تنویر اللہ خان
حکومت سازی اور کردار سازی دو مختلف کام ہیں پہلے کے لیے کسی اخلاقیات،کسی اصول، کسی متعین وقت کی پابندی نہیں ہوتی، جناب ذوالفقار علی بھٹو نے سب کچھ داو پر لگا کر پہلے ہی ہلے میں حکومت بنالی اسی طرح الطاف حسین ہر اصول و اخلاق، انسانیت کوپائمال کرکے چند برسوں میں اقتدار کے ایوانوں میں پہنچ گئے، زرداری صاحب نے بنی بنائی پیپلزپارٹی ہتھیا لی اس ڈاکے کے انعام میں حکومتی اختیار اور خزانہ اُن کو مل گیا، اسی طرح جناب عمران خان سترہ برس کی طویل سُستی اور پانچ برس کی مختصرچُستی کے بعد وزیر اعظم بن گئے۔
ہمارے عوام و خواص جب بات کرتے ہیں تو کہتے ہیں کہ سیاسی جماعتوں میں موروثیت نہیں ہونی چاہیے، سیاسی جماعتوں میں جمہوریت ہونا چاہیے، سیاسی جماعتوں میں نئے لوگوں کو بھی قیادت کا موقع ملنا چاہیے، لیکن جب وقت آتا ہے تو ان نقادوں، اصول پرستوں، جمہوریت پسندوں کا انتخاب وہی موروثی، غیر جمہوری، روائتی سیاسی جماعتیں ہی ہوتی ہیں۔
دوسرا کام کردار سازی کا ہے جو اصول، اخلاق اور طویل محنت اور توجہ کا تقاضا کرتا ہے اسی لیے تمام جانداروں میں انسان کا بچہ بولنے میں چلنے میں حالات کے سرد گرم کو سمجھنے میں جانوروں کے مقابلے میں بہت زیادہ وقت لیتا ہے، انسان کے بچے کو اپنے پاوں پر کھڑا ہونے کے لیے اور پھر انسان بننے کے لیے طویل وقت درکار ہوتا ہے اسی لیے مغربی معاشرہ جو عمومی معاملات میںجذبات کے بجائے دو چار کے فارمولے پر قائم ہے وہ بھی اپنے بچوں کو عملی زندگی میں جانے کے لیے اٹھارہ برس تیاری کا وقت دیتا ہے۔
تحریک انصاف جناب عمران خان کے بڑھاپے کی اولاد ہے اور خود بھی بائیس سال کی نوخیز عمر سے گُزر رہی ہے ان بائیس برسوں میں عمران خان نے اپنے کارکنوں، لیڈروں کی اخلاقی اور سیاسی تربیت کو غیر ضروری سمجھتے ہوئے اس پر توجہ نہیں دی بلکہ اُنھوں نے اپنی نوعمر، نوخیز، ناتجربہ تحریک انصاف کو چالاک، عیار، موقع پرست، مفاد پرست سیاست دانوں کا ٹیکہ لگا کر کھڑا کردیا ہے اور اب کرکٹ کے کپتان اس مغالطے میں مبتلاہیں کہ وہ وہ ان نمکولیوں سے آم اُگا لیں گے، اب تک کا انسانی تجربہ تو یہ ہے کہ ایسا ہونا نا ممکن ہے، ہماری دعا ہے کہ اللہ عمران خان کے لیے ان کے دعوں پر عمل کرنا ممکن بنادے۔
ہم پاکستانی پہلے ہی قول عمل کے تضاد کا شکار ہیں، سفارش، اقربا پروری اور منافقت کی حد تک بڑھا ہوا لحاظ ہمارے معاشرے کی اخلاقیات کا تانا بانا ہے، مرے کو مارے شاہ مدار کے مصداق میڈیا خاص طور پر سوشل میڈیا کے بے اعتدال استعمال ہماری اخلاقیات، روایات کا مزید ستیا ناس کردیا ہے۔
بلاشبہ پی ٹی آئی کے کارکن سوشل میڈیا کے ماہر شہسوار ہیں اُنھوں نے سوشل میڈیا کو عملی کام کا بدل سمجھ رکھا ہے اور وہ فیس بُک پر ہر طرف ہرا ہی ہرا بتا رہے ہیں، یہی کام تحریک انصاف کے مین اسٹریم لیڈر مین اسٹریم میڈیا یعنی اخبارات اور ٹیلی وژن پر کررہے ہیں۔
جناب شیخ رشید ٹی وی پر اعلان کرتے ہیں کہ میں بدلا ہوا شیخ رشید ہوں یہ ٹھیک ہے کہ اُنھوں نے وضاحت نہیں کی تھی کہ ان کا یہ بدلاو مثبت ہے یا منفی ہے لیکن حسن ظن کی بناء ہم نے سمجھا کہ شیخ رشید پہلے بُرے تھے اب اچھے ہوگئے ہیں لیکن دو ہی دن میں شیخ صاحب نے اپنی مبینہ تبدیلی کی ڈیماسٹرشن کردی، شیخ صاحب اپنے گھر جارہے تھے راستے میں معمول کے مطابق بے ہنگم ، بے ترتیب موٹر سائیکلیں کھڑی تھیں اب سے پہلے شیخ صاحب ان موٹرسائیکلوں سے بچے بچاتے گھر پہنچ جاتے تھے لیکن اب کیوں کہ شیخ صاحب خود معمولی نہیں ہیں لہٰذا اُنھیں ادنی اور معمولی موٹرسائیکلوں کا معمول کے مطابق کھڑے ہونا سخت ناگوار گُزرا اور اُنھوں بیچ چوراہے پر کھڑے ہوکر عوام کو بتایا، کہ وہ اگر چاہیں تو ان موٹرسائیکلوں کو ایک چٹکی کے اشارے سے اُٹھوا سکتے ہیں حالانکہ حقیر لوگوں کی معمولی سی موٹرسائیکلوں کو اُٹھوانے کے شوق کو پورا کرنے کے لیے شیخ صاحب کو اتنی محنت کرکے ممبر اسمبلی بننے کی اور پھر تمام تر وقار کو چھوڑ کر چاپلوسی سے وزارت حاصل کرنے کی ضرورت نہیں تھی یہ کام تو ایک پولیس افسر بھی باآسانی کرسکتا ہے۔
شیخ صاحب کے ممدوح پرویز مشرف کے ہاتھوں آزاد میڈیا کی داغ بیل پڑی شیخ صاحب کو کیا پتا تھا کہ میڈیا کا یہ بیل بڑے ہوکر شیخ صاحب کو داغ دے گا۔
ریلوے کے ادنی سے بڑے افسران، سگار پیتے ہوئے مغل بادشاہوں کے انداز میں براجمان شیخ صاحب کے سامنے اپنی کارگُزاری پیش کررہے تھے جس طرح بادشاہ اپنے سوا کسی کا نام سُننا پسند نہیں کرتے لہٰذا شیخ صاحب کو بھی سابقہ ریلوے وزیر سعد رفیق کا نام لینا اس قدر ناگوار گُزرا کہ انھوں نے رپورٹ کو رضیہ بٹ کا ناول قرار دے کر منہ بند کرنے کا حکم دے مارا، رضیہ بٹ کے ناول کا ذکر شیخ صاحب اس تکرار سے کرتے ہیں کہ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اُنھوں نے اپنی ساری جوانی رضیہ بٹ کے ناول پڑھنے میں برباد کی ہے، بہرحال یہ ہے بدلاہوا شیخ رشید اور نیا پاکستان۔
ایک اور پُرانا لیکن پی ٹی آئی کے لیے نیا اور تازہ دم عثمان بزدار جو پشتی نہ صیح لیکن جدی سیاست دان ضرور ہیں اُن کی دو نسلیں سیاست میں ہونے کے باوجود اپنے گاوں کو بجلی کی روشنی نہ دے سکیں، ایسا نہیں ہے کہ عثمان بزدار صاحب خود بھی اپنے گاوں کے دوسرے لوگوں کے ساتھ اندھیرے کی تکلیف اُٹھاتے ہیں بلکہ اُنھوں نے اپنے گھر کو سولر پینل سے روشن کررکھا ہے تاکہ کمی کماروں میں نمایاں رہیں، اب وہی عثمان بزدار پورے صوبہ پنجاب کو ترقی دینے کا کام انجام دیں گے، اپنے گاوں کو پس ماندہ رکھنے والا پورے صوبے کوکیسے ترقی دے گا ؟۔
ایسا لگتا ہے کہ جناب عمران خان نے خود بزدار صاحب کا بیک سیٹ ڈرائیور بننے کا فیصلہ کیا ہے اس کے لیے ڈرائیور کا نالائق ہونا ضروری ہے لہٰذا داد دینی چاہیے کہ اناڑی بزدار کے انتخاب میں عمران خان نے اچھی مہارت کا مظاہرہ کیا ہے۔
عثمان بزدار نے بھی وزارت اعلی کا حلف اُٹھانے کے بعد فرمایا کہ وہ عمران خان کے وژن کے مطابق کام کریں گے، لیکن بعد میں انھوں نے جوکیا اُس سے معلوم ہوتا ہے کہ اُنھیں نہ عمران کے وژن کا معلوم تھا اور نہ وہ اُس کے مطابق عمل کی کوئی حس رکھتے ہیں۔
عثمان بزدار نے پنجاب میںاچھے زمینی راستے ہونے کے باوجود سرکاری جہاز میں معہ اہل و عیال شوقیہ سواری کا اہتمام فرمایا، مختصر سے جہاز میں سوار ان کے کسی فیملی ممبر نے تصویر بناکر سوشل میڈیا پر اپ لوڈ کردی اس ساری کاروائی سے اندازہ ہوتا ہے کہ بزدار صاحب سادگی، کفایت شعاری، عام آدمی کی طرح رہنے کے مفہوم سے ہی واقف نہیں لہٰذا وہ عمران خان کے مبینہ وژن پر عمل کیا خاک کریں گے۔
جناب عمران خان اور اُن کی جماعت کو سمجھنا چاہیے کہ اچھی اچھی بڑی بڑی باتیں کرنا جتنا آسان ہے اُن پر عمل کرنا اُتنا ہی مشکل ہے، اب عمران خان اور اُن کی حکومت کو چاہے نہ چاہے عمل کی مشکل سے گُزرنا ہوگا عمران خان نے سنجیدگی سے وعدے کیے ہوں یا نہ کیے ہوں عوام نے اُن کے وعدوں کو سنجیدہ لیا ہے اور اُن سے اپنی امیدیں لگالی ہیں لہٰذا عمران خان کی بے عملی اور ناکامی محض ایک سیاست دان کا ناکامی نہیں ہوگی بلکہ عمران خان کی ناکامی جمہوریت، انتخابات، وعدوں پر یقین کو لے بیٹھے گی۔
عمران خان اور اُن کی جماعت کو اب اعلانات، وعدے، دعوے زیب نہیں دیتے اُنھیں اب منہ بند کرکے خاموشی سے کام کرنا چاہیے اور وعدے کے مطابق عوام، مدینے جیسی ریاست، نیا پاکستان، جدید دُنیا سے ہم آھنگ پاکستان کی تعمیر میں کھپ جانا چاہیے۔
ہرشہری کو پانچ لاکھ سالانہ میڈیکل کارڈ کے اجرا کا پروسس تو فوری طور پر کیا جاسکتا ہے کم از کم اس صحت کارڈ کے ڈئزائن، چھپائی کا کام تو شروع کردیں تاکہ عوام کچھ ہوتا نظر آئے۔
تحریک انصاف اپنی مرکزی ٹیم اور سرکاری بیوروکریسی کو سادگی، کفایت شعاری، بنا پروٹوکول وزارت کی تفصیلات کی تعلیم وتربیت کا اہتمام کرنا چاہیے تاکہ وہ ان الفاظ کے معنے جان سکیں بہ صورت دیگر ممکن ہے کہ عمران خان فرمائیں کہ مجھ سے پہلے حکمران 80 گاڑیوں کا پروٹوکول لیتے تو میں ایسا نہیں کروں گا جواب میں اُن کا عملہ 81 گاڑیوں کا پروٹوکول اُن کے ساتھ کردے اور بعد میں فواد چوہدری عذر گناہ بدتر از گناہ فریضہ انجام دیتے رہیں۔