سفیان وحید صدیقی
ملک میں بننے والی نئی حکومت ملکی نظام میں اصلاحات لانے کی جو کوششیں کررہی ہے وہ قابل ستائش ہے، اور سیاسی جماعتوں کو گلے سڑے نظام کی اصلاح کے لیے نومنتخب حکومت کا ساتھ دینے کے ساتھ ساتھ اسے وقت بھی دینا چاہیے۔ معاشی اصلاحات کے ساتھ ملکی مفادات پر مبنی آزاد خارجہ و معاشی پالیسی ناگزیر ہے تاکہ پاکستان اقتصادی مشکلات سے نکل سکے اور عالمی سطح پر ملک کا وقار بلند ہو۔ وزیراعظم عمران خان نے امریکا کے ڈومور مطالبے کو مسترد کرکے جرأت مندانہ قدم اٹھایا ہے۔ نئی وفاقی کابینہ کا وزیراعظم اور وزرا کے صوابدیدی فنڈز کا اختیار ختم کرنا اور سرکاری دفاتر کے اوقاتِ کار بڑھانا احسن اقدام ہے، کیونکہ پارلیمنٹ کا کام قانون سازی کرنا ہے، بجٹ کی بندر بانٹ کرنا ہرگز نہیں ہے۔ پاکستان کو اس وقت اندرونی و بیرونی محاذوں پر بے شمار مسائل کا سامنا ہے اور مل جل کر ہی ان مسائل سے نمٹا جاسکتا ہے۔ پارلیمنٹ کو نظام تعلیم پر توجہ دینی چاہیے اور یکساں نظام تعلیم رائج کرنے کے لیے تگ ودو کرنی چاہیے۔ پاکستان اسلام کے نام پر بنا ہے اور اسلامی نظام ہی ہماری بقا و سلامتی کا ضامن ہے۔ نئی حکومت کو اتحادِ بین المسلمین کو فروغ دینے کے لیے ٹھوس کوششیںکرنی چاہئیں۔ اس حوالے سے پارلیمنٹ پر یہ لازم ہوگا کہ وہ قراردادِ پاکستان کی اصل روح کے مطابق کام کرے۔ صوبوں میں احساسِ محرومی کے خاتمے کے لیے اقدامات وقت کی ضرورت ہیں۔ گلگت بلتستان کو تعلیمی نصاب میں پاکستان کا پانچواں صوبہ لکھوانا اور پڑھانا چاہیے۔ جو لوگ یہ چاہتے تھے کہ آرٹیکل62۔63کو ختم کردیا جائے، ایسے عناصر کو پارلیمنٹ میں شکست دینا ہوگی۔ احتساب کے عمل کو مزید طاقتور اور شفاف بنانا ہوگا۔ یہ وقت سیاسی جماعتوں سے کالی بھیڑوں کو نکال باہر پھینکنے کا ہے، جو لوگ بھی نظریۂ پاکستان کے خلاف کام کرتے دکھائی دیں اُن کے خلاف کارروائی کرنا ہوگی۔ پاکستان آگے کی جانب بڑھ رہا ہے، یہ سفر جاری رکھنا ہوگا، تبھی ہم ترقی یافتہ ممالک کی صف میں شامل ہوپائیں گے۔ ملک کو درپیش توانائی سمیت پانی کی قلت، بے روزگاری اور کئی تصفیہ طلب مسائل کو مل کر حل کرنا ہوگا۔ پانی کا مسئلہ حل کرنا بہت ضروری ہوگیا ہے۔ یہ بات آج بھی ذہنوں میں تازہ ہے کہ کالا باغ ڈیم کی مشروط حمایت صوبہ سندھ اور سرحد نے نومبر2006ء میں کردی تھی، یہاں تک کہ چیئرمین واپڈا نے یقین دہانی بھی کرادی تھی کہ نہریں نہیں نکالیں گے۔ اصل مسئلہ پانی کی قلت کا ہے۔ ڈیم چاہے جو بھی بنایا جائے عوام کو پیاس سے نہیں مرنے دینا چاہیے۔ حالیہ الیکشن پر بھی خاصے اعتراضات ہوئے ہیں، اگر آئندہ الیکشن بائیو میٹرک طریقہ کار پر ہوں تو شک کی گنجائش باقی نہیں رہے گی۔ آئین و قانون کی بالادستی میں ہی ملک کی بقا اور سلامتی ہے اور جمہوریت کسی طرح بھی انتقام کا نام نہیں۔ جمہوریت عوامی حکومت کے تسلسل کا عمل ہے۔ پاکستان نے دہشت گردی کے خلاف کامیاب جنگ لڑی ہے، پاک افواج اور قوم نے اس جنگ میں عظیم قربانیاں دی ہیں، مگر جن علاقوں میں اب بھی دہشت گردی کے خدشات ہیں وہاں مستقل فوجی چھائونیاں بنائی جانی چاہئیں۔ اسی طرح ہمسایہ ممالک اور دیگر ملکوں سے بہتر تعلقات کو فروغ دینے کے لیے مؤثر اقدامات اٹھانا ہوں گے۔ موجودہ دور میں کوئی بھی ملک الگ تھلگ رہ کر ترقی نہیں کرسکتا، تاہم بھارت کے ساتھ تعلقات مقبوضہ کشمیر کا مسئلہ حل ہونے کے بعد ہی بہتر ہوسکتے ہیں۔ مقبوضہ کشمیر و فلسطین کے مسائل کا حل اور پائیدار امن و امان کا قیام وہاں ناجائز قبضوں کے خاتمے سے مشروط ہے۔ مشرق وسطیٰ کے مسئلے کے حل کے لیے بہت ضروری ہے کہ اسرائیل کو فوری طور پر1967ء کی سرحدی پوزیشن پر واپس چلے جانا چاہیے۔ مقبوضہ علاقے خالی کردینے سے کسی حد تک عرب ممالک کے ساتھ تعلقات بہتری کی جانب آسکتے ہیں، لیکن مسئلہ فلسطین کا مستقل اور پائیدار حل آزاد فلسطینی ریاست کے قیام سے ہی ممکن ہے، اس کے لیے عالمی برادری کو اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی پالیسیوں سے عرب ممالک میں بے چینی بڑھ رہی ہے۔ مشرق وسطیٰ کی بہتری سے ہی دنیا کا امن مشروط ہے۔ مقبوضہ کشمیر میں بے گناہ معصوم کشمیریوں کا قتل عام کیا جارہا ہے۔ انڈیا پر لازم ہے کہ وہ اقوام متحدہ کی قراردادوں پر عمل کرے، اور یہ جموں و کشمیر کے باشندوں کا استحقاق ہے کہ وہ اپنے مستقبل کا فیصلہ کیا کرتے ہیں۔ مگریہ حقیقت ہے کہ جموں و کشمیر کے عوام کے دل کی آواز کچھ اور نہیں صرف یہ ہے کہ کشمیر بن کے رہے گا پاکستان۔ اور جب تک مسئلہ کشمیر کا مستقل حل تلاش نہیں کرلیا جائے گا، تب تک سیاچن سے دوطرفہ افواج کی واپسی ممکن نہیں۔ پاکستان نئے تعلقات کے دریچے کھول رہا ہے اور ہم یہ چاہتے ہیں کہ ہمسایہ ممالک کو ساتھ لے کر چلیں۔ بے روزگاری سمیت بہت سے مسائل ایسے ہیں جن کا ہم کو مل کر مقابلہ کرنا ہوگا، تاہم نفرتوں کو بھلا کر اب ہمسایہ ممالک کو مل کر سوچنا ہوگا۔ سوویت یونین کی تحلیل کے بعد روس کی جانب قدم محتاط انداز میں بڑھانا چاہیے، کیونکہ پاکستان وسط ایشیا کی جانب گامزن ہے اور وسط ایشیائی ممالک کے تعلقات روس سے بہت بہتر ہیں۔ ہمارا قدم اپنے مستقبل کی تلاش میں اہم پیش رفت ہوگی۔ عالمی تناظر میں امریکا سے دوستانہ تعلقات برقرار رہنے چاہئیں۔ افغانستان میں بھی مذاکرات کے راستے ہی قیام امن کو فروغ مل سکتا ہے، اور پاکستان بھی یہی چاہتا ہے۔ کیونکہ پُرامن افغانستان خطے کے لیے بہت اہم ہے۔ مگر افغان طالبان سے مذاکرات کا سوال اس وقت بہتر لگے گا جب افغان حکومت افغانستان سے دہشت گردی کا خاتمہ کردے۔ پاکستان میں حالیہ دہشت گردی مغربی سرحد سے داخل ہوئی، اس لیے مغربی سرحد پر حفاظتی باڑ ناگزیر ہے۔
آئین و قانون کی بالادستی میں ہی ملک کی بقا اور سلامتی مضمر ہے، اور جمہوریت کسی طرح بھی انتقام کا نام نہیں، جمہوریت عوامی حکومت کے تسلسل کا عمل ہے، مگر یہ حقیقت اپنی جگہ موجود ہے کہ نئی حکومت اپنے وعدے پورے نہیں کرسکی تو عوام کا جمہوری نظام سے اعتماد ختم ہوجائے گا، اور یہ صورت حال ہرگز ملک وقوم کے مفاد میں نہیں ہوگی۔