راشد عزیز
نجم سیٹھی کی رخصتی اور احسان مانی کی آمد کے ساتھ ہی اہم ترین سوال یہ ہے کہ کیا پاکستان کرکٹ بورڈ میں کوئی حقیقی تبدیلی آئے گی، یا صرف چہرے تبدیل ہوں گے؟ نجم سیٹھی کے فیورٹ فارغ ہوجائیں گے اور احسان مانی کے پسندیدہ لوگ ان کی جگہ لے لیں گے اور سب کچھ یوں ہی چلتا رہے گا؟
یہ درست ہے کہ نجم سیٹھی کے دور میں پاکستان کی کرکٹ میں بہتری نظر آئی، حالانکہ اُن کا کرکٹ کا کوئی بیک گرائونڈ نہیں تھا۔ لیکن وہ بہتری اس حد تک تھی کہ انہوں نے بھارت کی طرز پر یہاں بھی پاکستان سپر لیگ شروع کی اور پاکستان کی کرکٹ ٹیم کو غیر ملکی دورے کرائے، لیکن ملک میں کرکٹ کے فروغ اور ڈومیسٹک کرکٹ کے معاملات کو بہتر کرنے کے لیے کوئی خاطر خواہ اقدامات نہیں کیے جو ملکی کرکٹ کی ترقی اور فروغ، اور نئے کرکٹرز کی دریافت کے لیے بورڈ کا بنیادی فریضہ ہوتا ہے۔ بورڈ کی اوّلین ذمے داری ہے کہ لوکل اور ڈومیسٹک کرکٹ کو اس طرح آرگنائز کرے کہ ملک کے ہر حصے اور ہر خطے سے باصلاحیت کرکٹرز اُبھر کر آئیں۔ اور پھر یہ ذمے داری بھی کرکٹ بورڈ ہی کی ہے کہ کرکٹرز کی فلاح وبہبود اور اُن کے بہتر مستقبل کے لیے روزگار کے ذرائع پیدا کرے۔
احسان مانی نے عہدہ سنبھالنے سے پہلے بیان دیا ہے کہ میں کسی کا حامی یا مخالف نہیں، پروفیشنل لوگوں کو سامنے لانا چاہتا ہوں، بورڈ کی گورننس کو ٹھیک کرنا چاہتا ہوں۔ اہم سوال یہ ہے کہ کیا واقعی احسان مانی اس اصول پر عمل کریں گے؟ یا پھر گزشتہ سربراہان کی طرح میرٹ کے بجائے سفارش اور ذاتی پسند و ناپسند کا معاملہ رہے گا؟ یہ درست ہے کہ کرکٹ ایک پروفیشنل کھیل ہے اور اس کا انتظام چلانے کے لیے پروفیشنل ٹیم ہی ہونی چاہیے، لیکن کئی وجوہات کے سبب ہمارے یہاں ایسا نہیں ہوا ہے، اور بورڈ کے سربراہ عموماً ایسے لوگوں کو ہی ذمے داریاں سونپتے ہیں جن کا اپنی فیلڈ میں زیادہ بڑا نام نہ ہو، اور وہ وہی کریں جو اُن سے کہا جائے۔
کرکٹ وہ کھیل ہے جس میں ملک کے قیام کے بعد ہی سے پاکستان کا بڑا نام رہا ہے، اور ابتدا ہی میں پاکستان ٹیم میں ایسے کرکٹرز رہے ہیں جن کا شمار دنیا کے صفِ اوّل کے کھلاڑیوں میں رہا ہے، جن میں فضل محمود، خان محمد، محمود حسین، حنیف محمد، نذر محمد، امتیاز احمد وغیرہ کے نام اہم تھے۔ اس کے بعد آصف اقبال، وسیم باری، مشتاق محمد، انتخاب عالم، سعید احمد، ماجد خان، عمران خان، جاوید برکی، محسن خان، نسیم الغنی، انضمام الحق، مدثر نذر، سرفراز نواز، سلیم ملک، وسیم اکرم، وقار یونس، وسیم راجا، ظہیر عباس، جاوید میانداد، یونس احمد، اقبال قاسم، توصیف احمد، نذیر جونیئر اور لاتعداد ایسے کھلاڑی اُبھر کر آئے جو کرکٹ کی دنیا میں پاکستان کی شناخت بنے اور انہوں نے انگلش کائونٹی وغیرہ میں بھی بڑا نام کمایا۔ پاکستانی ٹیم نے دنیا کی تمام ٹیموں کو شکست دی، لیکن اُس دور میں کرکٹ بورڈ ایک چھوٹا سا بورڈ ہوتا تھا جس میں ایک چیئرمین، ایک سیکریٹری، ایک آفس سیکریٹری اور دو تین کلرک ہوا کرتے تھے۔ چیئرمین اور سیکریٹری کے عہدے اعزازی ہوتے تھے، اس کے علاوہ ایک گورننگ باڈی ہوتی تھی جس کے ممبر ملک کی مختلف کرکٹ ایسوسی ایشنز کے نمائندے اور بورڈ سے الحاق شدہ اداروں کی ٹیموں کے نمائندے ہوتے تھے۔ جیسے جیسے کرکٹ میں پیسہ آتا گیا ویسے ویسے بورڈ کمرشل آرگنائزیشن کی صورت اختیار کرتا گیا اور بالآخر اس کی شکل ایک ملٹی نیشنل آرگنائزیشن جیسی ہوگئی جہاں لاکھوں روپے ماہانہ تنخواہوں کے عہدے پیدا کیے گئے، اور پھر ان عہدوں کے حصول کے لیے وہ طریقے اختیار کیے گئے جو اس کرپشن کے مارے ملک کے دیگر اداروں میں جاری و ساری ہیں۔ پاکستان کرکٹ بورڈ (پی سی بی) جو پہلے بورڈ آف کنٹرول فارکرکٹ اِن پاکستان (بی سی سی پی) کہلاتا تھا، کے دستور میں ایک بڑی ترمیم یہ کی گئی کہ پہلے اس کا پیٹرن صدر ہوتا تھا، اب وزیراعظم ہوگیا۔ اور اس طرح اس کھیل میں سیاست کی مداخلت بڑھ گئی اور بورڈ کا سربراہ سیاسی وابستگی کی بنیاد پر مقرر کیا جانے لگا۔ جبکہ کرکٹ کھیلنے والے دیگر ممالک میں اس عہدے پر عموماً کسی نامی گرامی کرکٹر کو لگایا جاتا ہے۔ نجم سیٹھی کی تقرری اسی سیاسی تقرری کی ایک مثال تھی۔
احسان مانی کے کرکٹ بورڈ کے سربراہ کی حیثیت سے تقرر پر فی الوقت اس لیے تنقید نہیں کی جاسکتی کہ انہیں کرکٹ کے معاملات چلانے کا تجربہ ہے اور وہ کرکٹ کے سب سے بڑے ادارے انٹرنیشنل کرکٹ کونسل (آئی سی سی) کے تین سال تک صدر رہ چکے ہیں۔ 73 سالہ احسان مانی پیشے کے اعتبار سے چارٹرڈ اکائونٹنٹ ہیں، انہوں نے طویل عرصہ آئی سی سی میں پاکستان کی نمائندگی کی، اور پھر 1996ء میں وہ آئی سی سی کے فنانس اور مارکیٹنگ ڈپارٹمنٹ کے سربراہ بنے۔ 2002ء میں ایگزیکٹو بورڈ کے نائب صدر، اور 2003ء میں صدر بنے۔ اس لحاظ سے احسان مانی کو کرکٹ کے کھیل اور اس کے انتظامات کا طویل تجربہ ہے۔ دنیا بھر کے کرکٹ بورڈز کے منتظمین اور کھلاڑیوں سے بھی ان کی واقفیت ہے، اور اگر غیر جانب داری کے ساتھ اپنی ٹیم کا انتخاب کریں، ذاتی پسند و ناپسند کو بالائے طاق رکھ کر صرف اور صرف میرٹ کی بنیاد پر فیصلے کریں تو پاکستان کی کرکٹ کو بہت فائدہ ہوسکتا ہے۔ لیکن ان کو اپنی ترجیحات میں قومی کرکٹ ٹیم اور غیر ملکی دوروں سے بڑھ کر مقامی کرکٹ کو سرفہرست رکھنا ہوگا۔ سوچنا ہوگا کہ کیوں ہمارے ملک میں آج عمران خان، جاوید میانداد، وسیم اکرم، وقار یونس، انضمام الحق اور شعیب اختر جیسے کھلاڑی پیدا نہیں ہورہے۔ کیا وجہ ہے کہ پاکستان نے شاہد آفریدی کے بعد کوئی اسٹار کرکٹر پیدا نہیں کیا۔ کراچی اور لاہور جیسے شہروں سے ٹیلنٹ کہاں غائب ہوگیا ہے اور ملک کے بڑے بڑے ادارے اپنی ٹیمیں کیوں ختم کررہے ہیں۔ نوجوان کرکٹرز کو روزگار کس طرح فراہم کیا جائے گا۔ اس کے علاوہ دہشت گردی کے سبب غیر ملکی ٹیموں نے پاکستان نہ آنے کا فیصلہ کیا ہوا ہے، انہیں کس طرح یہاں لانا ہوگا۔ پاکستان اور بھارت کے درمیان کرکٹ تعلقات کو کس طرح ازسرنو بحال کیا جاسکتا ہے، اور بھارت کے خلاف کیس کو کس طرح کامیابی سے چلایا جاسکتا ہے۔
کرکٹ بورڈ میں دو طرح کے افسران اور اہلکار ہیں۔ ایک وہ جن کا تعلق کرکٹ کے کھیل کے بجائے دیگر شعبوں یعنی مارکیٹنگ، اکائونٹس، لیگل اور تنظیمی امور سے ہے، دیگر وہ شعبے ہیں جن کی نگرانی بنیادی طور پر کرکٹ پروفیشنلز کرتے ہیں مثلاً ڈائریکٹر انٹرنیشنل کرکٹ، ڈائریکٹر لوکل کرکٹ، ٹریننگ، کوچنگ اور سلیکشن وغیرہ۔ دیگر شعبوں میں تو عام طور پر زیادہ اکھاڑ پچھاڑ نہیں ہوتی لیکن جن شعبوں کا تعلق کرکٹرز سے ہوتا ہے وہی زیادہ اہمیت کے حامل ہوتے ہیں اور ان ہی میں جانب داری اور ذاتی پسند و ناپسند کا زیادہ دخل ہوتا ہے۔ نئی انتظامیہ کے آتے ہی پرانے لوگ پریشان ہیں، ان کو بے روزگار ہونے کا زیادہ خطرہ ہے۔ بورڈ کے معاملات میں میرٹ کا قتل کس طرح ہوتا ہے اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ جاوید میانداد، وسیم اکرم، محسن حسن خان، وقار یونس، مشتاق احمد، شعیب اختر جیسے صف اوّل کے کرکٹرز بورڈ کے معاملات سے دور ہیں اور شفیق احمد پاپا، ہارون رشید اور ذاکر خان جیسے اوسط درجے کے کرکٹرز کرتا دھرتا بنے ہوئے ہیں۔ نئی انتظامیہ کو چاہیے کہ وہ ان درجۂ اول کے پروفیشنلز کی صلاحیتوں سے فائدہ اٹھائے، نتائج یقینی طور پر حوصلہ افزا ہوں گے۔