عشرت زاہد
(دوسری اور آخری قسط)
پتا ہی نہیں چلا اور تین بج گئے۔ تب امی نے سب کو زبردستی سونے کے لیے بھیجا۔ پھر اتوار کی شام میں آپی کے میاں بھی آگئے۔ کھانا کھا کر آپی اور بچوں کو لے کر جب وہ گئے تو گھر میں خاصا سناٹا محسوس ہوا کیونکہ دونوں بچے معاذ اور حسان بہت بولتے تھے۔
دوسرے دن رمشا نے امی سے پڑوس میں آمنہ خالہ کے گھر چلنے کے لیے کہا تو امی نے صاف منع کردیا ’’نہیں… نہیں کیا کرنا ہے جاکر۔‘‘
’’ارے امی، انیلہ سے ملوں گی اور کیا کرنا ہے!‘‘
’’رہنے دو تم… یہ بتائو تم نے عامر سے پوچھا کہ گھر کا کام کتنا باقی ہے اور تمہیں لینے کب تک آرہے ہیں؟‘‘
’’جی امی، دوپہر میں میری بات ہوئی تھی، بس دو دن کا کام باقی ہے۔ کہہ رہے تھے کل چاند رات ہے تو ذی الحج کا چاند ہم ساتھ ہی دیکھیں گے۔ کل عصر میں لینے آئیں گے کیونکہ امی جان یکم ذی الحج سے روزے رکھنا شروع کرتی ہیں، وہ بتا رہی تھیں کہ 9 روزے پورے رکھتی ہیں۔‘‘
’’ہاں ان دس راتوں کی عبادت اور دن کے روزوں کا بہت اجر ہے۔ اللہ تعالیٰ سب کو اس کی ہدایت دے، آمین۔ اچھا تو چاند تو تم لوگ اپنی چھت پر ہی دیکھ لینا۔ میں دوپہر کو ہی کسٹرڈ اور رس ملائی بناکر رکھ دوں گی اور شام میں جلدی سے پلائو بنا لوں گی، عامر کو پسند ہے ناں… تم اپنی ساری چیزیں ابھی سے پیک کرکے ایک طرف رکھ لو۔ عامر تھکا ہوا ہوگا اور زیادہ انتظار نہیں کرے گا… مردوں کا مزاج بگڑتے دیر نہیں لگتی۔‘‘
’’امی! آپ تو مجھے گھر سے نکالنے کے لیے بالکل تیار بیٹھی ہیں۔‘‘
’’ارے نہیں میری چندا بیٹی…‘‘ امی نے اس کے بالوں میں ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا ’’ماں باپ کے لیے بیٹیاں بہت قیمتی ہوتی ہیں، واقعی لختِ جگر ہوتی ہیں، اتنی پیاری کہ ان کی جدائی کا تصور ہی ماں باپ کو مار دیتا ہے، مگر کیا کریں… جب شادی ہوجائے تو بیٹیاں اپنے گھر ہی اچھی لگتی ہیں۔ امی کے گھر بس مہمانوں کی طرح آئیں اور وہ بھی اپنے میاں کی مرضی سے۔ اگر وہ نہ کہے تو نہ آئیں… یہی ہمارا دین کہتا ہے اور یہی زمانے کی روایت ہے۔‘‘
’’ہوں…‘‘ کہہ کر رمشا امی کے برابر ہی اُن کے بازو پر سر رکھ کر لیٹ گئی۔ بلاوجہ ہی اس کی آنکھیں نم ہونے لگی تھیں، اور امی بھی چپکے چپکے دوپٹے سے آنکھیں صاف کرنے لگیں۔ ’’یااللہ میری بچی کو اپنے گھر میں ہمیشہ خوش اور آباد رکھنا۔ شیطان کی چالوں سے محفوظ رکھنا، آمین۔‘‘
دوسرے دن صبح سے ہی رمشا کی تیاریاں چل رہی تھیں۔ اس نے اپنا بیگ پیک کرلیا، ساتھ ہی شاپنگ کی ہوئی ساری چیزیں ایک بڑے شاپر میں ڈال کر رکھیں، اور امی نے اس کے لیے لان کے کچھ سوٹ سیے تھے، وہ بھی رکھ لیے۔ پھر نہا کر نیا جوڑا پہنا، خوب اچھی طرح تیار ہوئی… امی دل ہی دل میں اس کی بلائیںلے رہی تھیں۔ آیت لکرسی پڑھ کر اس پر دَم کیا۔ ’’کتنی پیاری لگ رہی ہے میری بیٹی، ماشاء اللہ۔‘‘ عصر کی نماز پڑھ کر ابو واپس آئے تو امی نے پوچھا ’’چائے نکال دوں؟‘‘
’’نہیں… ابھی عامر کے ساتھ ہی پی لیں گے۔ عصر کے بعد آنے والا تھا ناں، ابھی آتا ہی ہوگا۔‘‘
لیکن کافی دیر تک عامر نہیں آیا تو امی نے باورچی خانے سے نکل کر رمشا سے پوچھا ’’کیا ہوا ابھی تک نہیں پہنچے تمہارے میاں! دیکھو کوئی میسج تو نہیں آیا ہوا؟ ورنہ وہ تو وقت کا بہت پابند ہے۔‘‘
’’نہیں امی، ابھی تک کوئی میسج نہیں آیا ہے، آپ فون کرلیں۔‘‘
اتنے میں عامر کا فون آہی گیا۔ ’’رمشا! یار میں ابھی نہیں آسکوں گا، کام تو الحمدللہ مکمل ہوگیا، صفائی بھی ہوگئی ہے اور گھر بھی دھلوا لیا ہے اچھی طرح، لیکن میں بہت تھک گیا ہوں، ہمت نہیں ہورہی ہے گاڑی چلانے کی، تم ایسا کرو کہ اپنے ابو یا بھائی کے ساتھ آجائو…‘‘
’’جی نہیں، ایسا کچھ نہیں ہورہا، امی نے کھانا بھی تیار کرلیا ہے آپ کی پسند کا چکن پلائو۔ کسٹرڈ اور رس ملائی بھی بنائی ہے۔ آپ کو امی کے ہاتھ کی پسند ہے ناں، آپ بس جلدی سے تیار ہوکر آجائیں… میں بالکل تیار ہوں، بس تھوڑی سی دیر کے لیے آجائیں۔‘‘
’’میں نے کہا ناں کہ بہت تھک گیا ہوں، نہ تیار ہونے کی ہمت ہے نہ ڈرائیو کرنے کی، تمہیں آنا ہے تو آجائو ورنہ…‘‘ اور فون کھٹ سے بند ہوچکا تھا۔
رمشا حیران سی فون ہاتھ میں لے کر بیٹھی تھی۔ اس آنکھیں جل تھل ہونے لگیں۔
’’کیا کہا عامر نے، کب تک آرہا ہے؟‘‘ امی کا پوچھنا تھا کہ آنکھیں برسنے لگیں۔ ’’آئے ہائے، کیا ہوا؟ اللہ خیر کرے… سب ٹھیک ہے ناں؟ کیا کہا ہے عامر نے؟‘‘
’’امی وہ… وہ نہیں آرہے لینے… کہہ رہے ہیں بہت تھک گیا ہوں، اپنے ابو کے ساتھ آجائو… تم کو آنا ہے تو آئو ورنہ وہیں رک جائو۔‘‘ آخری دو لفظ ’’وہیں رک جائو‘‘ اس نے اپنے انداز سے بڑھاکر بتائے تھے کیونکہ عامر نے تو صرف ورنہ کہا تھا۔
’’ہائے میرے اللہ… چلو تم جلدی سے عبایا پہن لو، میں اور تمہارے ابو دونوں چلتے ہیں تمہارے ساتھ۔‘‘
’’نہیں امی میں تو اس طرح سے نہیں جارہی… عجیب طریقے سے بات کی ہے انھوں نے… مجھے تو اپنی انسلٹ لگ رہی ہے۔ اب تو اگر وہ آئیں تو ہی جائوں گی ورنہ نہیں… آپ لوگوں کے ساتھ تو میں نہیں جارہی۔‘‘
’’نہیں میری بچی ایسے نہیں کہتے، بے چارہ تھکا ہوا ہے، اتنے دنوں سے سارا کام اکیلے ہی سنبھال رہا ہے ناں، تم کو تو تمہاری الرجی کی بیماری کی وجہ سے کام سے چھٹی مل گئی ورنہ کون اس بات کا خیال رکھتا ہے کہ بیوی کو رنگ کی بُو سے مسئلہ ہے تو اس کو دور رکھو… وہ کہہ سکتا تھا ناں کہ بی بی یہ دوائی کھائو اور کام میں میرا ہاتھ بٹائو… لیکن اس کو کتنی پروا، کتنا خیال ہے تمہارا۔ تمہیں بھی قدر کرنی چاہیے۔‘‘
’’وہ تو ٹھیک ہے امی، مگر کوئی اس طرح سے بات کرتا ہے کیا؟‘‘
’’کیوں کیا کہا ہے اس نے… گالیاں تو نہیں دی ہیں ناں، یہی کہا ہے کہ خود آجائو ابھی میں تھکا ہوا ہوں تو کیا حرج ہے اس میں! بیٹا ان چھوٹی چھوٹی باتوں کو اَنا کا مسئلہ نہیں بناتے۔ تمہیں پتا ہے ناں کہ وہ بار بار بات کو دہرانا پسند نہیں کرتا… کم گو ہے، تو کیوں ضد کرتی ہو؟ اس طرح سے دلوں میں گرہیں پڑ جاتی ہیں، رشتے کمزور ہونے لگتے ہیں اور بالآخر ٹوٹ جاتے ہیں۔ تم انیلہ کا بار بار پوچھ رہی تھی ناں، تو سنو طلاق ہوگئی ہی اس کو، اور ابھی عدت میں ہے آمنہ کے گھر میں۔ اور وجہ کیا تھی، پتا ہے؟ یہی وجہ تھی، اس کے شوہر نے بھی یہی کہا تھا کہ میں بہت مصروف ہوں تم خود آجائو… بس انیلہ نے ضد پکڑلی کہ آپ آئیں گے تو ہی آئوں گی ورنہ نہیں… بس بات بڑھ گئی اور اس نے کہا اب وہیں رہو۔ یہ بحث ہی تو شیطان کا پسندیدہ حربہ ہے… اسی وجہ سے میں نے تمہیں انیلہ سے ملنے نہیں دیا کہ اللہ نہ کرے اُس کا سایہ بھی تم پر پڑے… شادی کے صرف چار ماہ بعد ہی طلاق ہوگئی۔ جب اُس کا سامان واپس آیا تھا… کیا بتائوں کیسے کلیجہ کٹ رہا تھا۔ کتنے ارمانوں سے بیاہا تھا ماں باپ نے، مگر زبان کی تیزی نے یہ دن دکھایا۔ کتنے شوق اور محبتوں سے ماں باپ اولاد کی شادیاں کرتے ہیں، کتنی محنت، کتنا پیسہ لگاتے ہیں، اور عاقبت نااندیش اولاد قدر نہیں کرتی۔ ذرا صبر نہیں کرتی۔ برداشت تو گویا ختم ہی ہوگئی ہے، اور اس موبائل کو آگ لگے، سب سے زیادہ فساد اسی نے پھیلایا ہے۔ پل پل کی خبر اِدھر سے اُدھر کرکے گویا خودکش بم کی طرح ہر گھر میں موجود ہے۔ یہ گھر نہیں بسنے دیتا، اس لیے میں نے رخصتی کے وقت تم کو موبائل ساتھ نہیں لے جانے دیا تھا کہ پہلے اپنے میاں کا مزاج دیکھو، اجازت لو، پھر استعمال کرنا۔ ہم نے بہت سے گھر اس موبائل کی وجہ سے بگڑتے دیکھے ہیں، پہلے یہ نہیں تھے تو کیا لوگ زندہ نہیں تھے؟ اچھا خیر… میری بات ذرا لمبی ہوگئی، لیکن امید ہے تمہیں سمجھ آگئی ہوگی۔ شکر ادا کرو کہ اللہ نے بہت اچھا شوہر دیا ہے، بے چارہ شرافت سے بات کرتا ہے، اتنی اچھی ساس اور گھر والے دیے ہیں، ان کی قدر کرو، گھر میں دل لگائو، اس گھر کو اپنا گھر سمجھو۔ اب وہی تمہارا گھر ہے… ابھی تو سال نہیں ہوا شادی کو، اب کبھی اس طرح بدگمان نہ ہونا، صبر اور برداشت کو پلو میں باندھ لو، خود بھی خوش رہوگی اور ان سب کو بھی خوش رکھو گی ان شاء اللہ۔ چلو شاباش، میری پیاری بیٹی ہو ناں! منہ ہاتھ دھوکر جلدی سے تیار ہوجائو۔‘‘
’’نمرہ! نمرہ! وہ آیت الکرسی والا فریم پیک کرلیا تھا ناں، میں نے رمشا کے گھر کے لیے منگوایا تھا، وہ بھی گاڑی میں رکھوا دو، اور رمشا کا یہ سارا سامان بھی، اور کھانا بھی پیک کرکے گاڑی میں رکھو… وہیں کھا لیں گے سب مل کر… نمرہ بیٹا تم بھی تیار ہوجائو، جلدی کرو سب۔‘‘
رمشا مرے مرے قدموں سے چل کر منہ ہاتھ دھونے لگی، کیونکہ بات اس کی سمجھ میں آگئی تھی۔
مومن دن کا آغاز کیسے کرتا ہے؟
میرے عزیزو! ہمارے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے صبح سے رات تک، رات سے صبح تک ہر حالت و کیفیت کے لیے دعائیں بتائی ہیں تاکہ ہر وقت کچھ نہ کچھ اللہ سے تعلق قائم رہے۔ مسلمان صبح سویرے اٹھتا ہے تو پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے دعا سکھائی ہے کہ نیند سے بیدار ہوکر یہ کلمات کہا کرو:
(ترجمہ)’’تمام تعریفیں اس اللہ کے لیے، جس نے ہمیں مرنے کے بعد دوبارہ زندگی دی اور (ہمیں) اسی کی طرف لوٹ کر واپس جانا ہے۔‘‘
(صحیح بخاری، کتاب الدعوات،باب مایقول اذا صبح)
یعنی اس پر اللہ کا شکر ادا کیا کرو کہ اللہ نے زندگی کا ایک دن اور عطا فرما دیا ہے، یہ بھی اللہ رب العزت کی بڑی نعمت ہے کہ اچھے عمل کرنے کے لیے اور اپنے اللہ کا قرب حاصل کرنے کے لیے ایک دن اور مل گیا ہے۔ ایک مرتبہ ایک اعرابی نی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا ’’یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں میں سب سے بہتر کون ہے؟‘‘
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’وہ آدمی بڑا اچھا ہے جس کی عمر دراز ہو اور اس کے عمل اچھے ہوں۔‘‘ (سنن الترمذی، ابواب الزہد، باب ماجا، فی طول العمر للمؤمنین)
اس لیے مومن بندہ جب صبح اٹھ کر کہتا ہے کہ اے اللہ! آپ نے مجھے زندگی کا ایک دن اور دے دیا، آپ کا بڑا شکر ہے، میں آپ کو اور راضی کرنے کی کوشش کروں گا ورنہ اگر سویا ہی رہتا، اٹھ ہی نہ پاتا تو کیا کرسکتا تھا۔ یعنی صبح بیدار ہوکر اللہ جل شانہٗ کی حمد کررہا ہے کہ رضائے الٰہی حاصل کرنے کے لیے ایک موقع اور مل گیا ہے، لیکن سبق بھی ساتھ ساتھ یاد کررہا ہے یعنی مجھے یہاں ہمیشہ نہیں رہنا، لوٹنا اسی کی طرف ہے، جان اللہ کے پاس ہی ہے، میری منزل وہی ہے۔ اب دیکھیں میرے عزیزو! دن کا کیسا شاندار آغاز ہے، دن کی ابتدا کے ساتھ ہی دعائوں کا بھی آغاز ہے۔ ایک کافر بھی سوکر اٹھتا ہے اور ایک مسلمان بھی سوکر اٹھتا ہے، کافر کے اٹھنے کا انداز غفلت والا ہے، جب کہ مسلمان اللہ کو یاد کرتے ہوئے اٹھتا ہے۔ کافر کا اٹھنا بے مقصد ہے، جب کہ مسلمان کا اٹھنا اپنے مقصدِ زندگی کو سامنے رکھتے ہوئے ہے۔ اس کی پہلی دعا ہی یہ ہے کہ اے اللہ پھر یہ زندگی کی نعمت مل گئی ہے، آپ کا بڑا شکر ہے۔ لیکن آنا چونکہ مجھے آپ کے پاس ہی ہے، اس لیے میں اس نعمت میں آپ کو راضی کروں گا۔