اے نگار وطن تُو سلامت رہے

9665

خواجہ رضی حیدر
قومی اور ملّی شاعری کو تمام اقوام میں بڑی اہمیّت حاصل ہے۔ یہ شاعری قوم کے افراد میں جہاں وطن کے حوالے سے احساسِ وطنیت کو اُبھارتی ہے وہاں اُن کو یہ احساس بھی دِلاتی ہےکہ فکر و عمل کے حوالے سے بحیثیّت ایک شہری، وطن ان سے کس ذمّے دارانہ رویّے کا مطالبہ کرتا ہے۔ یہی نہیں بلکہ قومی شاعری اُن کے اندر ایک سرشاری، جوش و ولولہ اور جذبۂ ایثار بھی پیدا کرتی ہے۔ یہ شاعری قومی شعور کی دریافت بھی ہوتی ہے اور بازیافت بھی۔ یہ انسان میں روپوش انقلابی قوّتوں، اخلاقی، مذہبی، سیاسی، معاشرتی، معاشی اور انتظامی تفہیم و تہذیب کے دروا کرتی ہے۔ کسی نے کہا تھا کہ قومی اور ملّی شاعری عموماً انسان کے گونگے افکار کو زبان دیتی ہے۔ اسی لیے یہ شاعری اپنے لب و لہجہ کی ندرت اور تاریخ سے کشید کی ہوئی فکری قوّت کے ذریعے اپنے عصر میں خوابیدہ افکار و احساسات کو بیدار کرتی ہےاور لمحۂ موجود میں مستقبل کے حوالے سے ایک ایسی منزل کا تعیّن کرتی ہے جو حبّ الوطنی کی انتہائی منزل ہے۔
برِّصغیر پاک و ہند کے مُسلم شعراء نے اپنے دورِ ابتلاء میں یعنی مغلیہ سلطنت کے زوال اور سامراجی اقتدار کی ریشہ دوانیوں  کے خلاف اپنی تخلیقی قوّتوں کو اپنے جذبات و احساسات کی ترجمانی کے لیے استعمال کیا۔ میر تقی میرؔ، مرزا غالبؔ اور اُن کے تمام معاصر شعراء نے قومی شاعری تخلیق کی جسے آپ مزاحمتی اور انقلابی شاعری کہہ سکتے ہیں لیکن بیسویں صدی کے آغاز پر علّامہ اقبال، شبلی نعمانی، مولانا ظفر علی خان، مولانا حسرت موہانی، مولانا محمد علی جوہر اور اکبر الٰہ آبادی کی قومی شاعری کی گونج پشاور سے راس کماری تک سُنائی دی جانے لگی۔ اوّلین مرحلہ پر مختلف تحریکوں کے حوالے سے شاعری کی گئی لیکن مارچ 1940 میں قراردادِ پاکستان کی منظوری کے بعد مقاصد کے اعتبار سے اِس شاعری میں ارتکاز پیدا ہوگیا۔
جِدّوجہدِ آزادی، مطالبۂ پاکستان اور قومی یکجہتی کے حوالے سے عوام کے جذبات اُبھارنے اور قائداعظم محمد علی جناح کا پیغام عام کرنے کے لیے کثرت سے نغمات و گیت لکھے گئے۔ طویل و مختصر نظمیں کہی گئیں اور مطالبۂ پاکستان کی حمایت میں منعقد ہونے والے اجلاسوں میں جوش و جذبہ کے ساتھ پڑھی گئیں۔ اِس دَور میں لکھے جانے والے نغمات، گیت اور نظمیں قیامِ پاکستان کے بعد ہماری قومی تاریخ کا حصّہ بن گئے لیکن سوچ کا یہ سفر یہاں تمام نہیں ہوا۔ برِّصغیر میں ایک علیٰحدہ مسلم وطن ’پاکستان‘ کے قیام کے بعد قومی شاعری نے ایک نیا رُخ اختیار کیا اور ایسی شاعری منظر پر گونجنے لگی جس میں حبّ الوطنی، قومی یکجہتی، ایثار و اخلاص، مٹّی کی محبّت، قوم اور وطن کے حوالے سے دردمندی اور فکری ایقان نمایاں تھا۔ جس میں اجتماعی قومی تشخص اور پاکستان کی نظریاتی اساس کو واضح کیا گیا ہے۔ اِس شاعری کو کسی بڑے ادبی تناظر میں شاید نہیں رکھا جاسکتا لیکن یہ شاعری اپنی اثر پذیری اور سحرانگیزی میں رُوح کے اندر ایک زمزمے کا روپ دھار لیتی ہے۔ ایسا زمزمہ جو سماعتوں کو جذبہ و احساس کی سرشاری عطا کرتا رہتا ہے۔ اِس شاعری میں صرف شاعر کا تخیّل ہی محوِ پرواز نہیں ہوتا بلکہ اِس میں موسیقار کا آہنگ اور گلوکار کی آواز کا بانکپن بھی کام کرتا ہے۔ گویا یہ نغمات بندشِ الفاظ کے ساتھ ساز و آواز کا ایک گلدستہ ہوتے ہیں جن کی خُوشبو ہمہ وقت مشامِ جاں کو معطّر کرتی رہتی ہے۔ یہ نغمات منزلِ مراد سے سچّی محبّت اور وابستگی کا اعلان ہیں۔
یہ نغمات اپنے اجتماعی تاثّر میں اگر بزم میں ریشم کی طرح نرم رہنے کا پیغام ہیں تو رزم میں حوصلۂ فولاد کی مانند غیر متزلزل جوش و ولولہ کے نقیب بھی ہیں۔ 1965 میں بھارتی جارحیت کے خلاف جس طرح پوری قوم سیسہ پلائی ہوئی دیوار کی طرح کھڑی ہوگئی تھی وہاں شاعروں اور موسیقاروں نے ایسے نغمات تخلیق کیے جو آج بھی قلوب کو گرماتے اور وطن کے دفاع کے لیے جان کا نذرانہ پیش کرنے کا درس دیتے ہیں۔
خدا کرے کہ مری ارضِ پاک پر اُترے
وہ فصلِ گل جسے اندیشۂ زوال نہ ہو
ان نغمات سے پاکستان کے عوام کے جذبات اور پاکستان کی نظریاتی معنویت پاکستان کی سرحدوں کے تحفظ کے لیے عزم پورے طور پر واضح ہے۔
آج مُلکِعزیز جن حالات سے دوچار ہے اُن کی سنگینی روز بروز بڑھتی جارہی ہے۔ جہاں ایک طرف دہشت گردی، ٹارگٹ کِلنگ اور مختلف قسم کی بدعنوانیاں عام ہیں وہاں عوام و خواص کے رویّوں سے ایک ایسی بے حسی ظاہر ہونے لگی ہے جو حوصلہ شکن بھی ہے اور کسی بڑے خطرے کی ابتدائی علامت بھی۔ پاکستان کے حوالے سے عموماً لوگ بے یقینی اور مایوسی کا شکار ہوتے جارہے ہیں اور حبّ الوطنی سوالیہ نشاں بن گئی ہے۔ ایسی صورت میں ضرورت اِس بات کی ہے کہ قوم کے افراد میں اعتماد اور حوصلے کو فروغ دیا جائے۔ اُن کو باور کرایا جائے کہ پاکستان تاقیامت زندہ رہنے کے لیے وجود میں آیا ہے اور اِنشاء اللہ بہت جلد اِس کو اندرونی اور بیرونی خطرات سے نجات دِلادی جائے گی اور ہم مستقبل قریب میں ایک خوشحال اور پائیدار پاکستان کے شہری ہونے کی حیثیّت سے اقوامِ عالم کے سامنے سربلند ہوں گے۔

اے نگار وطن تُو سلامت رہے
تُو سلامت رہے تا قیامت رہے
____
وطن کی مٹّی گواہ رہنا گواہ رہنا
وطن کی مٹّی عظیم ہے تو، عظیم تر ہم بنا رہے ہیں
____
یہ وطن تمہارا ہے تم ہو پاسبان اِس کے
____
رنگ لائے گا شہیدوں کا لہو
یہ لہو سرخی ہے آزادی کے افسانے کی
____
میرے فوجی جواں جراتوں کے نشاں
میرے اہلِ قلم عظمتوں کی زباں
میرے محنت کشوں کے سنہرے بدن
چاند میری زمیں، پھول میرا وطن
____
اپنا پرچم ایک ہے اپنا قائداعظم ایک ہے
____
سوہنی دھرتی اللہ رکھے قدم قدم آباد تجھے

رنگ لائے گا شہیدوں کا لہو

یہ لہو سرخی ہے آزادی کے افسانے کی
یہ شفق رنگ لہو
رنگ لائے گا شہیدوں کا لہو
جس کے ہر قطرے میں خورشید کئی
جس کی ہر بوند میں اک صبح نئی
دُور جس صبح درخشاں سے اندھیرا ہو گا
رات کٹ جائے گی گل رنگ سویرا ہو گا،
رنگ لائے گا شہیدوں کا لہو
رنگ لائے گا شہیدوں کا لہو
اپنی رفتار کو اب اور ذرا تیز کرو
اپنے جذبات کو کچھ اور جنوں خیز کرو
ایک دو گام پہ اب منزلِ آزادی ہے
آگ اور خوں کے ادھر امن کی آبادی ہے
خودبہ خود ٹوٹ کے گرتی نہیں زنجیر کبھی
بدلی جاتی ہے بدلتی نہیں تقدیر کبھی
رنگ لائے گا شہیدوں کا لہو
یہ لہو سرخی ہے آزادی کے افسانے کی
یہ شفق رنگ لہو
رنگ لائے گا شہیدوں کا لہو
رنگ لائے گا شہیدوں کا لہو

حصہ