حذیفہ عبداللہ
احمد اور اختر ایک ہی کلاس کے طالب علم تھے اور ان میں ایک مقابلے کی کیفیت رہتی تھی نہ صرف پڑھائی بلکہ کھیل میں بھی آگے رہنے کی لگن تھی وہ اسکول ٹیم کے علاوہ اپنے محلے کی کرکٹ ٹیم کا بھی حصہ تھے اپنی ٹیم کو کامیاب کرنے کے لیے بھرپور توجہ دیتے مقابلے اور آگے بڑھنے کی کیفیت کے باوجود ان میں کوئی رنجش نہیں تھی وہ دونوں ایک صحت مند مقابلے کے قائل تھے کھیل کے سلسلے میں مشورے دینے کے ساتھ وہ پڑھائی کے معاملات میں بھی ایک دوسرے کی مدد کرتے دراصل علم کا حصول اصل مقصد تھا وہ اس کو کیسے فراموش کر سکتے تھے۔ دونوں اپنی کلاس کے ذہین طالب علم تھے کبھی اختر اول آتا تو احمد دوئم، احمد اول آتا تو اختر دوئم اور یہ فرق بھی دو چار نمبروں سے ہی ہوتا دونوں کے پیشِ نظر ایک مقصد تھا وہ تھا کہ وہ پڑھ لکھ کر ڈاکٹر بننا چاہتے تھے تاکہ ملک و قوم کی خدمت کریں خدمتِ خلق اور خلق خدا سے محبت ان میں کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی اپنے ان ہی مقاصد کے پیشِ نظر وہ پڑھائی سے غفلت نہیں برتے تھے۔
اختر کچھ دنوں سے کلاس سے غائب ہونے لگا اور اسکول ٹائم میں بھی وہ کھیل کے میدان میں ہوتا دراصل اس کی دوستی کچھ ایسے لڑکوں سے ہو گئی تھی جن کا مقصد کھیل اور صرف کھیل تھا سارا سارا دن کھیلنے اور کلاس میں آخری بینچوں پر بیٹھنے بلکہ اکثر کلاس سے بھی غیر حاضر ہوتے۔ اختر ان کی دوستی کے باعث صرف کھیل کے میدان میں اپنا وقت صرف کرنے لگا احمد نے جب یہ صورتحال دیکھی تو اسے کہا کہ وہ کیا کر رہا ہے پڑھائی پر بالکل توجہ نہیں ہے کلاسسز سے بھی غیر حاضر ہے اختر نے کہا کہ کوئی بات نہیں میں اپنی پڑھائی کی کمی کو پورا کر لوں گا میں ذہین طالب علم ہوں دراصل اسے یہ ہی گھمنڈ پیدا ہو گیا تھا کہ وہ بہت ذہین ہے اور کھیل کود میں وقت صرف ہونے سے جو پڑھائی کا نقصان ہو رہا ہے اسے پورا کر لے گا احمد نے کئی مرتبہ سمجھانے کی کوشش کی لیکن اختر اب سمجھانے کے عمل سے نا خوش ہوتا بلکہ اس نے احمد سے دوستی بھی ختم کر لی ششماہی امتحانات قریب تھے جب امتحانات شروع ہوئے تو اختر پریشان ہوا کتابوں کے الفاظ اس کے سامنے دائروں کی شکل میں ناچ رہے تھے اسے کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا اپنی ناقص تیاری کے ساتھ امتحان دیا نتیجہ وہی ہوا جو ہونا تھا وہ اکثر پرچوں میں فیل تھا احمد نے پہلی پوزیشن لی اور دوسرے نمبر پر نوشاد آیا جس کی پوزیشن عموماً تیسری رہا کرتی تھی اختر رزلٹ ہاتھ میں لیے شرمندہ سا ایک کونے میں کھڑا تھا جب احمد نے دیکھا کہ اختر سب سے الگ تھلگ کھڑا ہے افسردہ ہے وہ فوراً اختر کے پاس گیا اسے گلے سے لگایا اختر رو پڑا اور بولا میں نے تمہارے سمجھانے کے باوجود پرھائی میں دلچسپی نہ رکھنے والوں سے دوستی رکھی اور اپنا وقت ضائع کیا اور آج یہ خراب نتیجہ میرے ہاتھ ہے آئندہ ایسا نہیں کروں گا احمد نے کہا کہ اختر وقت کی قدر کرنا چاہیے گزرا ہوا وقت دوبارہ نہیں آتا اب دیکھ تم فرسٹ یا سیکنڈ آتے تھے اب تمہاری جگہ نوشاد نے لے لی اگر آپ پیچھے رہے جائو گے تو کوئی نہ کوئی تو اس جگہ آ ہی جائے گا۔
اختر نے احمد سے وعدہ کیا کہ وہ تعلیم پر بھر پور توجہ دے گا اور اپنا مقام دوبارہ حاصل کرے گا خواہ اس کے لیے دن رات محنت کرنا پڑے کھیل کود کے وقت کو سالانہ امتحانات کم کروں گا اور دوبارہ ایک اچھا طالب علم بن کر دکھائوں گا احمد نے اختر کے عزم کو سراہتے ہوئے اپنے بھرپور تعاون کا یقین دلایا دونوں دوست ایک عزم لیے اپنے گھروں کی طرف روانہ ہو گئے۔