شریک مطالعہ

2684

نعیم الرحمن
’’پاکستانی ادب کے معمار‘‘ اکیڈمی ادبیات پاکستان کا بہت اہم اور کارآمد اشاعتی منصوبہ ہے جس کے تحت ملک کی مختلف زبانوں کے اہم مصنفین، ادباء اور شعراء کی خدمات کا اعتراف کیا جاتا ہے اور مشاہیرِ ادب کی شخصیت اور فن سے عام قاری کو متعارف کرایا جاتا ہے۔ ان کتب سے قارئین کے علاوہ محققین کو پاکستان کے اہم ادباء و شعراء پر تحقیقی اور تنقیدی معلومات دستیاب ہوتی ہیں۔ اس معلوماتی ادبی سلسلے کی اب تک 134 کتب شائع ہوچکی ہیں جن میں علم وادب کے ہر شعبے اور پاکستان کی ہر زبان سے تعلق رکھنے والی شخصیات مولانا صلاح الدین احمد، ساغرصدیقی، شاہ حسین، سرسید احمد خان، حکیم محمد سعید، سلطان باہو، خوشحال خان خٹک، میرگل خان نصیر، شیخ ایاز، احمدراہی، اجمل خٹک، وارث شاہ، رحمان بابا، قلندرمومند، امیرحمزہ شنواری، مست توکلی، خواجہ غلام فرید، سچل سرمست، شاہ عبداللطیف بھٹائی، صوفی عنایت شاہ، بابا بلھے شاہ، ابن صفی سے لے کر دورِ حاضر کے سلیم کوثر، خالدہ حسین، احمد بشیر، استاد دامن اور عطاء الحق قاسمی جیسی شخصیات پر کتب پیش کی جاچکی ہیں۔ پاکستانی ادب کے معمار میں تازہ کتاب اردو کے نامور مصنف، ادیب، ناول نگار، افسانہ نگار اور سفرنامہ نگار مستنصر حسین تارڑ کی شخصیت اور فن پرمبنی ہے۔
کتاب کے مصنف معروف ادیب، دانشور اور استاد ڈاکٹر غفور شاہ قاسم ہیں۔ اس پر نظرثانی افسانہ نگار ڈاکٹر امجد طفیل نے کی ہے۔ ڈاکٹر غفور شاہ قاسم کسی تعارف کے محتاج نہیں ہیں۔ وہ میانوالی کے دورافتادہ قصبے سوانس میں 1952ء میں پیدا ہوئے۔ انہوں نے اردو، پولیٹکل سائنس اور انگلش میں ماسٹرز کیا۔ اردو میں ایم فِل اور پی ایچ ڈی کی اسناد بھی حاصل کیں۔ غفور شاہ کے تنقیدی مضامین پاک وہند کے مؤقر ادبی جرائد میں شائع ہوتے رہتے ہیں۔ انہوں نے مختلف کالجوں میں بطور لیکچرر اوراسسٹنٹ پروفیسر بھی خدمات سرانجام دیں۔ وہ دس سال سے ایف سی کالج یونیورسٹی میں بطور ایسوسی ایٹ پروفیسر اردو ذمے داری انجام دے رہے ہیں۔ 1995ء میں ڈاکٹر غفور شاہ قاسم کی پہلی تنقیدی کتاب ’’پاکستانی ادب1947تاحال‘‘ شائع ہوئی، جس سے بطور ناقد اُن کا ادبی دنیا سے تعارف ہوا۔ دوسری کتاب ’’پاکستانی ادب شناخت کی نصف صدی‘‘ 2002ء میں منصۂ شہود پر آئی۔ جبکہ دیگر تصانیف میں ’’ملک منظورحسین، احوال وآثار‘‘، ’’حجاب‘‘، ’’امتیازعلی تاج، شخصیت و فن‘‘ اور’’تعبیرِحرف‘‘ بھی قارئین کی داد سمیٹ چکی ہیں۔
پیش لفظ میں ڈاکٹرغفور شاہ لکھتے ہیں ’’مستنصر حسین تارڑ ایک ہمہ جہت ادبی شخصیت ہیں۔ انہوں نے اردوادب کی کئی اصناف پر اپنے فن کے گہرے نقوش ثبت کیے ہیں۔ بطور سفرنامہ نگار قارئین سے سندِ قبولیت حاصل کرنے کے بعد انہوں نے ناول نگاری میں قدم رکھا تو اس صنف میں بھی قومی اور بین الاقوامی سطح پر اپنے فن کا لوہا منوایا۔ وہ ایک مستند افسانہ نگار، کالم نگار، خاکہ نگار اور ڈراما نگار کے طور پر اپنی تخلیقی صلاحیتوں کا دنیائے ادب سے اعتراف کرا چکے ہیں۔ وہ ایک کل وقتی ادیب اور بیسٹ سیلر قلم کار ہیں۔ گویا کمالاتِ فکر و فن کا چمنستان کھلا ہوا ہے جس کو لفظوں کی گرفت میں لانا بہتے پانی میں گِرہ لگانے کے مترادف ہے۔ دنیا بھر میں اُن کے فن پر لکھا گیا اور لکھا جارہا ہے۔ جامعات میں اُن کی شخصیت اور فن پر تحقیقی مقالات قلمبندکیے گئے ہیں۔ اس لحاظ سے یہ ایک تعارفی اور اُن کے فن کے حوالے سے ابتدائی نوعیت کی کتاب ہے جو یقینا مستنصرحسین تارڑ سے محبت کرنے والوں اور ادب کے طالب علموں کو ان کی شخصیت اور فن کے بارے میں بنیادی معلومات فراہم کرنے میں مددگار ثابت ہوگی۔‘‘
کتاب کے آغاز میں مستنصرحسین تارڑ کی متعدد رنگین اور بلیک اینڈ وائٹ تصاویر مختلف شخصیات کے ساتھ شائع کی گئی ہیں۔ مصنف نے کتاب کو پانچ ابواب میں تقسیم کیا ہے۔ پہلا باب سوانح اور شخصیت پر ہے۔ جس کے بیس ذیلی عنوانات کے تحت مزید تفصیلات ہیں جن میں ’’خاندانی پس منظر‘‘، ’’بچپن لڑکپن‘‘ اور’’تعلیم‘‘ کے ابتدائی تین حصوں میں مستنصر حسین تارڑ کے بارے میں معلومات فراہم کی گئی ہیں، جس سے تارڑ کے بارے میں قارئین کوکئی نئی باتوں کا علم ہوتا ہے اور انہیں اپنے پسندیدہ مصنف سے بخوبی واقف ہونے میں مدد ملتی ہے۔ تارڑکے والد چودھری رحمت اپنے والد چودھری امیر بخش کے اکلوتے بیٹے تھے۔ باپ بیٹے کا تعلق آبائی پیشے کاشتکاری سے تھا۔ لیکن ان کی اگلی نسل میں ایک کاشتکار کے بجائے قلمکار اور تخلیق کارکی پیدائش کسی کے گمان میں بھی نہ تھی۔ چودھری رحمت خان میٹرک تک تعلیم حاصل کرسکے لیکن لکھنے پڑھنے سے انہیں ہمیشہ شغف رہا۔ وہ تلاشِ معاش میں قصبہ جوکالیاں سے لاہور کا رُخ کرنے والے جاٹ خاندان کے پہلے فرد تھے، جہاں وہ پھلوں اورسبزیوں کے بیجوں کی خریدوفروخت سے وابستہ ہوئے۔ انہوں نے زراعت پر بیس پچیس کتابیں بھی لکھیں جو اردو میں اس شعبے کی اولین تصانیف ہیں۔ چودھری رحمت خان کی لاہور منتقلی ہی مستنصر حسین تارڑ کے ادیب بننے کا سبب بنی۔ گورنمنٹ کالج لاہور میں تعلیم کے دوران مستنصرحسین تارڑ کے کوہ نوردی سے عشق کا آغاز ہوا۔ انٹرسے قبل والد نے انہیں ہوزری ٹیکسٹائل ڈپلوما کرنے انگلینڈ بھیج دیا۔ اور یہیں سے ان کی آوارگی شروع ہوئی جو متعدد سفرناموں کا باعث بنی۔
انگلینڈ کے قیام کے دنوں میں ہی تارڑ کو ماسکو جانے کا موقع ملا، جس پر ان کی اولین تحریر’’لنڈن سے ماسکو تک‘‘ چار اقساط میں ’قندیل‘ میں 1958ء میں شائع ہوئی۔ اسی باب میں مستنصر حسین تارڑکی شادی، اولاد، ذریعۂ معاش، حلیہ، وضع قطع، لباس، شخصیت، عادات اور معمولات،خوراک اور خصوصی دلچسپیاں اور مشاغل کے ذیلی عنوانات کے تحت معلومات فراہم کی گئی ہیں۔ جس کے بعد پسندیدہ ادیب، پسندیدہ سفرنامہ نگار، پسندیدہ مصور، پسندیدہ شخصیات، اعزازات وامتیازات، نظریہ فن اور مطبوعہ تخلیقات و نگارشات کی تفصیل بھی دی گئی ہے۔ آخر میں حوالہ جات ہیں۔ مطبوعہ کتب میں سفرنامے ’’نکلے تری تلاش میں‘‘، ’’اندلس میں اجنبی‘‘، ’’خانہ بدوش‘‘، ’’ہنزہ داستان‘‘، ’’سفرشمال کے‘‘، ’’کے ٹو کہانی‘‘، ’’نانگاپربت‘‘، ’’یاک سرائے‘‘، ’’سنولیک‘‘، ’’دیوسائی‘‘، ’’برفیلی بلندیاں‘‘، ’’چترال داستان‘‘، ’’رتی گلی‘‘ سے لے کر تازہ سفرنامے ’’لاہورآوارگی‘‘ کا نام بھی درج ہے۔ جبکہ ناولوں میں پکھیرو، دیس ہوئے پردیس، جپسی، فاختہ، بہاؤ، راکھ، قُربتِ مرگ میں محبت، ڈاکیا اور جولاہا، قلعہ جنگی، خس وخاشاک زمانے، اے غزال ِ شب، اور پیارکا پہلا شہر… اور افسانوں میں سیاہ آنکھ میں تصویر اور پندرہ کہانیاں کے علاوہ ٹی وی ڈرامے، کالم کے کئی مجموعے بھی شامل ہیں۔
کتاب کا دوسرا باب مستنصرحسین تارڑ کی سفرنامہ نگاری کے بارے میں ہے، جس میں ان کے 22 سفرناموں کا تجزیاتی مطالعہ کیا گیا ہے۔ باب کے آغاز میں غفورشاہ قاسم نے اردو سفرنامہ نگاری کا مختصرجائزہ بھی پیش کیا ہے، جس میں یوسف خان کمبل پوش کے اولین اردو سفر نامے سمیت کئی سفرناموں کا ذکر ہے۔ خود مستنصرحسین تارڑ کے نزدیک سیاحت ایک دیوانگی ہے۔ ایک آوارگی، جس سے روح سیراب ہوتی ہے۔ وہ اپنی سفرنامہ نگاری کے بارے میں کہتے ہیں ’’کئی لوگ پوچھتے ہیں اور جاننا چاہتے ہیں کہ کیا سفر محض اس لیے اختیار کرتا ہوں کہ واپسی پر سفرنامہ لکھ سکوں؟ ایسا ہرگز نہیں ہے۔ میں نے زندگی کے بیشتر سفر اُن زمانوں میں کیے جب میں واپسی پر کچھ بھی نہ لکھتا تھا۔ میں ایک ادیب نہ بھی ہوتا تو بھی اتنے ہی سفر کرتا جتنے کہ میں نے کیے، کہ میں آوارگی، جذبۂ جنون، اور اس کی روداد قلم بند کرتا ہوں تو لوگوں کو اپنے سفر میں شریک کرنے کے لیے اور… اس سفر کو پھر سے زندہ کرنے کے لیے… گویا میں ایک اور سفر پر نکل جاتا ہوں اور یہاں ایک سفرنامہ نگار دوسرے مسافروں سے کہیں زیادہ بخت والا ہوجاتا ہے، کہ وہ دوبارہ انھی کیفیتوں، مسرتوں، اذیتوں، مشقتوں اور خوبصورتیوں میں سے گزرتا ہے۔‘‘
تارڑ نے تقریباً پوری دنیا گھومی اور اس پر سفرنامے، ’’نکلے تری تلاش میں‘‘، ’’اندلس میں اجنبی‘‘، ’’خانہ بدوش‘‘، ’’سنہری اُلّوکی تلاش‘‘، ’’نیپال نگری‘‘، ’’ماسکو کی سفید راتیں‘‘، ’’پتلی پیکنگ کی‘‘ اور ’’نیویارک کے سورنگ‘‘ وغیرہ لکھیں۔ پھر پاکستان کے شمالی علاقہ جات کو اہل وطن سے متعارف کرانے میں بھی ان کا اہم کردار ہے۔ ’’ہنزہ داستان‘‘، ’’سفرشمال کے‘‘، ’’کے ٹوکہانی‘‘، ’’نانگاپربت‘‘، ’’یاک سرائے‘‘، ’’سنو لیک‘‘ ان کے ایسے ہی سفرنامے ہیں۔ پھر ’’منہ ول کعبے شریف‘‘ اور’’غارِ حرا میں ایک رات‘‘ سفرنامے سے بڑھ کر رپورتاژ ہیں۔ اس کے علاوہ ’’اور سندھ بہتا رہا‘‘،’’لاہورآوارگی‘‘ اور’’پیارکا پہلا پنجاب‘‘ پاکستان کے میدانی علاقوں کے سفرنامے ہیں۔ ان تمام کا تجزیہ بہت عمدگی سے غفورشاہ قاسم نے کیا ہے اور قارئین کو مستنصر حسین تارڑ کے کمال ِ فن سے بخوبی آشنا کیا ہے۔
کتاب کا تیسرا باب مستنصر حسین تارڑ کی ناول نگاری کے بارے میں ہے۔ سفرنامہ میں اپنا رنگ جمانے کے بعد وہ ناول نگاری کی طرف متوجہ ہوئے اور ایک اچھے ناول نگارکی حیثیت سے خود کو تسلیم کروا لیا۔ بطور سیاح انہوں نے خوبصورت مناظر کو بخوبی اپنی کہانیوں کے پس منظرکے طور پر استعمال کیا۔ ان کے کئی ناول سیاحت اور ناول نگاری کے امتزاج پر مبنی ہیں۔ انہوں نے بطور ناول نگار جو مقبولیت اور قاری کا اعتماد حاصل کیا ہے اُس کے پیش نظر یہ فیصلہ کرنا دشوار ہوگیا ہے کہ وہ بہتر سفرنامہ نگار ہیں یا ناول نگار؟ غفور شاہ قاسم نے ’’پکھیرو‘‘، ’’پیار کا پہلا شہر‘‘، ’’فاختہ‘‘، ’’جپسی‘‘، ’’دیس ہوئے پردیس‘‘، ’’راکھ‘‘، ’’بہاؤ‘‘، ’’قلعہ جنگی‘‘، ’’ قُربتِ مرگ میں محبت‘‘، ’’ڈاکیا اور جولاہا‘‘، ’’ خس و خاشاک زمانے‘‘ اور ’’اے غزال شب‘‘ سمیت مستنصر حسین تارڑ کے تمام ناولوں کا بھرپور جائزہ لیا ہے، جس سے قاری کو ان کے فن کی تفہیم میں آسانی ہوتی ہے۔
کتاب کا باب چہارم تارڑ کی افسانہ نگاری پر مشتمل ہے، جس میں ان کے دونوں افسانوی مجموعوں ’’سیاہ آنکھ میں تصویر‘‘ اور ’’پندرہ کہانیاں‘‘ کا بھرپور تعارف کرایا گیا ہے۔ جبکہ پانچویں باب میں متفرق اصنافِ کالم نگاری، خاکہ نگاری اور ڈراما نگاری پر ایک بھرپور نگاہ ڈالی ہے۔ غرض ’’مستنصر حسین تارڑ، شخصیت اور فن‘‘ ایک مکمل اور بھرپورکتاب ہے جس میں مصنف کے قلم کے ہر پہلو پر نظر ڈالی گئی ہے اورکسی شعبے کو تشنہ نہیں چھوڑا گیا۔ تارڑ فہمی کے لیے یہ کتاب سنگِ میل کی حیثیت رکھتی ہے، جس کے لیے ڈاکٹرغفورشاہ قاسم مبارک باد کے مستحق ہیں۔ اکیڈمی ادبیات کی بھی ’’ادب کے معمار‘‘ جیسے کارآمد سلسلے کے جاری رہنے پر تحسین ضروری ہے۔
۔۔۔۔۔
سرعبدالقادر کا’’ مخزن‘‘ اردوکے ابتدائی ادبی جریدوں میں نمایاں ترین نام ہے، جس کے صوری اور معنوی حسن کے تذکرے کتابوں ہی میں پڑھے ہیں۔ مخزن سے اردو ادب کا جو کارواں شروع ہوا تھا، آج ایک صدی گزرنے کے بعد بلندیوں پر پہنچ چکا ہے۔ قیام پاکستان کے بعد بہت سے ادبی جرائد نے شہرت کے جھنڈے گاڑے اورگلشنِ ادب کی آبیاری کی، جن میں سرفہرست محمد طفیل کا ’’نقوش‘‘ ہے، جس کے نمبروں کی آج بھی دھوم اور مانگ ہے۔ ’’افسانہ نمبر‘‘،’’شخصیات نمبر‘‘،’’آپ بیتی نمبر‘‘، ’’لاہورنمبر‘‘، ’’منٹونمبر‘‘، ’’شوکت تھانوی نمبر‘‘، ’’ادبی معرکے نمبر‘‘، ’’خطوط نمبر‘‘ اور ان سب سے بڑھ کر 13 جلدوں پر مبنی ’’رسول نمبر‘‘ پر کون فدا نہیں! حال ہی میں رسول نمبر اشاعتِ نو پر ہاتھوں ہاتھ لیا گیا۔ افسوس کہ نقوش کا ’’قرآن نمبر‘‘ چار جلدوں سے آگے نہ بڑھ سکا اور نامکمل رہا۔ ’’سویرا‘‘ لگ بھگ ستّر سال سے اب بھی شائع ہورہا ہے۔ اس کہکشاں میں ’’مکالمہ‘‘، ’’لوح‘‘، ’’اجرا‘‘، ’’کولاژ‘‘ اورکئی اور عمدہ جرائد بھی شامل ہوچکے ہیں اور ادب کی خدمت کررہے ہیں۔
لیکن ’’مخزن‘‘ کے نام کا جادو ہی کچھ اور ہے۔ یہ جریدہ کئی بار شروع ہوا، بند ہوا، اور پھر جاری ہوگیا۔ برطانیہ میں مقیم افسانہ نگار مقصودالٰہی شیخ نے بھی ’’مخزن‘‘ کے نام سے ادبی جریدہ جاری کیا۔ یہ خوبصورت جریدہ دس شماروں کے بعد بند ہوگیا۔ قائداعظم لائبریری لاہور ’’مخزن‘‘ دورِجدید کی اشاعت کا سلسلہ برقرار رکھے ہوئے ہے، جس کے مدیر ڈاکٹر تحسین فراقی ہیں۔ مجلہ کا چونتیس واں شمارہ حال ہی میں شائع ہوا ہے۔ عمدہ سفیدکاغذ پر ایک سو ساٹھ صفحات کے اس پرچے کی قیمت دوسو روپے بہت مناسب ہے، اور علم وادب کا جو خزانہ اس میں پنہاں ہے وہ انمول ہے۔ پرچے کے مدیر معاون ڈاکٹر اشفاق احمد ورک اور مجلس ادارت میں ڈاکٹر تبسم کاشمیری اور ڈاکٹر ظہیراحمدبابر شامل ہیں۔
اداریے میں مجلے کی اشاعت میں تاخیرکی وجوہ میں ڈاکٹر تحسین فراقی کی علالت شامل ہے۔ یہ شمارہ دسمبر2017ء کو شائع ہونا تھا۔ اس سال برعظیم کے دردآشنا، مصلح، رہنما اور اردو زبان و ادب کے محسن سرسید احمد خان کا دوسو واں جشنِ پیدائش منایا گیا۔ دنیا بھر کی جامعات میں سرسید کی یاد میں سیمینار اور کانفرنسیں منعقد کی گئیں۔ کئی پرچوں نے سرسید نمبر شائع کیے۔ مخزن نے بھی عظیم شخصیت کوخراج ِ تحسین پیش کرنے کے لیے ایک گوشہ سرسید احمد خان کے لیے مختص کیا ہے۔ اس گوشے میں ڈاکٹر خلیق انجم، پروفیسر اصغر عباس، مختار احمد مکی، پروفیسر حامدی کاشمیری، ڈاکٹر ابرار احمد قاسمی، ڈاکٹر رخسانہ صبا اور ڈاکٹر ظہیر احمد بابر کے مضامین شامل کیے گئے ہیں۔ ان تحریروں سے سرسید کی شخصیت و فن کے چند نمایاں گوشے ضرورآشکار ہوئے ہیں۔
اشفاق احمد ورک نے اداریے میں اس شمارے میں شائع ہونے والی تحریروں کا بہت خوبی اور اختصارکے ساتھ جائزہ پیش کیا ہے، جس سے پرچے میں شامل مشمولات کا قاری کو بخوبی علم ہوجاتا ہے۔ مخزن کے آغاز میں مضامین و مقالات میں قاضی افضال حسین کا مضمون’’واقعہ کی تاریخ سازی‘‘ بہت وقیع ہے، جس میں انہوں نے واقعہ سے تاریخ اخذکرنے کے عمل کا نہایت تفصیل سے ذکرکیا ہے۔ 1857ء کے حوالے سے اُن کا یہ تجزیاتی مضمون معلومات افزا اور دلچسپ ہے۔ پروفیسر قاضی جمال حسین نے مرزا غالب کے سفرِ کلکتہ کے دوران قیامِ بنارس اور وہاں غالب کے قلم سے منظرِعام پرآنے والی مثنوی ’’چراغِ دیر‘‘ کا نہایت خوبصورت احوال بیان کیا ہے۔ ڈاکٹر خالد محمود نے قارئین کو ’’بھوپال میں اردو شاعری کاآغاز و ارتقا‘‘ سے آگاہ کیا ہے۔ مضمون میں بھوپال کا خوبصورت علمی وادبی منظرنامہ بخوبی پیش کیا گیا ہے۔ ڈاکٹر علی محمد خان نے ’’اردو زبان کا عاشق‘‘کے زیرِعنوان ڈاکٹر وحید قریشی کی یادداشتوں اور اردو زبان سے محبت کی یادوں کو تازہ کیا ہے۔ ڈاکٹر امجد طفیل نے ارون دھتی رائے کے دوسرے ناول ’’انتہائی مسرت کی وزارت‘‘ کا شاندار تجزیہ پیش کیا ہے۔ ناول میں انسانی حقوق اور سیکولرازم کا نعرہ لگانے والے بھارت کے، اقلیتوں پرڈھائے جانے والے، شرم ناک مظالم کی تصویرکشی کی گئی ہے۔ یہ ایک عمدہ تجزیاتی مضمون ہے جس سے ناول کی بخوبی تفہیم کی گئی ہے۔ ڈاکٹر خالد ندیم نے مختلف شعر اور بالخصوص کلام ِ اقبال سے ماخوذ عنوانات ِ کتب کی تفصیلات پیش کی ہیں جو بہت دلچسپ اور چشم کشا ہیں۔ اس میں اقبال شناسی کے حوالے سے ایک نیا پہلو بھی ہے۔ جناب انور محمد انور نے ن۔ م۔ راشد کی نظم ’’دریچے کے قریب‘‘ کا عمدہ اور تفصیلی تجزیہ کیا ہے۔ ڈاکٹر عنبرین منیر نے ’’جیلانی کامران کی نظم میں تہذیبی شعور‘‘ کا جائزہ لیا ہے۔ فائزہ فرمان نے مضمون ’’آبسے لاہور میں‘‘ میں لاہور میں بسنے اور شہرت حاصل کرنے والے ادیبوں اور دانش وروں سے قارئین کو متعارف کرایا ہے۔ جب کہ ڈاکٹر اشفاق احمد ورک نے ’’محمد خالد اختر کی تنقید‘‘ نگاری پر بہت عمدہ مضمون لکھا ہے۔ محمد خالد اختر نے ’’فنون ‘‘ میں اپنے منفرد انداز میں کتابوں پر تبصرے اور جائزے پیش کیے۔ ان کے یہ جائزے اجمل کمال کے ’’آج‘‘ کے ایک خصوصی شمارے اور پھرکتابی شکل میں شائع ہوچکے ہیں۔
سرسید احمد خان کے گوشے میں ڈاکٹر ظہیر احمد بابر نے سرسید کے مختصر تعارف میں گویا دریا کوکوزے میں بند کرکے پیش کردیا ہے۔ مضمون کے آخر میںگورنمنٹ پنجاب پبلک لائبریری میں موجود سرسید پرکتب کی فہرست محققین کے لیے بہت کارآمد ہے۔ ڈاکٹر غفورشاہ قاسم نے ’’اسلوب اور صاحبِ اسلوب‘‘ میں عنبریں صابرکی مرتبہ کتاب ’’صاحبِ اسلوب، جمیل احمد عدیل‘‘ کا جائزہ عمدگی سے لیا ہے۔ جریدے کے اختتام پر ذکیہ مراد نے قائداعظم لائبریری کی علمی و ادبی سرگرمیوں کا جائزہ پیش کیا ہے۔
مخزن کے اس شمارے میں جریدے کی اعلیٰ روایات کو برقرار رکھا گیا ہے، اور تمام مضامین بہت عمدہ اور معلومات افزا ہیں۔ اس قسم کے جرائد کو جاری رہنا چاہیے۔

حصہ