(آخری حصہ)
پاکستانیوں کی ایک بہت بڑی تعداد بنگالی مسلمانوں پر مشتمل تھی جو موجودہ پاکستان کی آبادی سے کہیں زیادہ تھی۔ وہ بنگالی مسلمان جن کا پاکستان بنانے میں بہت بڑا کردار تھا بد قسمتی سے وہ موجودہ پاکستانیوں کی دست برد کا شکار ہوئے اوربہت خانہ خرابی کا شکار رہنے کے بعد پاکستان سے علیحدہ ہو گئے۔ ایک المیہ یہ بھی ہوا کہ جو بنگالی بنگلہ ڈیش کے حامی نہیں تھے اور وہ بیہاری جو پاکستان بچانے کی جد و جہد میں پاک فوج کے شانہ بشانہ اس جد و جہد میں شریک ہوئے وہ آج تک بنگالی مسلمانوں کے ہاتھوں ظلم و ستم کا نشانہ بنے ہوئے ہیں اور المیوں سے بڑا المیہ یہ ہے کہ اہل پاکستان ان کی چیخوں، سسکیوں، آنسوؤں اور آہوں تک کو سننے کے لیے اور ان کی داد رسی کرنے کے لیے تیار و آمادہ نہیں۔
ایک بد قسمتی یہ ہوئی کہ پاکستان نے اپنی خارجہ پالیسی کی بنیاد محبت کی بجائے دشمنی پر رکھی۔ خاص طور سے ہندوستان کے ساتھ مراسم خوشگوار تعلقات پر استوار کرنے کی بجائے دوری کی بنیاد پر قائم کیے۔ یہ سلسلہ یک طرفہ نہیں ہے۔ جتنی دوری پاکستان ہندوستان سے محسوس کرتا ہے اس سے کہیں زیادہ دوری ہندوستان پاکستان سے رکھتا ہے جس کی وجہ سے ہندوستان ہو یا پاکستان، دونوں دفاعی قوت بڑھانے پر مجبور ہوتے چلے گئے۔ پاکستان اور ہندوستان کا دفاعی توازن ویسے ہی بہت بگڑا ہوا ہے اس لیے ہندوستان چین کی بڑھتی ہوئی جنگی صلاحیتوں کا بہانا بنا کر اپنی دفاعی ضرورتوں کو جنون کی حد تک بڑھانے میں مصروف ہے۔ چین تو محض ایک بہانہ ہے اس لیے کہ چین کے عزائم کبھی بھی توسیع پسندانہ نہیں رہے۔ حقیقت صرف اتنی ہے کہ ہندوستان پاکستان سے یا دوسرے الفاظ میں مسلمانوں سے خوفزدہ ہے۔ اسی خوف و دہشت کی وجہ سے اس نے ایٹم بم بنانے میں بھی نہایت عجلت سے کام لیا۔ پاکستان محض ہندوستان کی وجہ سے اس دوڑ میں شامل ہوا۔ پاکستان اس بات سے خوب اچھی طرح باخبر تھا کہ ہندوذہنیت ایٹم بم یا ایٹمی ہتھیار استعمال کرنے سے باز نہ آئے گی کیونکہ کمزوروں پر ظلم ان کی فطرت میں داخل ہے اس لیے پاکستان کے لیے اس صلاحیت کا حاصل کرنا اور ایٹمی جنگ کا ایٹمی ہتھیاروں سے جواب دینا ضروری تھا۔ جب سے پاکستان نے ایٹمی صلاحیت حاصل کی ہے اس وقت سے ہندوستان کسی حد تک دباؤ کا شکار نظر آرہا ہے ورنہ ہر وقت جنگ کی دھمکیاں دینا اس کا معمول بن کر رہ گیا تھا۔
ایٹمی صلاحیت کوئی آسانی سے حاصل نہیں ہوتی ہے۔ پاکستان نے ایٹم بم تو بنا لیا لیکن وہ عالمی طاقتوں کے حصار میں بری طرح آگیا اور اب جنگ “ہاٹ” کی بجائے “کولڈ” وار میں تبدیل ہوگئی جس کی وجہ سے خوف و دہشت کے بادل ایک مرتبہ پھر گہرے ہونا شروع ہو گئے۔ اب یہ بادل پاکستان یا یوں کہہ لیں کہ برصغیر سے نکل کر افغانستان اور مشرق وسطہ تک گہرے ہو گئے ہیں۔
ایک جانب خوف و دہشت کے یہ بادل جو ہمیں بین الاقوامی سطح پر گھیرے ہوئے ہیں اور گہرے سے گہرے ہوتے چلے جا رہے ہیں تو وہیں دوسری جانب پاکستان میں خود پاکستانیوں کے ہاتھوں مسلمانان پاکستان بری طرح مجروح ہو رہے ہیں۔ پورا پاکستان ایک عجب قسم کے خلفشار کا شکار نظر آرہا ہے۔ پہلے کبھی مسلم اور غیر مسلم ہونا خوف و دہشت کی بنیاد ہوا کرتے تھے۔ پاکستان بنا تو مذہبی فرقے آپس میں برسر پیکار ہوتے رہے۔ ان کی شدت میں کمی آئی ہو یا نہ آئی ہو، ایک نئے فتنے نے پاکستانی مسلمانوں کو گھیر لیا اور وہ لسانی و علاقاعی تعصب تھا جس کا پہلا شکار بنگال اوربنگال کا مسلمان ہوا۔ پھر یہ زہر باقی ماندہ پاکستان میں پھیلنا شروع ہو اور آپس کی خونریزی تک جا پہنچا جس کا سلسلہ آج تک جاری ہے۔ بھر اس میں ایک اور فیکٹر کا اضافہ ہوا جس کو سیاسی چپقلش کہا جا سکتا ہے۔ یہ شپقلش بھی خونریزیاں برپا کرتی رہی ہیں اور شاید مستقبل میں ساری پچھلی خون خرابیان اس کے آگے ماند پڑجائیں۔
پاکستان میں سیاسی بنیاد پر چند سال قبل جو کچھ ہوا وہ پوری تاریخ انسانیت میں کہیں نظر نہیں آئے گا اور نہ ہی آیا ہوگا۔ 27 دسمبر 2007 کو بینظیر پرخود کش قاتلانہ حملہ ہوا جس میں قوم کی ایک عظیم لیڈر اور بیٹی اللہ کو پیاری ہوئی۔ ان کے ساتھ درجنوں اور اورافراد بھی شہید ہوئے۔ یہ صدمہ قوم کے لیے جس حد تک بھی صدمے کا باعث بنا وہ اپنی جگہ لیکن اس کے رد عمل کے طور پر جو کچھ بھی ہوا وہ کسی بھی ملک میں اپنے ہی ملک کے خلاف پوری دنیا میں کبھی نہیں ہوا ہوگا اور نہ ہی ایسا ہونا کہیں بھی ممکن ہے۔ بینظیر کی شہادت کو بہانہ بنا کر پورے ملک کی شمال تا جنوب اور مشرق تا مغرب ، ساری پراپرٹیز کو راکھ بنا کر رکھدیا گیا۔ قتل و غارت گری مچائی گئی۔ عزت و آبرو سے کھیلا گیا، بڑے بڑے ٹرالر، ٹرک، کاریں، دکانیں، بازار، ٹرینیں اور گھر جلادیے گئے جو اس بات کا بین ثبوت ہے کہ بینظر کے شہادت کا قصور وار پاکستان اور پاکستان میں بسنے والی ساری اقوام کو سمجھا گیا اور یہ کھیل ہفتہ بھر جاری رہا۔ یہ سب کچھ محشر برپا کرنے والی پارٹی ملک کی صرف ایک ہی سیاسی پارٹی تھی لیکن مزے کی بات یہ ہے کہ اسی سیاسی پارٹی کا ایک اور سب سے بڑا سرخیل جو ملک بدری کی زندگی گزاررہا تھا اور جس پر ملک کے اندر آنے پر قدغن لگی ہوئی تھی اس کو نہ صرف ملک میں آنے کی اجازت دی گئی بلکہ اسی ایک پارٹی کو اقتدار بھی دیا گیا اور اس کے پابند سلاسل لیڈر کو حکومت پاکستان کا صدر بھی بنا دیا گیا۔
بر صغیر انڈ وپاک کے مسلمانوں پر خوف کے بادل پھر بھی چھٹ کر نہیں دیے۔ حکومتیں اسی طرح ٹوٹتی اور بنتی رہیں، بندوقیں اسی طرح تنی رہیں۔ کبھی سویلین بادشاہوں کی اور کبھی وردی والوں کی۔ کوئی ایسا دن ابھی تک نہیں آیا جس میں سورج نے نکل آنے کے باوجود اندھیرے ختم ہو کر دیے ہوں۔ دھوپ بھی نظر آتی رہی اور آسمان بھی تاروں سے سجا دکھائی دیتا رہا۔
انھیں ساری کیفیتوں کے دوران جنگیں بھی ہوئیں۔ امن کے شادیانی بھی بجے لیکن شہنائیوں کی آوازیں سسکیاں اور آہیں ہی بکھیرتی رہیں۔
افغان وار نے یہاں کے مسلمانوں پر اور بھی قیامتیں ڈھائیں۔ لاکھوں لوگ اس مشکل گھڑی میں نہ صرف افغانوں کی مدد کو از خود بڑھے بلکہ پاک فوج کے کہنے پر ہتھیار بند ہو کر بے جگری کے ساتھ دشمن (روسی) پر اس بری طرح قہر بن کر ٹوٹ پڑے کہ روس جیسا مضبوط اور پہاڑ جیسا ملک بھی ان کے آگے ریت کی دیوار ثابت ہوا اور افغانستان سے راہ فرار اختیار کرنے پر مجبور ہوا۔ بد قسمتی سے وہ سارے بہادر افغان وار کے بعد پاکستان اور افغانستان میں دہشتگرد کہلائے اور دونوں جانب کی افواج کے نشانے پر آگئے۔ وہ قبائیلی علاقے جن میں ان کی پناگاہیں تھیں، وہ بھی زد میں آئے اور “دہشتگردوں” کے خلاف کارروائی کی وجہ سے صدیوں سے آباد اپنے اپنے علاقوں سے انھیں دربدر ہونا پڑا اور ابھی تک ان میں سے ایک کثیر تعداد اپنے گھروں کو آج تک لوٹ کر نہ جا سکی۔ ظلم پر ظلم یہ بھی ہوا کہ وہ اس پاکستان میں بھی مشکوک نگاہوں سے دیکھے جاتے ہیں۔ مشکوک نگاہوں سے دیکھے جانے والے وہ افغانی بھی ہیں جو اپنے ملک کے حالات کی وجہ سے پاکستان میں آج سے 40 برس قبل آباد ہوئے، یہیں رہائش اختیار کی، روزگار کے ذرائع ڈھونڈے، شادی بیاہ کے بندھوں میں بندھے اور پاکستان کی قومیت بھی اپنالی لیکن ان پر دہشت کے بادل اسی طرح چھائے ہوئے ہیں جس طرح 40 سال قبل افغانستان میں رہتے ہوئے ان پر چھائے ہوئے تھے۔
برصغیر کا ایک خطہ تو ایسا بھی ہے جہاں ہر آنے والا لمحہ ان کی زندگی کے ہر سانس کو گھونٹتا ہوا چلا آرہا ہے۔ یہ وہ مسلمان ہیں جو بین لاقوامی دہشتگردی کا شکار ہیں۔ کشمیر کے متعلق اقوام متحدہ میں یہ فیصلہ ہوا تھا کہ اس کو حق خود ارادیت کے اصول کی بنیاد پر حل کر لیا جائے گا۔ آج سے 70 سال قبل کا یہ فیصلہ بین الاقوامی دہشتگردی کا شکار ہو کر التوا میں پڑا ہوا ہے۔ بھارت اس وقت سے آج تک ان پر ظلم و ستم کی انتہا توڑے ہوئے ہے لیکن اقوام عالم کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگ رہی ہے۔
ان تما حالات کو سامنے رکھ کر کہا جاسکتا ہے کہ کئی صدیوں سے مسلمان جس خوف کے عالم سے باہر نکلنے کی جد و جہد میں مصروف ہیں وہ خوف و دہشت ایسی دلدل بنے ہوئے ہیں جس سے باہر نکلنے کی جتنی بھی کوشش کی جائے انسان اس میں اور بھی دھنستا جاتا ہے۔
تقسیم کے بعد بھی اہل پاکستان دہشت کی دلدل سے نکلنے کی جتنی بھی جد و جہد کر رہے ہیں، دلدل میں دھنستے جا رہے ہیں۔
کہتے ہیں کہ پاکستان میں جمہوریت کا سورج طلوع ہو چکا ہے۔ جمہوریت کا سورج طلوع ضرور ہوا ہے لیکن ایک ایسا گہن زدہ سورج ہے جس کی روشنی ایک بہت بڑے جسم نے اپنی آڑ میں چھپائی ہوئی ہے۔ جسم کی آڑ میں جمہوریت کے سورج کی یہ روشنی کئی بار سر زمین جمہوریہ پاکستان تک پہنچنے میں رکاوٹ بنی رہی ہے لیکن جو اجسام اسے چھپاتے رہیں ہیں وہ “معلوم” رہے ہیں لیکن اس بار جو سورج بنام جمہوریت طلوع ہوا ہے اس کی روشنی کو چھپا لینے والے اجسام “نامعلم” ہیں۔ جو نظر آرہے ہیں وہ ہیں نہیں اور جو ہیں ہیں وہ دکھائی نہیں دے رہے ہیں۔
خیال کیا جارہا تھا کہ نیا طلوع ہونے والا جمہوری سورج پاکستان کے مسلمانوں پر چھائے صدیوں سے دہشت کے بادل چھانٹ دیگا لیکن جس جسم کے متعلق یہی معلوم نہ ہو کہ وہ کائینات میں بکھرے ہوئے اجساموں میں سے کس جسم کا ہے تو پھر اس کی حقیقتوں کو کیسے پایا جاسکتا ہے۔
اس تمام صورت حال کے باوجود بھی کسی نے آج تک یہ نہیں سوچا کہ ایسا سب کچھ کیوں ہے؟۔ یہ محض اس لیے ہے کہ ہم نے جس سر زمین کو جس کے نام پر حاصل کیا تھا اس سے باغی ہو گئے ہیں اور جب تک اس بغاوتی عمل سے باز نہیں آیا جائے گا، یہاں اسی عہد و پیمان کے مطابق قانون وضع نہیں کیا جائے گا، اس وقت تک یہ بادل چھٹ کر نہیں دیں گے بلکہ ان کی تاریکیوں میں اضافہ در اضافہ ہوتا جائے گا۔ بہتر یہی ہے کہ شرکشی سے باز آیا جائے اور اللہ سے نہ صرف معافی طلب جی جائے بلکہ اس کے دربار میں مغفرت اور رحمت کی خصوصی دعائیں مانگی جائیں۔ ممکن ہے کہ ہمارا رونا پیٹنا، گڑ گڑانا اور چیخ و پکار رحمت خداوندی کے جوش میں آنے کا سبب بنا جائے اور ہمارا آنے والا مستقبل روشن و تابندہ ہو جائے۔ اس کے علاوہ اور کوئی بھی راستہ نہیں جو خوف و دہشت کے بادلوں کو ہمارے سروں سے ٹال سکے۔