نئے شاعر، باقر مہدی رضوی

616

اسامہ امیر
شاعری کے وسیلے سے ہم مختلف شخصیات کے مختلف ادوار سے گزرتے ہیں اْن میں ہماری تہذیب کی جھلکیاں نمایاں ملتی ہیں وہ تہذیب جو ہمارے بڑوں نے ہم تک محفوظ کر کے پہنچائی آج ہم اِس خوب صورت تہذیب سے جڑے ہوئے ایک عمدہ تخلیق کار سے ملواتے ہیں میری مراد باقر مہدی رضوی سے ہے جو 1993میں روشنیوں کے شہر کراچی میں پیدا ہوئے اْن کی ادبی سرگرمیاں: ذو لسانی ادبی رسالے ’’ضو‘‘ کے بانی مدیر۔ اس رسالے کے اب تک ۸۱ شمارے شائع ہو چکے ہیں۔ آئندہ شمارہ زیرِ ترتیب ہے آئیے ان کی شاعری سے مل کر ایک جہانِ حیرت کی طرف سفر آغاز کرتے ہیں یہ سفر ہمیں کئی پگڈنڈیوں سے گزارے گا اور یاد داشتوں میں جگہ بنائے گا

دو دیے جو خالی ہیں ، زندگی کے روغن سے
ان کی ماہیت بدلیں ، ان کو چشمِ نم لکھیں
٭
خوں تو سب بہہ گیا کل رات ترے وار کے بعد
قطرہ قطرہ مرے پہلو سے یہ رِستا کیا ہے
٭
ہر یک شگفتِ گْل ہے نمودِ جہانِ نو
موقوف دو جہاں پہ حساب ِ نظر نہیں
٭
سَو عذرِ تراشیدہ، حاضر ہیں پئے خدمت
مٹتا رہا دنیا سے، مفہومِ پشیمانی
٭
کْھلنا تھے کئی راز مگر دیدۂ دل سے
سب تیرہ نگاہی کے حجابوں میں رہے ہیں
٭
کب سے غبارِ دل نے ابھرنے نہیں دیا
جامِ کمالِ آدمی بھرنے نہیں دیا
اس امتحاں سے ہم کو گزرنا ہے لَو بکف
ہر سْو سپاہِ جہل ستادہ ہے صف بہ صف
٭
حدیثِ مہر و وفا قصہ ہائے پارینہ
ہزار کام نکلتے ہیں آشنائی سے
٭
انگارے جاں بلب تھے، رقصِ ہوا نے لیکن
پھر روح پھونک دی ہے، بجھتی سی روشنی میں
٭
کیا روزگارِ لعل شناسی گزر گیا؟
اک خوف دکھ رہا ہے نگینے میں ان دنوں
٭
نشاط سوز کوئی بادِ بے مہار چلی
کہ خاکِ درد کے سینے پہ اک نہال آیا

عظمت کے مینار

حضرت عمر اور حضرت علی رضی اللہ عنہما بیٹھے باتیں کر رہے تھے ایسے میں ایک یہودی آیا۔ اس نے حضرت عمرؓ سے کہا ’’میں علی کے خلاف ایک مقدمہ لے کر آیا ہوں۔‘‘
حضرت عمرؓ حضرت علی کی طرف مڑے اور بولے ’’ابوالحسن کھڑے ہو کر جواب دو۔‘‘
حضرت علیؓ اٹھ تو گئے لیکن ساتھ ہی ان کے چہرے پر ناراضی کے آثار بھی نمودار ہوگئے۔ حضرت عمرؓ نے مقدمہ سنا‘ یہودی جھوٹا ثابت ہوگیا‘ اس کے جانے کے بعد پھر دوستانہ گفتگو شروع ہوگئی۔ حضرت عمرؓ نے ان سے پوچھا ’’جب میں نے آپ سے کھڑے ہو کر یہودی کو جواب دینے کے لیے کہا تھا تو آپ کے ماتھے پر بل کیوں پڑ گئے تھے‘ کیا آپ کو اس کے برابر کھڑا ہونا برا محسوس ہوا تھا؟‘‘
جواب میں حضرت علیؓ نے فرمایا ’’میرے ماتھے پر بل پڑنے کی وجہ یہ نہیں تھی بلکہ اس کا سبب یہ تھا کہ آپ نے مجھے میرے نام کے بجائے میری کنیت سے مخطاب کیا تھا یعنی اے ابوالحسن کہا تھا اس سے یہ پہلو نکلتا ہے کہ آپ نے مجھے عزت سے پکارا‘ یہودی کے مقابلے میں میرا لحاظ کیا‘ اگرچہ اس نے اس بات کو محسوس نہیں کیا لیکن میرے خیال میں یہ اس کے ساتھ ناانصافی ہوئی تھی۔‘‘
سیدنا عمرؓ نے ان کی بات کی تائید فرمائی۔

حصہ