ہمارا مذاق اڑاتے ہیں اور مجھ سے کل لومڑی نے کہا کہ کچھوا تو تمہاری اچھی باتوں کو نہیں اپنا رہا ہے بلکہ تم خود کچھوے کی چال چلنے لگے ہو ایسی بھی کیا دوستی جس میں کوئی اپنی پہچان ہی گنوادے اپنی شناخت ہی ختم کر ڈالے میاں کچھوے تم تیز رفتار نہیں ہو سکتے۔ کچھوے نے کہا کیوں نہیں میں تیز چل سکتا ہوں چاہو تو مقابلہ کر لو۔ خرگوش نے مسکراتے ہوئے رضامندی ظاہر کی اگلے روز ان کے گھر سے نہر تک تیز رفتاری سے چلنے کا مقابلہ طے پایا۔
اگلے روز دونوں اپنے گھروں سے نکلے جو کہ کچھ ہی فاصلے پر تھے اور دوڑ شروع ہوئی دونوں جھاڑیوں سے گزرتے ہوئے اپنی منزل کی طرف رواں دواں تھے خرگوش بہت آگے نکل گیا جبکہ کچھوا اپنی سست رفتاری کے باعث اس سے پیچھے ہی رہا۔ آدھا راستہ طے کرنے کے بعد خرگوش کے ذہن میں آیا کہ وہ کافی آگے آچکا ہے خرگوش تو بہت پیچھے رہ گیا ہے چلو کسی درخت کے سائے میں کچھ دیر آرام کرتے ہیں پھر اپنی منزل یعنی دوڑ کے آخری مقام کی طرف سفر شروع کر دیں کچھوا تو یہاں تک آنے میں ابھی بہت وقت لگائے گا۔ خرگوش نے ایک گھنے درخت کی چھائوں کا انتخاب کیا اور وہاں آرام کی غرض سے بیٹھ گیا اسے نیند آگئی کافی دیر سونے کے بعد جب اس کی نیند کھلی تو وہ گھبرا کر اٹھا اور منزل کی طرف روانہہوا وہ سوچ رہا تھا کہ کچھوا تو ابھی پیچھے ہی ہو گا میں پہلے پہنچ جائوں گا جب خاصی مصافت طے کرنے کے بعد خرگوش ریس کے اختتامی مقام پر پہنچا تو دیکھا کہ کچھوا وہاں موجود ہے اس طرح کچھوا مقابلہ جیت گیا اور خرگوش اپنی رفتار پر گھمنڈ کے باعث سستی کا شکار ہو گیا اسے ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا جبکہ کچھوا سست رفتاری سے ہی مگر مسلسل اپنی منزل کی طرف گامزن رہا اور اس طرح کامیابی ہوئی۔ اگر اپنے متعلق کسی خوش فہمی میں مبتلا رہنے کے بجائے اپنی بساط کے مطابق کوشش جاری رکھی جائے تو کامیابی ضرور ہوتی ہے۔

ال رازی

پیدائش: 864 عیسوی میں ایران کے شہر ’’رے‘‘ میں پیدا ہوئے۔
انتقال: شہر ’’رے‘‘ میں 930 عیسوی میں ہوا۔
اس عظیم سائنسداں کا پورا نام ’’محمد ابن زکریا ال رازی‘‘ تھا۔ البتہ شعبہ طب میں شاندار قابلیت کی بناء پر انہیں ’’عرب کا بقراط‘‘ اور ’’طبیبوں کا طبیب‘‘ بھی کہا جاتا ہے۔ ایرانی علماء اور طبیبوں میں ال رازی کو خاص مقام حاصل ہے، وہ ایک طبیب، کیمیا داں، فلسفی اور مفکر بھی تھے، انہوں نے بہت سے مضامین اور موضوعات پر تحقیقی مضامین لکھے، مشاہدات کی بنیاد پر اہم طبی مسائل کے حل دریافت کئے اور علاج کے نئے طریقے وضع کیے۔ ان کی طبی قابلیت کے چرچے دور دور تک مشہور تھے، انہیں بغداد کا سب سے ماہر طبیب مانا جاتا تھا، انہوں نے ’’بغداد‘‘ اور ’’رے‘‘ شہر کے اسپتالوں کی سرپرستی کے فرائض انجام دینے کے ساتھ ساتھ طالبعلموں کو طب کی تعلیم بھی فراہم کی۔ کہا جاتا ہے کہ شعبہ طب سے ان کی محبت اور لگائو کا عالم یہ تھا کہ انہوں نے اپنی زندگی اپنے مریضوںاور شاگردوں کے لیے وقف کردی تھی۔ کوئی شخص چاہے اس کا تعلق کسی بھی ملک و قوم سے ہو جب علاج یا علم حاصل کرنے کی غرض سے ان کے پاس آتا تو وہ اس کی خدمت میں کوئی کسر باقی نہ چھوڑتے۔
انہوں نے ہی سب سے پہلے ہیومرزم Humorism (قدیم زمانے کی طب، اس نظام کے مطابق انسانی جسم کی چار رطوبتوں میں سے کوئی ایک یعنی خون، بلغم،زرد صفرا اور سیاہ صفرا، جسم کی صحت اور درجہ حرارت متعین کرتی ہیں) کو استعمال کرتے ہوئے متعدی یا وبائی بیماریوں کا فرق بیان کیا، خسرہ اور چیچک کی بیماری پر مفصل مضامین لکھے اور پہلی بار ان امراض کے علاج کے سلسلے میں مفید اور نئے طریقوں کو متعارف کروایا۔
ان کی کتابوں کے تراجم کئی زبانوں میں کئے گئے جنہیں صدیوں تک، مغرب کے لوگ بطور درسی کتب استعمال کرتے رہے، ان کتابوں سے صرف علاج معالجے کے نئے طریقے ہی نہیں سیکھے گئے بلکہ اس زمانے میں ال رازی کی لکھی ہوئی یہ کتابیں طب کی تعلیم فراہم کرنے کا سب سے بڑا اور اہم ذریعہ تھیں۔ سرجری اور تھراپی پر لکھی گئی کتابیں خاص طور پر نصاب کا حصہ رہیں۔ اس سلسلے میں ان کی مشہور کتاب کا نام ’’کتاب المنصور‘‘ ہے۔ ال رازی کا ماننا تھا کہ ایک انسان کی صحت پر اس کی نفسیاتی کیفیات اور خوراک اثر انداز ہوتی ہے۔ اسی مشاہدے نے آگے چل کر جدید سائنس میں ’’علم الاغذیہ یا غذائیات Dietetics‘‘ کی بنیاد رکھی اور صحت اور بیماری میں غذا کے سائنسی اصولوں کا استعمال شروع کیا گیا۔ انہوں نے 200 سے زائد اہم موضوعات پر کتابیں لکھیں۔ انہیں علم امراض چشم (Ophthalmology) یعنی سائنس کی وہ شاخ جو آنکھ کی ساخت، بصارت، امراض کے بارے میں بحث کرے اور طب اطفال (Pediatrics) یعنی سائنس کی وہ شاخ جو بچوں کے طبی علاج سے وابستہ ہو، کا بانی کہا جاتا ہے۔

حصہ